ہمارے سینئر دوست نے طالبان ترجمان کا وہ جواب مجھے موبائل فون پر دکھایا جو بھارت کے ساتھ رابطوں سے متعلق سوال پر انہیں موصول ہوا تھا، "بالکل نہیں "۔ دوسری طرف میرے ذرائع اس بالکل نہیں، کی تردید کر رہے تھے۔ طالبان کے قریب اپنے دوست سے دو دن کے بعد رابطہ ہوا، پوچھا کیا واقعی بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر دوحہ میں طالبان سے ملے؟ یہ جون کا آخری ہفتہ ہو گا۔ جواب ملا، بالکل ملاقات ہوئی، پوچھا، بھارتی کیا چاہتے ہیں۔ جواب ملا:وہ افغانستان میں اپنے مفادات کے تحفظ کی ضمانت چاہتے ہیں، افغانستان میں موجود بھارت کا سفارتی عملہ، بھارت کے تعمیر کئے گئے منصوبے اور بھارت کے علاقائی کردار کو کم نہ کرنے کی ضمانت۔ طالبان نے کیا جواب دیا؟ طالبان نیکوئی لگی لپٹی رکھے بنا جواب دیا کہ بھارت کے سفارتی عملے کو تحفظ حاصل رہے گا، طالبان کو خطرہ لاحق ہوا تو کسی کو نہیں چھوڑیں گے، دیگر سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ ہو گا۔"
جے شنکر چاہتے تھے کہ طالبان کو کسی طویل ایجنڈے والے معاملے میں انگیج کر لیں۔ انہوں نے کوشش کی کہ طالبان کو تعمیر نو، سیاسی نظام کی تشکیل اور عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنے میں مدد کے موضوعات میں کھینچ کر گفتگو کو پھیلائیں لیکن انہیں کامیابی نہ ملی۔ اس سرراہ ہیلو ہائے نما رابطے کی خبر سب سے پہلے بھارتی اخبار "دی ہندو" نے اس طرح رپورٹ کی کہ زیادہ حصہ قطری حکام سے بات چیت پر مبنی ہے۔ دی ہندو نے قطر کے نمائندہ خصوصی برائے انسداد دہشت گردی و ثالثی مطلق بن مجید القحطانی کے حوالے سے بتایا کہ بھارتی وزیر خارجہ نے ایک ہفتے میں دو بار طالبان نمائندوں سے ملاقات کی۔ یہ امر دلچسپی کا باعث ہے کہ جب جے شنکر 9 اور 15جون کو دوحہ آئے تو امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد ان کی مدد کے لئے قطر میں موجود تھے۔ جے شنکر کچھ عرصہ پہلے طالبان دفتر کے قیام کی ایک تقریب میں یہاں آ چکے ہیں اس لئے ان کا خیال تھا کہ بھارت درپیش مشکل میں طالبان سے رابطے مضبوط بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ جے شنکر طالبان رہنما ملا برادر سے ملے۔ ہمارے ذرائع نے بتایا کہ اس مختصر ملاقات میں ملا ہیبت اللہ اور شہاب الدین دلاور بھی شریک تھے۔ بھارتی حکام نے افغانستان میں اپنے شہریوں کے تحفظ اور بھارت افغان تعلقات کو گفتگو کے ایجنڈے میں رکھا تھا۔ طالبان کا جواب تھا کہ اگر کوئی بھارتی شہری، سفارتی عملہ اور مرکز طالبان اور افغانستان کے مفادات کے خلاف کام کرتا پایا گیا تو اسے موقع پر ہی سزا دی جائے گی۔ بھارت بیس سال تک افغانستان میں کئی طرح کے جنگی جرائم میں امریکہ کا مددگار رہا ہے۔ طالبان کا یہ کہنا بھارتی حکام کو دہلانے کو کافی تھا۔ طالبان موقع پر جس طرح سزا دیتے ہیں وہ بھارت، امریکہ اور اشرف غنی خوب جانتے ہیں۔ اسی لئے جے شنکر چند روز قبل جب ماسکو میں روسی حکام سے ملے تو افغانستان کی صورتحال پر مایوسی ظاہر کی۔
بھارت کو فوری طوور پر جس چیز نے تشویش کا شکار کیا وہ اس کے پائلٹوں کا معاملہ ہے۔ طالبان زمینی حملوں کا مقابلہ کرتے آئے ہیں لیکن فضائی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں بیس برسوں کے دوران بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ ان کے پاس یہ معلومات موجود ہیں کہ طالبان، معصوم بچوں اور عام شہریوں پر بمباری کرنے والے کئی پائلٹ بھارتی فضائیہ کے ہیں۔ طالبان نے اب تک برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے تاہم پائلٹوں کے متعلق ان کی پالیسی غیر مبہم ہے، حالیہ دنوں سات یا آٹھ پائلٹ طالبان نے قتل کئے ہیں، ان میں کچھ بھارتی بھی ہیں۔ بھارت کے لئے یہ ایک بڑا دھچکا ہے، اب تک بھارت اپنا بہت سا عملہ افغانستان سے نکال چکا ہے۔ ان میں زیادہ تر سفارتی کور میں کام کرنے والے انٹیلی جنس کے لوگ تھے۔ یہ لوگ افغانستان میں طالبان کے خلاف لڑائی اور پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ افغانستان میں سفارت کار کے طور پر کام کرنے والے عملے کے ٹویٹ پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت دنیا کے سامنے طالبان کو امن دشمن، تعمیر دشمن اور غیر مہذب بنا کر پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے، بھارت یہ بات سمجھ نہیں پا رہا کہ اس کی یہ محدود سی ٹویٹر مزاحمت کیا امریکہ کی بہت بڑی طالبان مخالف میڈیا مہم سے طاقتور سمجھی جائے؟ بھارت کے لئے افغانستان کی صورت حال مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے، بھارتی وزیر خارجہ اور سیکرٹری خارجہ ہر وہ دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں جہاں سے طالبان کا گزر ہوا۔ دو سال پہلے جب امریکہ کی رضا مندی کے بعد پاکستان، روس اور چین نے افغان تنازع کو پرامن طریقے سے طے کرنے کے لئے وسیع تر ڈائیلاگ کا سلسلہ شروع کیا تو بھارت نے اس عمل میں گھسنے کی کوشش کی۔ اسے امید تھی کہ اس کا پرانا دوست روس اسے ماسکو میں طالبان کے ساتھ رکھی گئی نشست میں مدعو کرے گا لیکن اس وقت طالبان صرف امریکہ سے بات کرنے پر رضا مند ہوئے۔
طالبان نے درپردہ رابطوں کی بھارتی کوششوں سے بیزاری کا اظہار کیا۔ اس دوران بھارت اشرف غنی حکومت، افغان میڈیا اور امریکی سرپرستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افغان طالبان اور پاکستان کو دہشت گرد کہتا رہا۔ طالبان کے برسر اقتدار آنے سے بھارت افغانستان کی شکل میں ایک سٹریٹجک اتحادی سے محروم ہو چکا ہے، بھارت کی سرمایہ کاری ڈوب رہی ہے، طالبان کی کامیابی مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کے لئے مہمیز کا کام دے سکتی ہے، طالبان اور پاکستان ایک دوسرے کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اس لئے پاکستان کو ایک اور دوست ہمسایہ مل سکتا ہے، پاکستان کا مغربی بارڈر محفوظ ہو جائے گا۔ سی پیک اور وسط ایشیا تک جانے والے تجارتی راستے کھل سکتے ہیں۔ بھارت کے لئے یہ تصور کرنا سوہان روح ہے کہ وہ ہارے اور فرار ہوتے لشکر کا سپاہی ہے۔
جے شنکر کے پائوں تلے انگارے سلگ رہے ہیں وہ قطر کے بعد روس گئے، پھر ایک وفد لے کر ایران جا پہنچے۔ پاکستان اور چین کے سوا سب سے رابطہ کیا جا رہا ہے اور سب انہیں پاکستان کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ لگتا ہے پانی ان ہی پلوں کے نیچے سے بہے گا۔