سپریم کورٹ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے این اے 75 کے پورے حلقے میں الیکشن کرانے کا حکم جاری کیا ہے، بہتر یہی تھا کہ تشدد اور شکایات والے بیس پولنگ سٹیشنوں پر انتخاب کروا کر ریاست کا خرچ بچایا جاتا۔ تحریک انصاف نے عدالتی فیصلے کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے صورتحال دلچسپ ہو گئی ہے۔ حمزہ شہباز ضمانت پر رہا ہو کر سرگرم ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے 2008ء میں ضمنی انتخابات کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ حمزہ اس کمیٹی کے سربراہ چلے آ رہے ہیں۔ پنجاب میں 2008ء کے بعد مسلم لیگ ن نے ضمنی انتخابات میں جو اچھی کارکردگی دکھائی اس کا سہرا حمزہ شہباز کے سر باندھا جاتا ہے۔ اس کمیٹی میں بہت سے لوگ ہیں، اس کے کام کرنے کا طریقہ بہت منظم اور دلچسپ ہے۔ جب تک اس کمیٹی کے کام کرنے کے انداز سے واقفیت نہ ہو یہ بھید نہیں کھل سکتا کہ مسلم لیگ نون ضمنی انتخابات کیسے جیتتی رہی ہے۔
مسلم لیگ نون کی ضمنی انتخابات کمیٹی کے اراکین بدلتے رہتے ہیں، جو اراکین اسمبلی تواتر کے ساتھ اس کا حصہ رہے اور اب بھی ہیں ان میں مہر اشتیاق، راحیلہ خادم، چوہدری شہباز، رانا ثناء اللہ اور کچھ دیگر شامل ہیں۔ ڈسکہ ضمنی انتخاب کے لئے مذکورہ اراکین کے علاوہ احسن اقبال، فاطمہ خواجہ اور عطا تارڑ بھی متحرک ہیں۔
ضمنی انتخابات کمیٹی کو 2008ء سے 2018ء تک مسلسل حکومتی مدد حاصل رہی ہے، سیاسی ہوم ورک کے ساتھ ساتھ انتظامی سطح پر ایسی حکمت عملی ترتیب دی جاتی جو نون لیگی امیدوار کی پوزیشن مضبوط کرتی۔ سیاسی ہوم ورک کے لئے صوبے کے مختلف حلقوں سے آئے تجربہ کار کارکن ووٹر لسٹوں کی پڑتال کرتے، مقامی قیادت کے ساتھ مل کر پورے حلقے کو مختلف گروپوں میں بانٹ لیا جاتا۔ ہر گروپ روزانہ ووٹروں سے ملاقات کا ایک ٹاسک پورا کرتا، اس دوران جو لوگ مقامی قیادت سے ناراض ہوتے، نوکری کا مطالبہ کرتے یا مخالف امیدوار کو ووٹ دینے کی بات کرتے ان سے دوسری ٹیم رابطہ کرتی۔ مقامی تنظیم اور دھڑوں میں صلح کرائی جاتی، پولنگ سٹیشنوں کے انتظامات، ڈنڈا فورس اور ووٹروں کو پولنگ سٹیشنوں تک لے جانے کی حکمت عملی ترتیب دی جاتی۔ اس سارے کام میں کوئی سستی یا غفلت دکھائی نہ دیتی۔ جو اہم شخصیات حلقے کے ووٹروں پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں ان کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کرائی جاتی۔ اس سے اثرورسوخ رکھنے والوں کے دل میں مسلم لیگ نون کے لئے وفاداری اور حمایت کا احساس پیدا کیا جاتا۔
مسلم لیگ نون کو 2008ء سے 2018ء تک پنجاب میں حریف سیاسی جماعتوں کی نسبت مقامی سطح پر طاقتور سمجھے جانے والے امیدواروں سے زیادہ واسطہ پڑا۔ صرف چند حلقوں میں تحریک انصاف سامنے آئی لیکن وہ بھی امیدوار کے ذاتی وسائل پر تکیہ کرتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ سپیکر ایاز صادق کے مقابل جب علیم خان جیسے وسائل والے امیدوار نے بھر پور تیاری کی تو وہ پانچ سو ووٹ سے سہی لیکن ہار گئے۔ اپوزیشن کی جماعت یا اکیلی شخصیت انتظامی و حکومتی وسائل کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ضمنی انتخابات کے لئے ایک الگ سسٹم بنا رکھا تھا، الیکشن کمیشن کی جانب سے ٹرانسفر پوسٹنگ پر پابندی سے عین چند روز قبل ضمنی انتخاب والے ضلع کے ڈی سی اور ڈی پی او ایسے افسران لگ جاتے جو مسلم لیگ نون سے وفاداری نبھانے میں بدنام تھے۔ سکولوں کے ان اساتذہ کو پولنگ عملے میں شامل کیا جاتا جو مسلم لیگ ن کے حامی ہوتے۔ وزیر اعلیٰ نے ہر ڈویژن کی سطح پر ایک ڈپٹی سیکرٹری کو ذمہ داریاں تفویض کر رکھی تھیں۔ ضمنی انتخابات میں نوکریوں، ترقیاتی منصوبوں، سرکاری محکموں سے شکایات کے ازالے اور دوسرے چھوٹے موٹے کاموں کے لئے اس ڈپٹی سیکرٹری کو کاموں کی فہرست بھیجی جاتی۔ یوں لوگوں کو صرف سیاسی دلائل سے نہیں انتظامی دبائو اور حکومتی ترغیبات سے بھی حامی بنا لیا جاتا۔
مسلم لیگ نون کی انتخابی حکمت عملی کا یہ حصہ رہا ہے کہ اس کے کچھ لوگ مخالف امیدوار اور اس کے خاندان کے کوائف یا ریکارڈ نکلواتے ہیں، کسی بنک یا سرکاری ادارے کا نادہندہ ہونے، کسی مقدمہ میں ملوث ہونے یا کسی اور تنازع کا حصہ ہونے کی صورت میں متعلقہ اداروں میں اس کے خلاف درخواست بازی شروع کر دی جاتی۔ اس بار ڈسکہ انتخابات میں مسلم لیگ کو حمزہ شہباز دستیاب نہ تھے۔ وریو خاندان کی ہمدردیوں، سابق رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر آصف باجوہ اور دوسرے مقامی رہنمائوں کی محنت سے پارٹی فائدہ نہ اٹھا سکی۔ وریو خاندان کو مدت کے بعد سیالکوٹ میں خواجہ آصف کے مقابلے میں پارٹی کے اندر اپنا دھڑا اور اپنی پوزیشن منوانے کا موقع ملا ہے۔ مریم نواز نے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے جس سے وریو خاندان جیت کے لئے محنت کر رہا ہے لیکن یاد رہے کہ اس بار انتظامی اور حکومتی سطح پرکچھ پرانے رابطے موجود ہونے کے باوجود مسلم لیگ نون پہلے کی طرح ووٹروں کے سوفیصد مطالبات پورا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ این اے 75اب بھی مسلم لیگ ن کی مضبوط حمایت والا حلقہ ہے لیکن الیکشن کمیشن اور اس کے ماتحت عملے نے اپنی کوتاہی کا نزلہ جس طرح حکومت پر ڈالا اس سے حکومت خاصی محتاط دکھائی دے رہی ہے۔ ممکن ہے حکومت بھی مسلم لیگ نون کی طرح ضمنی انتخابات کمیٹی بنا کر حلقے میں ہوم ورک شروع کر دے۔
ڈسکہ انتخابات میں پہلے یہ سوچا جا رہا تھا کہ اہم مقامی افراد کی مریم نواز سے ملاقات کرائی جائے اب شاید یہ کام حمزہ شہباز نمٹائیں گے۔ ہاں جس بات کا خیال دونوں امیدواروں اور ان کی جماعتوں کو رکھنا ضروری ہے وہ تشدد کے واقعات سے گریز ہے۔ پنجاب میں اپوزیشن اور حکومت کے تعلقات میں سینٹ انتخابات کے دوران جو خوشگوار معاملہ دکھائی دیا ہے اسے جمہوری روایت کی صورت میں مضبوط بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ پی ڈی ایم کا مزاج بدلا بدلا نظر آتا ہے۔ حمزہ اور مریم کی باہمی کشیدگی بھی ہے۔ ان حالات میں نتیجے پر کئی عوامل اثر انداز ہو سکتے ہیں۔