عالمی طاقتیں بھیڑیا ہوتی ہیں، وہ جب اپنی مرضی پوری کرنا چاہیں تو اپنی کسی خواہش کو قانون کا نام دے کر دوسرے کو اس کی پابندی کا حکم دیتی ہیں، اپنے حکم کو بین الاقوامی قانون کا درجہ دے کر کمزور میمنے کو ڈراتی ہیں۔ دنیا بھر کے 57مسلم ممالک، کمیونسٹ اور سوشلسٹ شمار ہونے والے 30کے لگ بھگ ممالک اور اتنی ہی ایشیا و افریقہ کی پسماندہ ریاستیں جمہوری، مالیاتی و انسانی حقوق کے اعتبار سے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے برابر نہیں قرار پاتیں۔ انہیں مہذب ریاستیں نہیں کہا جاتا۔ مہذب ریاست امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش نے 2008ء میں چائلڈ سولجر پریونشن قانون نافذ کیا۔ یہ وہی قانون ہے جس کے تحت تین روز پہلے پاکستان اور ترکی کو پابندیوں والی لسٹ میں ڈالا گیا ہے۔ بارہ تیرہ سال سے یہ قانون پڑا ہوا تھا۔ اب بھیڑیے کا دل چاہا کہ پاکستان اور ترکی کو سبق سکھائے تو اس نے گرد جھاڑ کر ایک مقدمہ بنا دیا۔
اقوام متحدہ کے ضابطے دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں انسانوں کی قاتل فاتح کہلانے والی ریاستوں نے بنائے ہیں۔ فرانس اور برطانیہ جیسے قدیم ممالک جس طرح اپنی سمندری حدود کا تعین کرتے اور بیس لائن سے بین الاقوامی پانیوں تک کی درجہ بندی کرتے آج کے بین الاقوامی سمندری قوانین ان ہی کا عکس ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ انٹرنیشنل اٹامک ایجنسی کے معائنہ کار ہمیشہ ان ممالک پر اعتراض کرتے ہیں جو امریکہ کے دوست نہ ہوں۔ بھارت سے دو بار یورینیم کی بڑی مقدار چوری ہوئی لیکن امریکہ کی دوستی ہے اس لئے کوئی ایسا جملہ سننے کو نہیں ملا کہ یہ تباہ کن مواد دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جائے گا۔ کیا امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے خود بربادیاں اتارنے والے ہتھیاروں کی لیبارٹریاں نہیں بنائیں۔ ویپن آف ماس ڈسٹرکشن کی مارکیٹنگ امریکہ سے ہوتی ہے۔ بس سرمایہ داری کا کمال یہ ہے کہ طاقتور اپنی جائز ناجائز شے کو فروخت کرنے کے ساتھ ایک لائسنس جاری کر دیتا ہے تاکہ اس طرح کی مصنوعات کی فروخت پر صرف اس کا قانونی حق رہے۔
امریکہ کے تازہ حوالے افغانستان سے سے مل رہے ہیں تو چائلڈ سولجر کا حوالہ بھی یہاں سے دیتے ہیں، امریکہ اور اس کے ڈیڑھ لاکھ اتحادی فوجیوں نے بیس سال تک افغانستان پر ہر طرح کے ہتھیار آزمائے۔ کتنے سو واقعات ہیں جب امریکی ڈرون طیاروں کی بمباری سے بڑی تعداد میں بچے جاں بحق ہوئے۔ یہ بچے ہتھیار بند تھے نہ لڑ رہے تھے۔ امریکی اور آسٹریلوی فوجیوں کی وہ تصاویر گزشتہ برس چین نے جاری کی تھیں جن میں وہ سات آٹھ برس کے افغان بچے اور بچیوں کو خنجر سے ذبح کر رہے تھے۔ امریکہ نے آج تک اس تاریخی سوال کا جواب نہیں دیا کہ وہ ہزاروں میل دور کے علاقوں میں جا کر جنگ کیوں مسلط کرتا ہے۔ چائلڈ سولجر ایکٹ اسے تب کیوں یاد نہیں آتا جب افغانستان میں اتحادی فوج کو مختلف خدمات فراہم کرنے کے لئے کمسن افراد بھرتی کئے گئے۔ سوویت یونین کے خلاف جہاد میں افغان بچوں کو لڑنے کی تربیت کس نے دی۔ آج بھی دنیا کے جس مسلح تنازع میں امریکہ شامل ہو وہاں کم سن عسکریت پسندوں کی وہ سرپرستی کرتا ہے۔
"چائلڈ سولجر ایکٹ کہتا ہے کہ ہر وہ مرد جس کی عمر 18سال سے کم ہے وہ کسی مسلح فوج، پولیس یا سرکار کے معاون سکیورٹی گروپ میں بھرتی نہیں ہو سکتا۔ نہ ہی کمسن افراد کو سکیورٹی فورسز کے ساتھ بطور باورچی، پیغام رساں، یا جنسی غلام کے طور پر رکھا جا سکتا ہے۔"
آپ کو یاد ہو گا 2015ء کے لگ بھگ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے سینکڑوں غیر ملکی این جی اوز پر رجسٹریشن کے بغیر پاکستان میں کام کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ شنید ہے ایسی ہی چند این جی اوز نے کچھ غیر مصدقہ ڈیٹا امریکی حکام کو فراہم کیا۔ افغانستان سے انخلا میں معاونت کی وجہ سے امریکی حکومت پاکستان سے بگاڑ نہیں چاہتی تھی، اس نے ڈیٹا کو سنبھالے رکھا۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان خطے میں بدامنی کے منصوبے میں حصہ دار بنے۔ ہماری معیشت اور ماضی کے تجربات ہمیں کہتے ہیں کہ یہ غلطی نہ کی جائے۔ ہماری مرضی اور امریکہ کی ضد آپس میں ٹکرا گئی ہیں جس سے نئے بحران جنم لے رہے ہیں۔
دراصل ٹریفکنگ ان پرسنز رپورٹ 2020-21ء کی بنیاد پر پاکستان پر چائلڈ سولجر ایکٹ کا نفاذ پاکستانی فوج کو غیر قانونی قرار دینے کے کسی بڑے منصوبے کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ اس قانون کی وجہ سے پاکستان کے اہلکاروں کو اقوام متحدہ کے امن دستوں میں شامل کرنے کی ممانعت ہو سکتی ہے، پاکستان کو فوجی تربیت کے کچھ پروگراموں سے محروم کیا جا سکتا ہے، سکیورٹی سیکٹر کی مالی امداد روکی جا سکتی ہے۔
اس قانون کو آزادی کی تحریکیں کچلنے کے لئے بھی استعمال کئے جانے کا خدشہ ہے، آزادی کی جنگ افریقی لڑیں، افغان لڑیں، کشمیری یا فلسطینی لڑیں بالغ نابالغ کی تفریق نہیں ہوتی۔ امریکہ نے ایک امتیازی قانون دنیا پر مسلط کر رکھا ہے جس سے اپنے خلاف اٹھتی آوازوں کو خاموش کرایا جاتا ہے۔ پاکستان کی کسی سکیورٹی ایجنسی میں کم سن افراد بھرتی نہیں ہوتے۔ ہاں کچھ دہشت گرد گروپوں میں کم سن خود کش حملہ آور ضرور دیکھے گئے ہیں، یہ وہی گروپ ہیں جن کو بھارت سے مدد ملتی ہے اور افغان سر زمین پر ان کی تربیت کی جاتی ہے۔
اس قانون سے خلاصی کا طریقہ یہ ہے کہ امریکی صدر کو کسی طرح راضی کر لیا جائے کہ وہ پاکستان کو اس قانون سے مستثنیٰ ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیں۔ ایسی جبر کی فضا میں بھیڑ کا بچہ اگر مزاحمت پر تیار ہو جائے تو اس کو چائلڈ سولجر ایکٹ سے ڈرایا جاتا ہے۔