Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kalam e Iqbal Mein Razmia Anasir

Kalam e Iqbal Mein Razmia Anasir

رزمیہ نظمیں جنگجو اقوام کا ثقافتی و سماجی حصہ رہی ہیں۔ جن دنوں پنجاب بیرونی حملہ آوروں کی گرفت میں تھا اس وقت "وار" یعنی حملہ کے نام سے کئی شاعروں نے رزمیہ نظمیں کہیں۔ ایسی کچھ نظمیں جنگ نامہ کے نام سے بھی شائع ہوئیں۔ علامہ اقبال پنجاب کی اسی مٹی سے ابھرے، اقبال کے موضوعات ان کے مطالعہ اور سوچ و بچار کے ساتھ پھیلتے گئے۔ انہوں نے ملت اور امہ کے تصور کو خودی سے ہم آہنگ کر کے جب سامنے رکھا تو فرد کو مجاہد کا نام دیا۔ یہ مجاہد صرف تلوار اور بندوق نہیں اٹھاتا نفس کو قوم کے اجتماعی مفاد کے لئے ایثار کیش بھی بناتا ہے۔

لسانی بحث کے لحاظ سے کچھ مترجمین رزمیہ کو انگریزی لفظ "ایپک" کا ترجمہ کرتے ہیں۔ نوجوان محقق نور الٰہی انجم اس کے حوالے سے کہتے ہیں کہ رزم، ایپک کا محض ایک جزو ہے۔ ہومرکی ایلیڈ اور اوڈیسی، ورجل کی اینیڈ، دانتے کی ڈیوائن کامیڈی، ملٹن کی پیرا ڈائز لاسٹ اور فردوسی کا شاہنامہ مسلمہ طور پر ایپک سمجھے جاتے ہیں۔ رزمیہ کی تاریخ مگر اس سے بہت قدیم ہے۔ اس کی گواہی تین ہزار سال قبل مسیح سے مل رہی ہے۔ ارسطو رزمیہ کے متعلق کہتا ہے کہ رزمیہ شاعری میں محض الفاظ یا نظم کے ذریعے نقل کی جاتی ہے۔ یہ نظم یا تو مختلف بحرمیں لکھی جا سکتی ہے یا ایک ہی نوع میں محدود کی جا سکتی ہے۔ عربوں میں رجزیہ اشعار رزم کے کچھ منظر نامے کو اجاگر کرتے ہیں تاہم کسی بہادر کی جنگ کا پورا منظر نامہ بھی متعدد شعرا کے ہاں مل جاتا ہے۔

رزمیہ کی جدید شکل جس سے ہم سب متاثر ہوتے ہیں جنگی ترانہ ہیں۔ یہ ترانے سن کر ہم سب میں جوش اور توانائی بھر جاتی ہے لیکن ایسے ترانے محض رجزیہ اشعار کے ضمن میں آتے ہیں، ترانوں کے الفاظ اور ان کا آہنگ توانائی فراہم کرتے ہیں مگر جنگ کی مکمل شکل پیش نہیں کرتے، ان ترانوں کا آہنگ بہرحال رزمیہ جیسا ہی ہوتا ہے۔ ہومر کے رزمیے اپنی شان و شکوہ، تنظیم اور بلند آہنگی کا شاہکار ہیں۔ ان کے اندر یونانی تہذیب و تمدن متحرک نظر آتے ہیں۔ سیف الملوک کا بڑا حصہ اگرچہ انسانی محبت کو محور بنا کر لکھا گیا مگر سیف الملوک مسلح افواج و بحری بیڑہ لے کر جب ایک تصویر میں دیکھے محبوب کی تلاش میں نکلتا ہے تو برسوں کی مہم جوئی کے بعد فوجوں کی تباہی، پریوں اور دیووں کے ڈرائونے طلسمی قلعے، یک جنسی سلطنتیں، ہوشربا حمام، سلیمانی انداز کے دائو پیچ کے بعد وہ بدیح الجمال کو لے کر واپس آتا ہے۔ پنجابی ادب کا یہ رنگ اقبال پر چڑھا مگر انہوں نے اپنے کردار آفاقی ماحول سے چنے اور ان کرداروں کو علاقے اور نسل سے ماورا بنا دیا۔

بات نور الٰہی انجم کی کتاب "کلام اقبال میں رزمیہ عناصر " کی ہو رہی ہے۔ بلاشبہ اقبال کی شاعری میں موجود متحرک فعالی یا رزمیہ عناصر انہی عوامل و عناصر سے مربوط ہیں۔ اقبال کی آواز حالی و شبلی سے توانا ہے۔ جس کی وجہ ان کی شخصیت کی مضبوط اٹھان اور قومی تخلیقی شعور ہے، اقبال کا تصور رزم بنیادی طور پر اسلام کے تصورِ جہاد سے جڑا ہوا ہے۔ جہاد کے ذاتی، روحانی، قومی اور مزاحمتی مفاہیم کو ملا کر اقبال اسے آفاقی بنا دیتے ہیں اور انسان کو بحیثیت انسان ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں:

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی

اقبال کے رزمیہ میں عورت بھی اتنی ہی انسان ہے جتنا کہ مرد، خیرو شر کے اس مجادلے میں وہ بھی ہیرو کا کردار ادا کرتی ہے جیسا کہ طرابلس کی جنگ میں فاطمہ کا کردار ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں جا بجا ایسے کردار اور تصورات پیش کئے جنہیں مجموعی لحاظ سے دیکھا جائے تو ہزاروں سال پر مشتمل جنگ کا ماحول نظر آتا ہے جس میں یلغاری فوجیں ابلیس اور مادیت سے کمک لے کر ٹکراتی رہتی ہیں، فرعون و کلیم کے مجادلے، نمرود کی آتش، نفس پرستی، کبھی حسدو رقابت، کبھی بولہبی و چنگیزی، اقبال اس پیکار کا منطقی انجام خیر کی فتح و ترقی کی صورت میں دیکھنے کے متمنی ہیں۔ ان کا رزمیہ انسان کو احسن تقویم کے اعلیٰ مرتبہ تک پہنچاتا ہے۔

علامہ اقبال کے تصورات پر اکثر جو تحقیقی کام ہوئے وہ محققین کی ذاتی خواہش کے تابع رہ کر ترتیب پائے، علمی جہت کو نظر انداز کیا گیا۔ یوں اقبال کے اشعار کا حوالہ ضرور دیا جاتا ہے لیکن تشریح محقق اپنی مرضی کی کر لیتا ہے۔ اس روش نے اقبال کو لائبریریوں کی کتابوں میں گم کر دیا ہے۔

جیتا جاگتا اور زندگی سے معاملات کرتاا اقبال گم سا ہو گیا ہے۔ میرے دوست ڈاکٹر روشن ندیم نے درست کہا کہ ہمارے فکری تشکیل کار ابھی تک نو آبادیاتی جدیدیت کے حملے سے نڈھال ہیں۔ وہ ابھی تک ایسے اعتماد سے محروم ہیں جو اپنے فکری پس منظر کے تجزیے کے نتیجے میں تشکیل نو پر ابھارتا ہے:

"کلام اقبال میں رزمیہ عناصر" جیسی مفید کتاب پر مصنف نور الٰہی انجم کے لئے داد۔ ایسی کتابیں اقبال کی اصل شخصیت کو نوجوانوں کے سامنے لانے میں اہم ثابت ہو سکتی ہیں۔

ادارہ بزم اقبال اور اس کے ڈائریکٹر ریاض احمد چودھری نے اقبال پر تحقیقی و تخلیقی کام سامنے لانے کے لئے اپنے محدود وسائل میں رہ کر بہت قابل قدر کوشش کی ہے ادارے کی جانب سے ڈاکٹر محمد اقبال سے متعلق نئے علمی گوشوں پر کام یقینا افادہ اورسہولت میں اضافہ کا موجب ہوگا۔