بے نظیر بھٹو برطانیہ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تھیں۔ جس برس ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹایا گیا بے نظیر اوکسفورڈ یونیورسٹی سٹوڈنٹس کی نمائندہ منتخب ہو چکی تھیں۔ بے نظیر بھٹو کے ساتھ پڑھنے والے بہت سے طالب علم بعدازاں بین الاقوامی میڈیا، سیاست اور سفارت کاری سے منسلک ہوئے۔ یہ جمہوریت، انسانی حقوق، آئینی ضروریات اور سوفٹ ریوولیوشن کی تحریکوں کا زمانہ تھا۔ اس عہد کے بالغ افراد کی نظریاتی تعمیر ان نظریات نے کی۔
بے نظیر بھٹو کی اس زمانے کی تقریروں اور بیانات کا جائزہ لیں تو وہ سرمایہ داری نظام کی سخت مخالف دکھائی دیتی ہیں۔ امریکہ ان کی نظر میں دنیا کی سب سے بڑی استحصالی ریاست تھی۔
ایک دوسری قسم کے نظریات فوجی آمریت، مذہبی انقلاب، سرمایہ داری نواز معاشی پالیسیوں اور موقع پرستی کے مرکب سے تشکیل پا رہے تھے۔ پہلی قسم کے نظریاتی افراد ہر تعصب اور امتیاز سے بالا ہو کر دنیا میں انسانیت کے لئے یکساں احترام کا مطالبہ کر رہے تھے۔ شہری آزادیوں کے لئے سرگرم تھے اور تنازعات کا پرامن حل تلاش کرنے کی حمایت کر رہے تھے۔ دوسرا نظریاتی دماغ انسانوں کو تقسیم کرنے، تنازعات کو بحرانوں میں تبدیل کرنے اور شہریوں کو بین الاقوامی تبدیلیوں سے خوفزدہ کر کے مرضی کے مقامی گروہوں میں شامل کرنے کے لئے متحرک تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی موت کے بعد اعلیٰ جمہوری نظریات کا مالک طبقہ ملک سے ہجرت کر گیا۔ یہ پہلا برین ڈرین ہوا۔
پیچھے جو رہ گئے وہ حالات کے مارے تھے، ان میں سے بہت نے سیاست چھوڑ کر سماجی شعبے کو مرکز توجہ بنا لیا۔ کچھ نے نئے حالات سے سمجھوتہ کر لیا۔ دوسرا برین ڈرین نوے کے عشرے مین دونوں بڑی جماعتوں کی عدم توجہ اور روزگار پالیسی سے مایوس ہو کر ہجرت کرنے والوں سے ہوا۔ جمہوری نظریات والے پاکستانی یورپ اور انگلینڈ گئے جبکہ فنانس، میڈیا، آئی ٹی اور انجنئرنگ سے وابستہ افراد نے کینیڈا، امریکہ اور آسٹریلیا کا رخ کیا۔ جن بے بسوں نے جبر کو سہ کر جینے کا حوصلہ دکھایا وہ لاہور کے بابا ہرا بن کر گلی گلی پھرے۔
آمرانہ عہد طول پکڑ جائے تو شخصیت پرستی پروان چڑھتی ہے۔ سرکاری سطح پر ضیاء الحق کے اوصاف کو اجاگر کرنے کی مہم پروان چڑھی۔ ضیاء الحق ہی سب سے بڑے سیاستدان تھے۔ مدبر تھے، مفکر تھے، عوام دوست تھے، بہادر تھے اور ہر مسئلے کا دارو تھے۔ جو جبر کا شکار تھے ان کے پاس لے دے کر بھٹو کی لاش تھی اس لئے وہ ضیاء الحق اور ان کے حامیوں کو زندہ ہے بھٹو زندہ ہے، جئے بھٹو، کہہ کر باور کراتے رہے کہ وہ جس بھٹو کو مار کر مطمئن ہیں وہ ابھی زندہ ہے اور ان سے انتقال لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر نے بھٹوکو زندہ کر کے دکھایا۔ 27دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ میں بے نظیر بھٹو کی شہادت تک بھٹو زندہ تھا، پھر بھٹو کی میراث پر زرداری کا غلبہ ہو گیا۔ آصف علی زرداری نے بھٹو کو زندہ رکھنے کے لئے بچوں کے نام بدل دیے۔
اہلیہ کو بھٹو خاندان کے قبرستان میں دفنایا، خود کو فنا کر لیا لیکن زرداری اور ان کے قریبی رفقا نظریاتی طور پر ہائبرڈ ہو چکے ہیں لہٰذا انہیں احساس ہی نہ ہو پایا کہ کب وہ پہلے گروپ سے نکل کر دوسرے نظریاتی گروپ جیسے ہو گئے ہیں۔ وہ جو برین ڈرین ہوا تھا اس سے بے نظیر بھٹو کے بعد کسی کا رابطہ نہ رہا۔ واجد شمس الحسن اور بشیر ریاض ہیں جو اب تک وابستہ ہیں اور کبھی کبھار پل کا کردار ادا کر لیتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کی آمد کو سیاسی ماحول میں خوش آئند سمجھا گیا۔ بلاول کے پاس ایک کلاسیکل نظریاتی ماڈل ماں کا تھا۔ دوسرا ماڈل مفاہمت کی بادشاہت تھا۔ سندھ میں ان کی ہر شکل قبول تھی اور قبول کر لی گئی۔ باقی علاقوں کی قومیت پرستی کا عنصر الگ تھا۔ وہاں کے لوگوں نے استحصالی ہتھکنڈوں کا مقابلہ کسی سیاسی قیادت کے بغیر کیا اس لئے وہ یا تو دوسرے گروپ کے حامی بن گئے یا پھر ہر طرح کی شخصیت پرستی سے آزاد ہو کر ریاست کے ساتھ وابستگی مضبوط کرنے لگے۔
یہ بحث موجود ہے کہ ہر ریاست شہری حقوق کی سب سے بڑی غاصب ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ تیسری صف کسی حد تک ان طبقات کے لئے کارآمد ثابت ہوئی جو ریاستی مفاد کو اتنا کھینچتے ہیں کہ یہ ہر شے پر محیط ہو جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس پر ہم آج کے پاکستان کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔ اسی ماحول کو پیش نظر رکھ کر ہمیں جاننا ہو گا کہ آصفہ بھٹو زرداری خود تبدیلی کا انجن بنتی ہیں یا پھر پہلے سے موجود مفاہمتی نام کے فریم ورک کا حصہ بن جاتی ہیں۔
نئی بحث میں نظریات کی جگہ شخصیات کو اہمیت حاصل ہے۔ شخصیات سیاسی جماعتیں نہیں لشکر ترتیب دیا کرتے ہیں، لشکر مکالمہ نہیں کرتے سر کاٹتے ہیں، سر افلاس زدہ اور محروم طبقات کے کٹتے ہیں۔ اس سارے عمل میں بالائی طبقات بیبے بچے بن کر اپنے مفادات کو سینچتے ہیں۔ جب سب کچھ ختم ہو جاتا ہے تو ان کا نمائندہ سب کا ہمدرد مسیحا اور خیر خواہ بن کر سامنے آتا ہے۔
روٹی کم ملنے والوں کی شکایت سنتا ہے۔ ایک روٹی کو کاٹتا ہے تاکہ دوسرے کا حصہ برابر ہو سکے۔ دوسری روٹی بھاری ہو جاتی ہے تو اس میں سے لقمہ لیتا ہے۔ یوں انصاف تو ہو نہیں پاتا۔ انصاف کے متلاشی فریقین اپنی اپنی روٹی سے ضرور ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
جلسہ گوجرانوالہ کا ہو یا کراچی کا، کوئٹہ کا ہو، پشاور کا ہو یا پھر ملتان کا پھول کی پتیاں اور محروم طبقات کے خواب شہزادے شہزادیوں پر نچھاور ہوتے اور قدموں تلے پامال ہوتے ہیں۔ بس اب یہی نظریاتی سیاست رہ گئی ہے۔