بھارت میں نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کو تین ہفتے ہونے کو ہیں۔ یوں تو پورے بھارت کے کسان احتجاج کر رہے ہیں لیکن پنجاب میں اس احتجاج میں سے مستقبل کی کئی تحریکیں جھانکتی معلوم ہو رہی ہیں۔ کتنے ہی پنجابی گلوکار، اداکار اور کھلاڑی مودی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے تحریک آزادی کے دوران اپنے سکھ رہنمائوں کی غلط پالیسیوں کی مذمت کر رہے ہیں، قائد اعظم محمد علی جناح کی تعریف کی جا رہی ہے، کئی لوگ خالصتان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔ صاف دکھائی دیتا ہے کہ پنجاب بھارت کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ اس صورت حال میں بائیں بازو کے معاشی مفکرین دھورو راٹھی اور یوگندر یادیو مظاہرہ کرنے والے کسانوں کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ بھارت میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سرجیت بھلہ، عالمی بینک کے کنسلٹنٹ سوامی ناتھن آئیر اور گیتا گوپی ناتھ، آئی ایم ایف کے چیف اکانومسٹ کرشنا مورتی سبرامنیم اور ایسے ہی چند دیگر ماہرین نئے زرعی قوانین کی حمایت کر رہے ہیں۔ احتجاج کرنے والے اس امر پر بھی تعجب ظاہر کر رہے ہیں کہ اسرائیلی سفیر Ron Malkaنے نئے قوانین کی تعریف کی ہے۔ ران کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں اسی سسٹم نے کام کیا۔ ران مالکا کہتے ہیں کہ طویل المدتی لحاظ سے زرعی اصلاحات کا عمل کسانوں کے لئے جلد نئے مواقع فراہم کرے گا۔
زرعی قوانین سے متعلق بنیادی طور پر مودی حکومت نے تین بل منظور کئے۔ پہلا اسنشئیل کموڈٹیز ایکٹ ہے۔ غذا کے ذخیرہ کرنے پر عاید پابندیوں کو ختم کرتا ہے۔ یہ بل کاشتکاروں کو متاثر نہیں کرتا بلکہ تاجروں کا احاطہ کرتا ہے۔ اشیاء کو ذخیرہ کرنے پر پابندیاں نہیں ہوں گی اس لئے مڈل مین ذخیرہ کر سکتا ہے۔
دوسرا ایکٹ فارمرز ایگریمنٹ آن ایشورنس کے نام سے ہے، یہ ایکٹ ٹھیکیداری نظام کو باقاعدہ بنانے کے لئے تشکیل دیا گیا ہے۔ پاکستان کی صورت حال میں سمجھانا ہو تو یوں سمجھیے جس طرح ایک چپس کمپنی نے قصور اور اوکاڑہ کے کئی کاشتکاروں سے آلو کی پیداوار کے حوالے سے معاہدے کر رکھے ہیں۔ میں نے کاشتکاروں سے قانونی حیثیت پوچھی تو انہوں نے معاہدے کو زرعی کی بجائے لین دین کے معاملے کے طور پر دستاویزی بنانے کی تصدیق کی۔ پاکستان میں اس قسم کے معاہدوں کے بارے میں قانون سازی نہین ہو سکی۔ بھارت نے اس طرح کے معاہدوں کو قانونی ضابطے کی شکل دینے کی کوشش کی ہے۔
بھارتی کسانوں میں اضطراب کی بڑی وجہ FTPCایکٹ ہے۔ ہریانہ اور پنجاب کے کسان اس کے سخت خلاف ہیں۔ اس ایکٹ نے کسانوں کو اپنے علاقے کی منڈیوں میں جنس فروخت کرنے کی بجائے پیداوار کہیں بھی فروخت کرنے کی سہولت دی ہے۔ کسانوں کو خدشہ ہے کہ مودی حکومت اس قانون کی آڑ میں خریداری نظام کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔ اس قانون کی وجہ سے بڑی کاروباری کمپنیاں کسانوں کا استحصال کر سکیں گی۔ اس قانون سے بھارت کے صرف 6فیصد کسان فائدہ اٹھا سکیں گے۔
اس بل کے تحت کسان زرعی اجناس پیدا کرنے کے حق، رائٹ تو گرو، سے محروم ہوجائے گا، یوں حکومت کسانوں کو کارپوریشنز کے رحم و کرم پر چھوڑ رہی ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ اگر کارپوریشنوں اور کسانوں میں معاہدہ پر عملدرآمد پرکوئی تنازعہ پیدا ہواتو کسان اپنے مفاد کا تحفظ نہیں کرسکے گا۔ کسانوں کو خدشہ ہے کہ زراعت میں بعض اوقات غیر مستحکم صورتحال پیدا ہوتی رہتی ہے۔ اس صورتحال میں کسان کے پاس صرف ایک راستہ رہ جائے گا، خودکشی کا راستہ۔
یہ سارا معاملہ اتنا سادہ نہیں، کسی جمہوری ریاست میں جب حکومت غیر مقبول ہوتی ہے تولوگ اپنے مطالبات منوانے کے لیے احتجاج کرنے لگتے ہیں۔ نریندر مودی مسلسل ایسے فیصلے کر رہے ہیں جو ہندو توا کے نفاذ میں مددگار ہیں۔ انہوں نے 2016ء میں مالیاتی اصلاحات کے نام پراچانک بڑے نوٹ منسوخ کرنے کا اعلان کیا جس سے مالیاتی مارکیٹ پر برے اثرات مرتب ہوئے۔ 5 اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا یکطرفہ خاتمہ کردیا۔ فروری 2020ء میں اچانک ہی لاک ڈائون کا فیصلہ کیا، لاکھوں افراد شہروں سے دور دیہات میں اپنے گھروں کو پیدل جاتے دیکھے گئے۔ پھر شہریت کا قانون ہے۔ اس امتیازی قانون کے خلاف نئی دہلی کے شاہین باغ میں کئی ہفتے تک خواتین کا دھرنا رہا۔ ایسے سبھی فیصلوں سے وہ طبقات، برادریاں اور اقلیتیں متاثر ہوئیں جو عمومی معاملات میں بی جے پی کی مخالف ہیں۔ اس لیے ایسے فیصلوں کو صرف نیشنلسٹ ایجنڈہ کی عینک سے دیکھنے پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا۔
کال مارکس نے کہا تھا ذرائع پیداوار ہی ترقی کے معیار طے کرتے ہیں۔ سارا سماج اس اصول کی ذیل میں آتا تو غریب ممالک کب کے آسودہ ہو جاتے۔ یہ سرمایہ دار طبقہ ہے جو مزدور اور کسان تحریکوں کے خوشنما نعروں پر تحقیق کے لیے فنڈنگ کرتا ہے۔ تحریکوں کی نفسیات تک پہنچتا ہے اور پھر افلاس زدہ طبقات کو ان کے دیکھے گئے خواب فروخت کرنے کا طریقہ ڈھونڈ نکالتا ہے۔ مودی کی زرعی اصلاحات کے پیچھے ان کے دوست انبانی اور اڈانی خاندان ہیں جو امریکی اور اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ مل کر بھارت میں زرعی کاروبار کو نئی انتظامی شکل دینا چاہتے ہیں۔ وہ چھوٹے چھوٹے کسانوں کی جگہ پیداوار کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کی حکومت اور سماج کسانوں کے احتجاج کے اثرات کا ابھی تک درست اندازہ نہیں لگا پائے۔ پاکستان میں چین کی مدد سے زرعی ٹیکنالوجی او رکاشت کا عمل شروع ہونے والا ہے۔ چینی سرمایہ کار کے آنے کے بعد پاکستان کے کسان کو اجناس کے معیار، مقدار اور منڈی کے مسائل درپیش ہو سکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف میں مجموعی طور پر سینکڑوں بڑے زمیندار اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حامی ہیں لیکن کسانوں کے مفادات کا تحفظ کرنے والا ایک بھی ماہر اور دانشور نہیں۔ ان حالات میں خرابی کے امکانات سو فیصد موجود ہیں۔