Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Hamari Kahaniyan

Hamari Kahaniyan

ہر عہد کے لوگ اپنی کہانی لکھتے ہیں، ہم اس دور میں جیتے ہیں جو کہانی لکھنے والے دماغ اور قلم کی موت کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ کہانی عصری سچائیوں سے گوندھی جاتی ہے اور ہم سچائی کے آئینے میں خود کو دیکھتے نہیں۔ ہماری سچائیاں اس قدر بدصورت ہیں کہ ان کی نمائش تاریخ کو پسند نہیں ہو گی۔

لوگوں کی زندگی کو سیاسی سطح پر دیکھنے کی بجائے تخلیقی سطح پر دیکھا جانا چاہیے۔ ایک سادہ سوال؛ آپ کے نزدیک محبت کیا ہے۔ مجھے معلوم ہے عظیم کہانی کاروں کے مقولے نقل کر کے آپ مجھے سمجھائیں گے کہ محبت کیا ہوتی ہے، ممکن ہے آپ اسے روحانی پہلو سے بیان کرنے کے لئے سینکڑوں کتابوں میں درج جملے لے آئیں۔ لیکن میرا سوال کسی افلاطون، کسی مہاتما بدھ، کسی ابن عربی، کسی ادیب اور شاعر سے نہیں، آپ سے ہے۔ آپ جو منقول الفاظ میرے سامنے دہرا رہے ہیں وہ واصف علی واصف یا ولڈیوراں کے ہیں "قرب حسن کی خواہش کا نام محبت ہے" کیا آپ ایسے تجربات سے گزر چکے جہاں آپ اس جملے کو اپنا صرف جوہر خیال قرار دے سکیں۔

دنیا میں ہر شخص دوسرے سے مختلف ہے، ہر زبان کا ذائقہ دوسری زبان سے مختلف ہے۔ اگر کوئی جاننے پر آمادہ ہو تو اسے معلوم ہو کہ ذائقے کا اختلاف انسانوں میں بہت بڑی تفریق ہے۔ اتنی بڑی تفریق کہ ہم چینیوں کا کھانا نہیں کھا سکتے اور ماس نہ کھانے والے کڑاہی، تکہ اور کباب کے ذائقوں سے محروم۔ حتیٰ کہ انہیں قیمہ بھرے کریلے کا سواد بھی پسند نہیں۔ ذائقے کی سات اقسام ہیں۔ نمکین، کڑوا، میٹھا، گرم خشک جیسا کہ مصالحے، چپکتاخشک جیسے کچا کیلا اور ترش۔ آیورویدک خوراک میں تلخ اور ترش ذائقے کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ترش خوراک جو منہ کو خشک او کھردرا بناتی ہے منہ کی صفائی میں اس کو اہمیت حاصل ہے۔ کڑوے پھل اور بعض پتے جسم کو صاف کرتے ہیں، بدن کو ڈی ٹاکسفائی بناتے ہیں۔ ہمارے حکماء انسانی مزاج کو بھی بادی اورآتشی میں بانٹ کر انسان کی کیمیائی انفرادیت کا اعتراف کرتے آئے ہیں۔ پھر ہم دوسروں کی انفرادیت کو تسلیم کیوں نہیں کرتے؟

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ شخصیت کیا چیز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کی روحانی خصوصیات، اس کا پہناوا اور ذائقے کا امتزاج شخصیت کہلاتا ہے۔ یوں کہہ لیں شخصیت رویے، جذبات اور تصورات کا انسانی روپ ہوتا ہے۔

میرے دوست کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنے کھانے یا ذائقے کی عادت کو ایک دم تبدیل کریں تو سانس کی آمدو رفت کا نظام متاثر ہو سکتا ہے، ہلکی مرچیں کھانے کے عادی زیادہ مرچ والا کھانا کھا کر ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔ ناک کی نالیوں میں الرجی ہو سکتی ہے، گلا خراب ہو سکتا ہے اور ٹانسلز کا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ زبان کے وہ بڈز جو ذائقہ چکھتے ہیں ہر دو ہفتے بعد بدل جاتے ہیں لیکن یہ بڈز کسی نئے ذائقے کو قبول کرنے میں کافی وقت لے سکتے ہیں۔

ہمارے ہاں ایک فیشن ہے۔ ہر دوسرا شخص سیاست یا تصوف پر اتھارٹی ہونے کا دعویدار دکھائی دیتا ہے۔ اتنے سارے پنڈت چانکیہ اور روحانی استادوں کے ہوتے ہوئے ہجوم قوم نہیں بن پا رہا۔ ایک درویش نے بتایا تھا کہ اپنی روحانی پرتوں کو دریافت کرو۔ میں نے پوچھا کیسے؟ بولے روحانی طاقت کی بجائے روحانی ذہانت کی مشق کیا کرو۔ ایک بار پھر رہنمائی کی گزارش کی۔ فرمایا ہر لفظ اور معاملے کی گہرائی تک جانے کی کوشش کرو۔ تھوڑی جسمانی مشقت کیا کرو خواہ ورزش کی شکل میں ہو۔ سفر کیا کرو، مثبت انداز میں سوچا کرو اور غورو فکر کے لئے وقت نکالا کرو۔

یقین کریں زندگی میں کئی واہمے آپ کو عشروں تک بے سمت دوڑائے رکھتے ہیں، کئی غلط فہمیاں آپ کے اردگرد سے چمٹ جاتی ہیں۔ اس وائرس کی ویکسین آپ کے پاس ہوتی ہے لیکن آپ کسی دوسرے سے دوا مانگتے ہیں۔ وہ دے نہیں پاتا۔ آپ اس سے ڈی ٹاکسیفائی نہیں ہو پاتے اور یوں روح پرایک بوجھ کے ساتھ زندگی کی مسافت انسان کے تخلیقی رویے اور صلاحیت کو سست بنا دیتی ہے۔ واہموں، غلط فہمیوں اور غفلت کے باعث ہماری شخصیت وہ دن دیکھتی ہے کہ اکیس کروڑ کے ملک میں ایسے 5ہزار افراد میسر نہیں ہو پاتے جو پوری ذمہ داری اور تخلیقی شعور کے ساتھ سرکاری منصب سے انصاف کر سکیں، معاشرے کو استحکام عطا کر سکیں۔ بات کہانی سے شروع ہوئی۔ مجھے نہیں معلوم اساطیری عہد کے یونانی اپنے بچوں کو کون سی کہانیاں سنا کر سقراط بنایا کرتے تھے۔ مجھے معلوم نہیں راجا بکرما جیت اور بیتال نامی بھوت کے درمیان مکالمے کی شکل میں دو ہزار سال قبل ہماری دھرتی نے جو شعوری سطح کے سوال اٹھائے انہیں ہم نے اپنی وراثت کیوں نہیں بنایا۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ الف لیلیٰ کی کہانیاں ہماری ثقافت کا حصہ کس حد تک بن سکیں۔ میں تو یہ جائزہ لینے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا کہ قرآن میں جو قصے بیان کئے گئے ہم نے انہیں وظائف کے لئے استعمال کیا یا اپنی روحانی ذہانت بڑھانے کا کوئی چارہ کیا۔

وقت آ پہنچا جب ہماری کہانیاں چین میں لکھی جائیں گی۔ ہماری محبت اور ہمارے ذائقے مارکیٹ میں بک رہے ہیں۔ ہم نے اپنے عہد کو جیسا بنانے کی کوشش کی وہ عہد محفوظ ہو جائے گا۔ رشوت لیتے، اقربا پروری کرتے، سرکاری خزانہ لوٹتے، بے بسوں پر ظلم کرتے اور نمائشی عبادت کرتے ہم کہانیوں کے کردار بن جائیں گے۔ ان کہانیوں کے صفحات آنے والی نسلیں اسی طرح جلدی سے پلٹ دیا کریں گی جیسے صحابہ کرام قوم عاد و ثمود کی برباد بستیوں کے پاس سے جلد ی سے گزر جایا کرتے تھے۔