ڈپٹی کمشنر پرویزاختر نے جہلم میں ڈی پی ایس سکول سمیت بہت سے منصوبے شروع کر رکھے ہیں، ہمیں ان سے جہلم اور اس کے نواح کی ترقی کے متعلق آگاہی ہوئی۔ پی ایف سی کا وفد روہتاس قلعہ کا دورہ کر کے روہتاس ریزورٹ پہنچا ہی تھا کہ معلوم ہوا ایک تنظیم کے سربراہ کی گرفتاری کے بعد راستے بند ہو گئے ہیں، مجھے اگلے روز دفتر پہنچنا تھا۔ رمضان المبارک کی وجہ سے شیڈول تبدیل کیا تھا۔ کالم نگار حضرات کو آگاہ کر دیا تھا۔ اپنے ساتھیوں سے کچھ معاملات طے کرنا تھے۔ راستے بند ہونے کی اطلاعات نے بے چین کر دیا۔ پھر توڑ پھوڑ جلائو گھیرائو اور تشدد کی ویڈیوز موصول ہونے لگیں۔ جنگل میں بنے ریزورٹ کی خاموشی، پھلاہی کے درختوں پر سبزی مائل سفید پھولوں کی بہار، گلاب کے گلابی پھولوں کا جوبن، مچھلی کے تالاب کا سکوت اور کناروں پر اترتی ٹھنڈک کا احساس بہت متاثر کن تھا لیکن حالات میں بدامنی گھل جائے تو دل میں اضطراب کے لشکر آتے ہیں۔
رات گئے تک راستوں کی بابت پوچھتا رہا۔ جہلم میں کورونا کے کئی مریض آکسیجن پر تھے۔ ان کے لئے گوجرانوالہ سے سلنڈر لانے کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ ڈپٹی کمشنر پرویز اختر اور ان کے ساتھی امن و امان، طبی سہولیات اور دیگر انتظامی معاملات میں الجھے ہوئے تھے۔ انہوں نے آخر ریلوے افسران، سکیورٹی اداروں اور پولیس کے تعاون سے ریل گاڑی کے ذریعے سلنڈر جہلم لانے کا انتظام کیا۔ جانے ایسے کتنے ضروری کام تھے جو کسی کے لئے موت و حیات کا معاملہ تھے لیکن کسی کو کیا پرواہ۔ حکومت ہو، سیاست دان ہو یا کوئی ادارہ شکایت کرنے والے بدلہ ہمیشہ عام آدمی سے لیتے ہیں۔
صبح سویرے تیتر، بطخوں، کبوتروں، موروں اور چکوروں کی آواز سے آنکھ کھلی، باہر سفیدی کے ساتھ شبنم سے دھلا ہوا قرار بکھرا پڑا تھا۔ کئی بار سکون بھی باتیں کرتا ہے۔ شاید یہ باتیں باقی دوستوں نے بھی سن لیں اور وہ مالٹے کے پودوں سے گزر کر جھیل پر میرے ساتھ آ بیٹھے۔ نیم کی مسواک کرتے ہوئے ہم نے سوچا اگر اس وقت نکلیں تو شاید راستے کھلے مل جائیں۔ دس منٹ کے اندراندر ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔ روہتاس قلعے کے قریب سے نکلے اور پانچ سو سالہ پرانی جی ٹی روڈ عبور کر کے دس بارہ کلو میٹر کے بعد اس جی ٹی روڈ پر جا پہنچے جو ان دنوں لاہور کو راولپنڈی سے ملاتی ہے۔ دینہ پہنچے تو ٹرک کھڑے کر کے جی ٹی روڈ کو بند کر دیا گیا تھا۔ چند ٹین ایجر بچے ڈنڈے لے کر کھڑے تھے۔ ہمارے تعارف کرانے پر ایک پچیس تیس سال کے مولوی صاحب کو بلا لائے۔ وہ اس دھرنا یونٹ کے سربراہ معلوم پڑتے تھے۔ چند ساتھیوں کے ہمراہ آئے اور راستہ دینے سے انکار کر دیا۔ ہم نے گاڑی واپس موڑی ایک جگہ رک کر متبادل راستے کا پوچھا۔ ایک ناشتہ فروش نے بغل والی گلی سے آگے جانے کا کہا۔ ایک موٹر سائیکل سوار مہربان نوجوان نے اپنے پیچھے آنے کو کہا۔ ڈیڑھ دو کلو میٹر کے بعد بائیں طرف چلتے رہنے کا کہہ کر وہ سیدھا نکل گیا۔ وہاں سے ہم سرائے عالمگیر کی طرف سے آنے والی نہر کا پل عبور کر کے آگے بڑھے۔ دو تین چھوٹے چھوٹے گائوں راستے میں پڑے۔ کیسے مہربان لوگ تھے۔ گلیوں کے کونوں پر کچی مٹی اور کوئلے سے تیر کا نشان بنا کر لاہور لکھ دیا تھا۔ ہمارے پیچھے اور گاڑیاں بھی آ رہی تھیں۔ سب ایک دوسرے کو درست طرف جانے میں مدد دے رہے تھے۔
لاہور کے نمبر والی ایک گاڑی دوسری طرف جانے لگی تو ہم نے اسے ساتھ آنے کو کہا۔ اگلے گائوں میں راستہ صرف ایک گاڑی کے لئے تھا، گلی کا کچھ حصہ چھت ڈال کر ڈھانپ دیا گیا تھا۔ گلی تھوڑا سا موڑ کاٹتی تھی اس لئے گاڑیوں کو سامنے کی خبر نہ ہوتی۔ یہاں دونوں طرف مقامی نوجوان کھڑے تھے۔ سادہ سے لباس سے درویشی ٹپکتی۔ وہ سٹی بجا کر دوسری طرف والوں کو گاڑیاں روکنے کا کہتے اور اپنی طرف والی ٹریفک کو آگے بڑھنے کا اشارہ کرتے۔ یہاں سے نکلے تو جی ٹی روڈ نظر آنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد ہم خالی سڑک پر گاڑی دوڑا رہے تھے۔ کھاریاں پہنچے تو کافی لوگ سڑک پر موجود تھے۔ پولیس کے دستے حفاظتی پیڈ باندھے اور ہیلمٹ لئے کھڑے تھے۔ لگ بھگ آدھ کلو میٹر تک گاڑیوں کے ٹوٹے شیشے، پتھر اور ہنگامے کے آثار تھے۔ شاید تھوڑی دیر پہلے ہی راستہ صاف کرایا گیا تھا۔ ہم اردگرد دیکھتے روانہ ہو گئے۔ وزیر آباد آیا تو ایک بار پھر دھرنا سامنے تھا۔ راستہ بند۔ گاڑی سڑک سے نظر آنے والے گائوں بھٹی کے کی طرف ڈال دی۔ ایک لمبا چکر کاٹ کر دوبارہ سڑک پر آ گئی۔ یہاں پھر وہی معاملہ۔ معلوم ہوا سمبڑیال کی طرف سے راستہ مل سکتا ہے۔ سمبڑیال چوک میں آئے تو رکنا پڑا۔ یہاں کئی دوست تھے۔ ایک کو فون کیااور کال پر اسے جی پی ایس کی طرح گائیڈ کرنے کو کہا۔ علامہ اقبال کی والدہ کے آبائی گائوں جیٹھی کے سے گزر کر ہم دوبارہ مین روڈ پر آئے اور پھر سیالکوٹ والی موٹر وے پر آ گئے۔ وہاں سے ہربنس پورہ کے قریب نہر پر اترے اور آدھ گھنٹے بعد دفتر پہنچ گئے۔
بند راستوں، پرتشدد دھرنوں اور چھوٹے چھوٹے دیہات سے گزرتے ہوئے احساس ہوا کہ ہم اتنے برے نہیں جتنا ہم خود کو سمجھنے لگے ہیں۔ ہم بھٹکے ہوئوں کو راستہ دکھاتے ہیں، ہم مسافروں کو پانی پلاتے اور کھانے سے تواضع کرتے ہیں۔ ہم تشدد کے ہر عمل سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم اس بات پر دکھی ہو جاتے ہیں کہ دشمن سے بدلہ لینے کی بجائے کچھ لوگ اپنے ہی لوگوں کے کیوں دشمن ہو جاتے ہیں۔ یقینا میں روہتاس کے تاریخی آثار پر مزیدلکھوں گا لیکن میرے سامنے وہ پولیس اہلکار آ کر کھڑا ہو جاتا ہے جو ریاست کا محافظ بن کر سامنے آتا اور شہید ہو جاتا ہے، کتنے ہی افسر اور اہلکار ان دنوں تشدد کا نشانہ بنے۔ میں چاہتا تھا ان کے زخموں پر اس اعتراف کا مرہم رکھوں کہ ہم اپنے محافظوں سے محبت کرتے ہیں۔