ہمارا ارد گرد ایسے لوگو ں سے بھر رہا ہے جنہیں ہم نہیں جانتے، افغانستان میں جو طالبان امریکی انخلا کے بعد ابھر رہے ہیں ان میں ایسے بھی ہیں جنہیں ہم جانتے نہیں۔ ارد گرد سے ہماری لاتعلقی ہمیں کئی بار نقصان پہنچا چکی۔ بین الاقوامی تعلقات میں مسلم برادرہڈ امریکی و امریکہ مخالف دھڑوں میں تقسیم ہے۔ ہم نے چین کی حمایت سے امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کیا، یہ انکار کسی مسلم ریاست کی حمایت پر استوار ہوتا تو صورتحال مختلف ہوتی۔
تازہ پیشرفت یہ ہے کہ سخت گیر قدامت پسند ابراہیم رئیسی ایران کے نئے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ 60سالہ رئیسی عدلیہ کے سربراہ رہے ہیں۔ انہیں پرانے خیالات اور فکر کا حامل سمجھا جاتا ہے، ایرانی ذرائع کا کہنا ہے کہ ابراہیم رئیسی ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے قریب ہیں، ابراہیم رئیسی کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ اسلامی انقلاب کے محافظ سمجھے جاتے ہیں اور مستقبل میں انہیں سپریم لیڈر بنایا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان، روسی صدر پیوٹن کے بعد لبنان کی حزب اللہ کے سربراہ شیخ حسن نصراللہ اور عراق میں مزاحمت کرنے والی حزب اللہ نجابانے ابراہیم رئیسی کو صدر منتخب ہونے پر مبارکباد کا پیغام بھیجا ہے۔ ایران کے نومنتخب صدر نے عراقی وزیر اعظم کو دورہ تہران کی دعوت دیدی ہے۔ جن دوسرے ممالک کے سربراہان اور تنظیموں نے تہنیتی پیغام بھیجے ان میں کیوبا، کویت، قطر، یمن کی سپریم پولیٹیکل کونسل، عمان، آذر بائیجان، متحدہ عرب امارات، عراقی وزڈم موومنٹ کے لیڈر، آرمینیا کے صدر، ترک صدر لبنانی پارلیمنٹ کے سپیکر، شامی صدر، عراقی وزیراعظم، حماس، اسلامی جہاد موومنٹ فلسطین اور عراق میں سرگرم مزاحمتی گروپ شامل ہیں۔
جس وقت ابراہیم رئیسی کی بھاری ووٹوں سے جیت کا اعلان کیا جا رہا تھا تب ترکی میں شاہ محمود قریشی ایرانی ہم منصب جواد ظریف سے دوطرفہ امور پر بات چیت میں مصروف تھے، پاکستان کی حالیہ سفارتی سرگرمیاں افغانستان سے امریکی انخلا اور پھر وہاں اپنے مفادات کے تحفظ سے متعلق ہیں۔ ترکی کابل ائیر پورٹ اور چند دیگر مقامات کی حفاظت پر آمادگی ظاہر کر چکا ہے، آذر بائیجان میں پاکستان اور ترکی نے جو مشترکہ کردار ادا کیا وہ اب آگے بڑھنا چاہتا ہے، ترکی شمالی اتحاد کی حمایت کرتا ہے، ایران بھی شمالی اتحاد کا سرپرست رہا ہے ایسے میں تینوں ممالک کا مشترکہ لائحہ عمل ترتیب پانا ضروری ہے ورنہ امن کی ہر کوشش بیکار جائے گی۔ شاہ محمود قریشی انا طولیہ میں پاکستان کے مفادات کو باقی ہمسائیوں سے ہم آہنگ کر رہے تھے۔ ایران میں نئی قیادت نے ابھی اپنی ترجیحات کا اعلان نہیں کیا تاہم، ایٹمی پروگرام، افغانستان، چین سے تعاون، سعودیہ سے تعلقات اور خطے میں امریکی اثرو رسوخ کے حوالے سے اکثر پالیسیوں میں تسلسل کی امید ہے۔
ایرانی سفارت خانوں نے اہتمام کیا تھا کہ دوسرے ممالک میں مقیم ایرانی اپنا ووٹ ڈال سکیں۔ برطانیہ اور سویڈن میں ایرانی ووٹروں پر انقلاب مخالف گروپوں نے حملے کئے۔ ایران نے دنیا بھر میں پھیلے اپنے شہریوں کے لئے ووٹنگ کی سہولت فراہم کر کے پاکستان کے الیکشن کمیشن کے سامنے ایک مثال رکھ دی ہے جو تارکین وطن کو ووٹنگ کا حق ملنے کے بعد پریشان نظر آتا ہے۔ سب سے مثبت تاثر اس بات سے ابھرا کہ اصلاح پسند صدر حسن روحانی نے نومنتخب قدامت پسند صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی اور انہیں کامیابی پر مبارکباد پیش کی۔
ابراہیم رئیسی 2004ء سے 2014ء تک ایران کے ڈپٹی چیف جسٹس رہے ہیں۔ پھر 2016ء تک وہ اٹارنی جنرل کے منصب پر فائز رہے، 2019ء سے 2021ء کے دوران رئیسی چیف جسٹس رہے۔ ایران میں پاکستان سے مختلف صورت حال ہے، ایسی آئینی پابندی نہیں کہ کوئی اہم سرکاری ذمہ داری نبھانے والا ریٹائرمنٹ کے دو سال تک الیکشن نہ لڑ سکے۔ انیس سو اسی اور نوے کے عشروں میں وہ پراسیکیوٹر اور ڈپٹی پراسیکیوٹر تہران کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اس دوران وہ اسمبلی آف ایکسپرٹس کے رکن رہے۔ ان کے سسر احمد عالم الہدیٰ امام رضا کے روضہ کے متولی اور مشہد میں جمعہ نماز کے پیش امام ہیں۔
رئیسی نے 2017ء کے انتخابات میں حسن روحانی کے مقابل حصہ لیا۔ تب انہوں نے حسن روحانی کے 57فیصد ووٹوں کے مقابلے میں 38.3فیصد ووٹ لئے تھے۔ رئیسی اس چاررکنی پراسیکیوشن کمیٹی کا حصہ رہے ہیں جس نے 1988ء میں ہزاروں انقلاب مخالف کارکنوں کو قتل کرنے کے احکامات جاری کئے۔ امریکہ کے فارن ایسٹس کنٹرول آفس نے رئیسی پر پابندیاں عاید کر رکھی ہیں۔ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے انہیں ایگزیکٹو آرڈر نمبر 13876کے تحت انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دے رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹوں میں بھی انہیں ایک مجرم بیان کیا جاتا رہا ہے۔
مشہد میں پیدا ہونے والے رئیسی کی عمر صرف 5برس تھی جب ان کے والد سید حاجی کا انتقال ہو گیا۔ انہوں نے شہید مطہری یونیورسٹی سے پرائیویٹ لا میں پی ایچ ڈی کی۔ ان کے سکول اور یونیورسٹی کے تعلیمی کوائف کو متنازع بتایا جاتا ہے۔ وہ اپنی ذاتی ویب سائٹ پر خود کو آیت اللہ لکھتے رہے ہیں۔ میڈیا نے جب ان کی باقاعدہ تعلیم پر سوال اٹھائے تو انہوں نے خود کو آیت لکھنا ترک کر دیا اور اپنے لئے حجتہ الاسلام لکھا جو آیت اللہ سے ایک درجہ کم کا منصب سمجھا جاتا ہے۔ حالیہ صدارتی انتخابات سے کچھ پہلے رئیسی نے خود کو پھر سے آیت اللہ لکھنا شروع کر دیا۔
رئیسی کی اہلیہ جمیلہ شہید بہشتی یونیورسٹی تہران میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامنٹل سٹڈیز آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی سربراہی بھی جمیلہ کے پاس ہے۔ رئیسی کی دونوں بیٹیاں یونیورسٹی کی طالبات ہیں۔ پاکستان کے دو ہمسائیہ برادر ممالک میں سخت گیر قیادت آ رہی ہے، پاکستان ان سے تعلقات کو کس طرح استوار کرتا ہے اس کے لئے دونوں ملکوں کی نئی قیادت کو بدلے ہوئے عالمی ماحول کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہو گی۔