سیاسی سرگرمیوں کا دھارا چلچلاتی دھوپ سے فرار ہو کر آزادکشمیر کی ٹھنڈی فضائوں میں بہنے لگا ہے۔ ڈیرے آباد ہوگئے ہیں۔ گرم شال اوڑھے سندھ اور پنجاب کے لیڈر سرسبز کشمیر کے نیلے آسمان کو حیرت سے تک رہے ہیں جو ان کی دستبرد سے بچ کر ابھی تک غبار آلود نہیں ہوا۔ تینوں بڑی جماعتیں آزادکشمیر کی جماعتوں کی اتحادی بن کر اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ امیدوار ابھی تک جوڑ توڑ میں مصروف ہیں، تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جیت کے دعوے کر رہی ہیں۔ پنجاب کی طرح مسلم لیگ ن کو آزادکشمیر میں مسلسل کام کرنے کا بہت موقع ملا ہے۔ مسلم لیگ ن کے پاس شاید سب جماعتوں سے زیادہ امیدوار ہوں لیکن اس کی جیت کے امکانات پہلے جیسے نہیں رہے۔ مرکز سے عدم آہنگی، اوور سیز کے ووٹ پر مبہم موقف، فوج مخالف بیانیہ اور نئے زمینی حقائق ناکامی کا سبب بن سکتے ہیں۔
آزادکشمیر انتخابات میں پارٹی کو لیڈ کرنے کی ذمہ داری نوازشریف نے مریم کے سپرد کی ہے۔ تازہ فیصلہ یہ ہے کہ شہبازشریف بھی آزادکشمیر میں انتخابی مہم کا حصہ بنیں گے۔ مریم نواز مری میں رکنے کے بعد عازم مظفر آباد ہو رہی ہیں۔ ممکن نہیں کہ کسی وقت وہ تلخ بیانات اور کڑوے لہجے سے ووٹ بٹورنے میں اپنے حامی امیدواروں کی مدد کر سکیں، وہ چچا کی جگہ خود انتخابی مہم کو لیڈ کرنے جا رہی ہیں، استقبال ہوگا، نوٹوں اور ڈالروں کے ہار پڑیں گے لیکن ووٹ جس بنیاد پر ملتا ہے وہ اس بار مسلم لیگ کے پاس نہیں۔
مسلم لیگ ن، ووٹ کو عزت دو، کو نوازشریف کے خلاف قانونی کارروائی کو ختم کرنے کے مطالبہ کی صورت میں پیش کرتی رہی ہے۔ ووٹ کو عزت دینے کا دائرہ کسی دوسری جماعت اور غیر لیگی لیڈر تک توسیع نہیں پا سکا اس لیے یہ نعرہ اور مطالبہ قومی پذیرائی سے محروم رہا۔ مزید یہ کہ اس نعرے نے خود مسلم لیگ کو داخلی طور پر تقسیم کردیا۔ ایک حصہ جسے تاریخی حقائق کا علم نہیں، جو اپنی جماعت کے ماضی سے آگاہ نہیں اور جو جرائم قبول کرنے کوتیار نہیں وہ مریم نواز کی قیادت میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتا ہے۔ دوسرا حصہ ان لوگوں کا ہے جو جانتے ہیں کہ ماضی میں وہ انتقامی احتساب میں ملوث رہے ہیں، ووٹوں اور انتخابات کی چوری و خریداری میں ملوث رہے۔ عوام کے مینڈیٹ سے آنے والے وزرائے اعظم کے خلاف سازشوں کا حصہ رہے، اس حصے کی قیادت شہبازشریف کے پاس ہے۔
آزادکشمیر میں امیدوار کون ہوتا ہے؟ آزادکشمیر میں چونکہ پاکستان کے کسی شہری کو جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں اس لیے یہاں ہر برادری مخصوص علاقوں میں اپنا ووٹ بینک رکھتی ہے۔ اکثر امیدار آپس میں رشتے دار ہوتے ہیں۔ صدیوں سے ایک جگہ رہنے والے سماجی طور پر اس قدر قریب ہیں کہ سیاسی اختلافات انہیں دور نہیں رکھ پاتے۔ ہر برادری اپنے نمائندے کو بطور امیدوار سامنے لاتی ہے، بہت سے کشمیری خاندان برطانیہ اور یورپ میں آباد ہیں۔ ترسیلات زر سے انہوں نے اپنے دیہات اور قصبوں میں کئی فلاحی منصوبے شروع کر رکھے ہیں، تارکین وطن بسااوقات اپنے کسی عزیز کو انتخابات میں حصہ لینے کی ترغیب دیتے ہیں، اس کا مقصد کئی بار اپنی دولت کو سیاسی طاقت میں بدلنا بھی ہوسکتا ہے۔ کشمیر کے انتخابات میں امیدواروں کا تیسرا گروپ خالص نظریاتی افراد پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ کشمیر کی آزادی، کشمیر اور پاکستان کے تعلق اور مقامی بھائی چارے کو برقرار رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ مسلم کانفرنس، جماعت اسلامی وغیرہ اسی کلاسیکل خیال کی جماعتیں ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی آزادکشمیر کو بھی اسی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال آزادکشمیر میں بھی موقع پرست لوگوں کی کمی نہیں۔ حیرت ہو تی ہے کہ ایم کیو ایم بھی کشمیر اسمبلی میں موجود رہی ہے۔
کشمیریوں کی نمائندگی کے دعویدار بھلے کچھ بھی کہیں کشمیر کا ووٹر افواج پاکستان، بھارت سے مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور اپنی مقامی سماجی و مذہبی روایات سے جڑا ہوا ہے۔ مسئلہ یہ رہا ہے کہ پاکستان کی برسراقتدار جماعتوں نے جب آزادکشمیر میں اپنی شاخیں قائم کرنا شروع کیں تو پاکستانی سیاست کے تعصبات بھی آزادکشمیر کے آلودگی سے پاک ماحول میں گھول دیں۔ اس سے کشمیری قیادت کا رویہ مرکزی قیادت کے ساتھ بسااوقات غیر ضروری تلخی آمیز ہونے لگا۔ اس سے ان کوششوں کو دھچکا پہنچا جو پاکستان کشمیر کی آواز اور وکیل بن کر عالمی فورمز پر بروئے کار لاتا رہا ہے۔ زبانی طور پر کشمیر کاز کے لیے ایک ہونے کے باوجود عملی طور پر عمران خان اور راجہ فاروق حیدر خان میں ہم آہنگی پیدا نہ ہو سکی۔ اس بات کا احساس کشمیری ووٹر پہلے سے رکھتے ہیں، اسی لیے گلگت بلتستان کی طرح یہاں وہی امیدوار یا پارٹی کامیاب ہوتی ہے جسے وفاقی حکومت کی حمایت حاصل ہو۔
مہنگی گاڑیاں ہیں، دھوپ کے چشمے لگے ہیں، پکوان اور کافی کی نعمتیں حاضر، اشارہء ابرو کے منتظر سینکڑوں خدام، درجہ حرارت ایسا کہ شعر کے دو مصرعے بھی ایک ہونے کی ضد کریں، ایسے حالات میں حیرت تو ہوتی ہو گی کہ پولیس ناکوں کے بنا شہر کیسے مسکن ہوتے ہیں۔ ایسے جنت نظیر کشمیر میں انتخابی مہم میں اگر کوئی تناو کھینچ لائے گا تو کتنا ظلم کرے گا۔
پیپلزپارٹی کی مہم بلاول بھٹو چلا رہے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت پیپلزپارٹی بنائے گی۔ بیانات میں جارحانہ طرز ادا سے پارٹی جیت سکتی تو مریم نواز بھی کشمیر آ کر ایسا دعویٰ کرسکتی ہیں۔ حقائق لیکن لیڈروں کے ادراک کا حصہ نہیں رہے۔ تحریک انصاف پر پھر کبھی بات کریں گے ابھی شہبازشریف کی بات کرلیتے ہیں جنہیں زندگی میں پہلی بار کسی انتخابی مہم کو لیڈ کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس میدان میں انہیں ثابت کرنا ہے کہ وہ وفاق اور کشمیر کے درمیان ایک نظریاتی و سیاسی پل کا کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا پھر یہ محاذ بھی ان کی تلخ گو بھتیجی کی درپردہ کارروائیوں کی نذر ہو چکا؟