مسلسل بری خبریں سننے والوں کے لئے میرے پاس کچھ نہیں بہت ساری اچھی خبریں ہیں۔ یہ خبریں مجھے کسی رپورٹ کے ذریعے نہیں موصول ہوئیں۔ بریگیڈیئر توفیق کی دعوت پر میں اور سینئر کالم نگار منیر بلوچ ہری پور میں واقع نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمیونی کیشن کارپوریشن کی فیکٹری پہنچے تو یہ ساری خوشخبریاں ہماری منتظر تھیں۔
ہمارے انجینئرز نے ایک ایسی بیٹری تیار کر لی ہے جو روٹی بیلنے والے بیلن کے ساتھ ہاتھ رکھنے والے پتلے حصے کاٹ دیے جائیں تو یہ بالکل اسی بیٹری کے حجم جتنا ہو جائے گا۔ اس کو آپ یو پی ایس کے لئے استعمال بڑی اور بھاری بیٹری کی جگہ استعمال کر سکتے ہیں۔ گاڑیوں میں نصب کر سکتے ہیں۔ ایک دفعہ خریدی یہ بیٹری لائف ٹائم چلتی ہے۔ قیمت بڑی بیٹریوں کی نسبت دوگنا ہو سکتی ہے لیکن اسے سال دو سال بعد بدلنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
این آر ٹی سی نے پاکستان کے اپنے لیپ ٹاپ کی تیاری شروع کر دی ہے۔ بریگیڈیئر توفیق بتا رہے تھے کہ انہوں نے حکومت کو پیشکش کی ہے کہ اگر طلباو طالبات کو لیپ ٹاپ دینے کے لئے این آر ٹی سی کو تیاری کا آرڈر دیدیا جائے تو وہ ایک لاکھ لیپ ٹاپ مفت دینے کو تیار ہیں۔ اس ادارے نے سکیورٹی کے نقطہ نظر سے ایسے لیپ ٹاپ تیار کر لئے ہیں جن کا ڈیٹا خفیہ پرزے کے ذریعے دوسرے کسی ادارے، شخص یا ملک کی رسائی میں نہیں آ سکتا۔
کمرے میں اندھیرا کر دیا گیا۔ نائٹ ویژن گاگلز کی آزمائش کے لئے میں نے لائٹ بند کرنے کا کہا۔ تمام لائٹس بند ہوئیں۔ دیکھا کہ اردگرد لوگ صاف دکھائی دے رہے ہیں، چہرے کے نقش وغیرہ بہت واضح نہیں لیکن اس قدر صاف دکھائی دے رہے تھے کہ آدمی نشانہ باندھ لے۔ اطمینان ہوا کہ یہی وہ گاگلز تھیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ نے ہمیں گن کر دیں اور پھر گنتی پوری کر کے واپس لے لیں۔ یہ گاگلز اب ہم خود تیار کر سکتے ہیں۔
کورونا کی وبا کے دوران سب سے زیادہ جس چیز پر بات ہوئی وہ وینٹی لیٹر کی مقامی سطح پر تیاری کا منصوبہ تھا۔ میں نے ڈھائی ماہ پہلے ایک کالم میں لکھا کہ ہمارے اداروں کی جانب سے وینٹی لیٹر بنانے کی کوششیں درست نہیں۔ این آر ٹی سی کو وینٹی لیٹر بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ بریگیڈیئر توفیق کے پاس یہ کالم پہنچا تو انہوں نے فون کر کے کچھ حقائق بیان کئے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ مجھے مقامی سطح پر وینٹی لیٹر کی تیاری کا عمل دکھا سکتے ہیں۔ رات پونے بارہ بجے فون کرنے والے بریگیڈیئر توفیق نے فوراً حامی بھر لی۔ وینٹی لیٹر کی تیاری والے حصے میں ہم پہنچے تو میں نے اس کے پارٹس کو ایسے جانچا گویا میں سب جانتا ہوں۔ خیر وہاں موجود انجینئر نے بتایا کہ اگر ان پرزوں کی بات ہو تو وینٹی لیٹر دس پندرہ ہزار میں بن جاتا ہے لیکن اصل قیمت اس کی ریسرچ اور سوفٹ ویئر کی ہے۔ یہ سوفٹ ویئر ہی طے کرتا ہے کہ جس مریض کے لئے ڈاکٹر نے 90فیصد وینٹی لیٹر تجویز کیا ہے اس کے پھیپھڑوں کو کس مقدار میں اور کب آکسیجن فراہم کرنا ہے۔ خوش کن بات یہ کہ یہاں کے بنے چالیس وینٹی لیٹر ایک عرب ملک کو برآمد کرنے کا کام شروع ہو چکا ہے۔
ڈھائی تین سال کی مدت میں این آر ٹی سی ایک حیران کن ادارہ بن چکا ہے۔ یہاں دفاعی ضروریات کو مدنظر رکھ کر بہت سی مشینیں تیار کی جا چکی ہیں۔ ایک جگہ بڑی سی مشین کام کر رہی تھی۔ میں نے اس کے متعلق پوچھا تو بتایا گیا کہ گاڑیوں کی کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹس تیار کرنے میں دقت آ رہی تھی ادارے نے یہ مشین تیار کی ہے جو روزانہ ہزاروں کی تعداد میں پلیٹس تیار کر سکتی ہے۔ بلوچستان میں اس وقت کوئی گاڑی ایسی نہیں جس کو نمبر پلیٹ کا انتظار ہو۔ پنجاب میں جن لوگوں کو پچھلے ایک سال سے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نمبر پلیٹس نہیں دے پایا انہیں اگلے دو ماہ تک سوفیصد فراہمی کر دی جائے گی۔ ایسی ایک مشین لاہور میں لگا دی گئی ہے جس کا افتتاح چند ہفتوں میں کر دیا جائے گا۔ چھوٹی چھوٹی ٹیکنیکل اور ہر شعبے کی مشینی مشکلات کو مقامی سطح پر حل کرنے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔
بریگیڈیئر توفیق بتا رہے تھے کہ ادارہ اپنے وسائل خود پیدا کرتا ہے۔ پچھلے سال صرف ٹیکس کی مد میں حکومت کو اربوں روپے دیے۔ پاکستان بھر سے اہل نوجوانوں کو ڈھونڈ کر یہاں کام کا موقع دیا جا رہا ہے۔ جنرل منیجر مارکیٹنگ سید عامر بتا رہے تھے کہ ادارے کی صلاحیت میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو ہمیں افریقہ، خلیج اور خطے کے بعض چھوٹے ممالک کی جانب سے اربوں ڈالر کے آرڈر مل سکتے ہیں۔ میڈیا افسر یاسر نے بریگیڈیئر صاحب کی ہدایت پر ہمیں ہر ایجاد اور مشین کے متعلق بتایا اور ساتھ کہا کہ سب دیکھیے مگر لکھتے وقت احتیاط ضروری ہے کیونکہ ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہیں قومی کامیابیاں ہضم نہیں ہوتیں۔ سو اس کالم کو پڑھنے والے یقین رکھیں کہ میں نے قومی سطح پر نالائقی، بدعنوانی، بدانتظامی اور بدحالی کے ماحول میں انہیں جو اچھی خبریں دی ہیں وہ صرف دس فیصد ہیں۔ نوے فیصد حصہ جب سامنے آئے گا تو ملک ٹیکنالوجی، خود انحصاری، مضبوط دفاع اور صنعتی انقلاب کی منزل تک پہنچ جائے گا۔ بس ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ این آر ٹی سی کی کاروباری پالیسی سے ان مقامی کمپنیوں کے لئے مشکلات پیدا نہ ہوں جو اس سے مسابقت نہیں کر سکتیں۔
ہاں مجھے ایک شکریہ اور ادا کرنا ہے، خانپور میں ریڈ بلڈ مالٹے کے وسیع باغات دکھانے اور میٹھے مالٹے کھلانے پر بریگیڈئیر توفیق، سید عامر جاوید اور یاسر کا۔