کچھ معاملات میں بندہ آپ ہدرا ہو جائے تو اسے بے استادا کہا جاتا ہے۔ صحافت سے لے کر ادب، موسیقی اور سیاست تک آج کل بے استادوں کے ہاتھ میں ہے۔ بجٹ ایک دلچسپ دستاویز ہے۔ رکن پارلیمنٹ سارا سال اتنا نہیں سیکھتا جتنا ایک بجٹ سیشن اسے سکھا سکتا ہے لیکن سب بے ہدرے ہوئے جاتے ہیں۔
جن دنوں اطہر ندیم صاحب کے معاون کے طور پر کام کرتا تھا۔ معاشی اور مالیاتی امور پر لکھنا انتہائی دشوار ہوتا۔ سکول کے بعد ریاضی سے جان چھڑائی۔ یونیورسٹی میں ہمارا ایک پیپر انٹرنیشنل ٹریڈ اینڈ اکنامکس تھا۔ ایک بار پھر لگا کہ پاس نہ ہو سکوں گا۔ خوشی سے نہال ہو گیا جب اس پیپر میں سب سے زیادہ نمبر آئے۔ ہمارے اساتذہ عمران بھٹہ، رانا اعجاز اور ساجد صاحب کا شکریہ کہ بین الاقوامی تعلقات میں ہماری دلچسپی کو اس طرح پروان چڑھایا۔ جو کچھ اطہر ندیم صاحب نے ابتداء میں سکھایا وہ یونیورسٹی میں آ کر پختہ ہو گیا۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن سے تین چار بجٹ کے مواقع پر مضمون لکھوائے۔ لکھوائے کیا ڈاکٹر صاحب بولتے اور ہم لکھا کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے کہ بجٹ ریاست کی کنٹرولنگ پاور بڑھانے کے لئے استعمال ہو رہا ہے، جس روز بجٹ کا محور عوام کی زندگی میں آسانی لانا طے پا گیا پاکستانیوں کا معیار زندگی بلند ہو جائے گا۔ ان سے مسلسل اس موضوع پر بات کرنے سے مجھے پتہ چلا کہ جس طرح ایک گھر کی شکل صورت اس کے مکینوں کی ترجیحات سے نکھرتی ہے اسی طرح ریاست خودکفیل ہو، محتاج ہو یا عوام دوست ہو اس کا انحصار اس کے بجٹ پر ہوتا ہے۔
اب حالیہ بجٹ کو اسی سمجھ بوجھ کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔ بجٹ کا مجموعی حجم 8487ارب روپے ہے۔ یعنی ہمیں سال بھر کے مختلف اخراجات کے لئے یہ رقم درکار ہے۔ دوسری طرف ہماری آمدن 7909ارب روپے یوں 6.3فیصد رقم کم ہے۔ اب یہ رقم کہاں سے اور کن شرائط پر آئے گی یہ سوال اہم ہے۔ اس سلسلے میں کوئی غیر دانشمندانہ فیصلہ کیا گیا تو بجٹ میں جو رعائتیں اور سہولیات دینے کا اعلان ہوا ہے وہ واپس ہو سکتی ہیں۔
اس بار حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کے لئے 900ارب روپے مختص کئے ہیں۔ 3.06کھرب روپے قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوں گے۔ دفاعی اخراجات کے لئے 1.37کھرب رکھے گئے ہیں۔ احساس پروگرام کے لئے معقول رقم مختص کی گئی ہے تاکہ انتہائی غریب افراد کو گھر بیٹھے مدد فراہم کی جا سکے۔
معیشت کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک ہے میکرو اکنامکس، میکرو اکنامکس میں کارخانے، بڑی زمینداریاں اور روزانہ کروڑوں کا کاروبار کرنے والے آتے ہیں۔ پاکستان کی 21کروڑ کی آبادی میں میکرو اکنامکس کے دائرہ میں آنے والے افراد کی تعداد 10لاکھ ہو گی۔ دوسرا حصہ مائیکرو اکنامکس کا ہے۔ اس میں گھریلو دستکاریاں، چھوٹے کاروبار، ہنر اور پیداواری یونٹ شامل ہیں، چھوٹا کسان بھی اس کا حصہ سمجھ لیں۔
دکاندار اور پیشہ ور مائیکرو اکنامکس میں آتے ہیں۔ ان کی مجموعی تعداد کا اندازہ 2کروڑ ہو گا۔ ملک کا بجٹ بنانے والے مائیکرو اور میکرو کا فرق جانتے ہیں لیکن وہ یہ حوصلہ نہیں کر پاتے کہ سرکار جو مراعات کاروباری طبقے کے لئے رکھتی ہے اس کا منصفانہ حصہ چھوٹے کاروباری اور ہنر مند افراد کو فراہم کر سکیں۔ یوں ساری پالیسیاں 10لاکھ افراد کو مضبوط کرنے کے لئے گھڑی جاتی ہیں۔ باقی دو کروڑ یونٹوں کو کبھی معیشت دستاویزی بنانے اور کبھی سیلز ٹیکس کے نام پر خراب کیا جاتا ہے۔ ٹیکس وصول کرنے کے ایسے طریقے وضع کئے جاتے ہیں جو باقاعدہ اکائونٹنٹ اور منیجر رکھے بغیر انجام نہیں دیے جا سکتے۔ اب وہ لوگ جو کم پڑھے ہیں، جن کے پاس افرادی قوت نہیں، جو مزدوری کرتے کرتے کچھ کمانے کے لائق ہوئے ہیں وہ وکیلوں اور اکائونٹنٹس جیسے پیشہ وروں کے پیچھے کہاں بھاگیں گے۔ جب کاغذوں میں دکھائے باغ پھول نہیں دیتے تو اوپر والا کاروباری طبقہ شور مچاتا ہے کہ ملک صرف ان کے ٹیکس سے چل رہا ہے، ان کے عزیز رشتہ دار پارلیمنٹ میں بیٹھ کر یہی غوغا کرتے ہیں، یہ بیانیہ اس تواتر کے ساتھ دہرایا گیا ہے کہ تمام ماہرین معیشت بھی ان کے ہم خیال ہو گئے۔ حالیہ بجٹ میں یہ روایت توڑ دی گئی ہے۔ مجھے اس لئے یہ بجٹ مختلف نظر آیا۔
غلامی صرف آئی ایم ایف کی نہیں ہوتی، ہمارے بالائی طبقات نے چھوٹے کاروباری طبقات کو بھی غلام بنا رکھا ہے۔ کسی حکومت نے کوشش نہیں کی کہ مائیکرو اکنامکس کو منظم، آزاد اور مالیاتی غلامی سے نکالا جائے۔ چھوٹا کسان جب نئی فصل بونے لگتا ہے اسے روپے کی ضرورت پڑتی ہے۔ زرعی ملک کہلانے والے ملک میں یہ کسان قرض کے لئے بینکوں کے پاس نہیں جا سکتے۔ زرعی ترقیاتی بنک 1985ء کے بعد بننے والی حکومتوں نے اپنے لوگوں پر لٹا دیا۔ مقامی آڑھتی اور بیوپاری فصل بونے کے موسم میں بنک بن جایا کرتے ہیں۔ ماہانہ 5سے 10فیصد کی بھاری شرح پر کسان کو قرض دیتے، قرض کی شرائط میں شامل ہوتا کہ کھاد اور زرعی ادویات بھی ان سے خریدی جائیں گی، فصل آنے پر فی من 2سے 5کلو کٹوتی کر کے خریدی جاتی۔ یوں کسان کا سارا منافع آڑھتی کی جیب میں چلا جاتا۔ کسان کی اس غلامی کو پہلی بار ختم کیا جا رہا ہے۔ کسانوں کے لئے سکیم لائی جا رہی ہے کہ وہ ہر فصل کے وقت ڈیڑھ لاکھ تک قرض بلا سود حاصل کر سکتے ہیں۔ بجٹ میں بہت سی قابل اعتراض یا قابل تعریف سکیمیں ہوں گی، لیکن جانتا ہوں، کسان ہوں، کسان کی بات کرنا کسی کو قبول نہیں۔ معیشت نشوو نما کے لئے پرامن ماحول اور آزادی چاہتی ہے، ہماری معیشت کو کسی نے یہ ماحول فراہم کرنے کا نہیں سوچا۔ اس سکیم پر خلوص نیت سے عمل ہو گیا تو سمجھیں شہروں کی طرح دیہی سماج بھی اپنے فیصلے آپ کرنے کے قابل ہو جائے گا، معاشی ہی نہیں سیاسی فیصلے بھی محروم طبقات خود کریں گے، بجٹ میں عام آدمی کی زندگی آسان بنانے کا طریقہ جس نے متعارف کروایا اس سماجی سائنسدان کو سلام۔