ممتاز قانون دان اور ہمارے کالم نگار آصف محمود نے توجہ دلائی کہ فارن فنڈنگ والے کالم کے کچھ گوشوں پر مزید لکھیں، آصف چاہتے تھے کہ پی پی او 2002 کی بجائے میں 2017 کے الیکشن ایکٹ کو سامنے رکھ کر اس کیس کو دیکھوں۔ میں اپنے دوست کالم نگار کو قانون سے پہلے سایوں کی بات سنانے لگا۔
سایہ کسے کہتے ہیں: جو روشنی کو روک کر اپنا وجود پھیلاتا ہے۔ سیاست میں بھی سائے ہوتے ہیں، حقائق کی روشنی کو اپنے سامنے رکھتے ہیں لیکن دوسروں کو اپنے پراسرار وجود سے پار دیکھنے نہیں دیتے۔ سائے کوتاریک وجود بھی کہا جا سکتا ہے۔ کچھ اسے جزوی تاریکی کا نام دیں گے۔ پرچھائی ایک مخلوق کے طور پر ہماری گفتگو میں آتی ہے۔ یہ ایسا سایہ ہوتا ہے کہ جو کسی ٹھوس وجود کی روشنی کے سامنے آنے سے نہیں بنتا بلکہ ایک الگ تاریک وجود کے طورپر چلتا پھرتا ہے۔ مافوق الفطرت تصورات پر یقین رکھنے والے اسے بدروح بھی کہتے ہیں۔
پاکستان میں حکومت کسی کی ہو، انسان قابو میں ہوتے ہیں، سائے بے قابو رہتے ہیں۔ پی ٹی آئی پر فارن فنڈنگ کا مقدمہ 2014ء میں اس وقت قائم ہوا جب اس نے مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف تحریک شروع کر رکھی تھی۔ تحریک انصاف کا مطالبہ تھا کہ 2013ء کے انتخابی نتائج دھاندلی زدہ ہونے کی تحقیقات کرائی جائیں۔ جس وقت یہ مقدمہ قائم ہوا اس وقت پولیٹیکل پارٹنر ایکٹ 2002ء نافذ تھا جس کے تحت کسی مستند ملک دشمن ادارے، تنظیم یا ملک سے فنڈز لے کر اس کے ایجنڈے کے مطابق سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنا غیر قانونی قرار دیا گیا تھا تاہم غیر ملکی افراد سے فنڈز لینا جائز تھا جن پر پاکستان دشمنی کا کوئی جرم ثابت نہیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت چاہتی تھی کہ تحریک انصاف کوسزا دی جائے۔ اس کے قانون دانوں نے اپنی قیادت کی آتش انتقام سرد کرنے کے لیے ایک شکاری پھندا تیار کیا۔ تحریک انصاف کو چار حلقوں میں ووٹوں کی پڑتال کا حق مل گیا۔ اس پڑتال کے نتیجہ میں لودھراں سے جہانگیر ترین کامیاب قرار پائے۔ لاہور سے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے حلقہ میں دوبارہ الیکشن ہوا جس میں قومی خزانے اور نوکریوں کا بے تحاشا سیاسی رشوت کے طور پر استعمال ہوا۔ ایاز صادق 500 ووٹ سے جیت گئے۔ سعد رفیق اپنے نتائج کی پڑتال پر عدالت چلے گئے اور باقی مدت سٹے آرڈر پر گزاری۔ سیالکوٹ سے خواجہ آصف کی جیت جائز قرار دی گئی۔
تحریک انصاف کی پارلیمنٹ میں کم نمائندگی یا پھر حالات کا درست اندازہ کرنے میں اس کی ناکامی کا نتیجہ تھا کہ لیگی حکومت نے جب پولیٹیکل پارٹنر ایکٹ 2002ء میں ترمیم کی تو ساتھ تاثر دیا کہ یہ کام تحریک انصاف کی جانب سے انتخابی اصلاحات کے مطالبہ پر کیا جارہا ہے۔ بڑی ہوشیاری کے ساتھ الیکشن ایکٹ 2017ء میں ان ضابطوں کو تبدیل کردیا گیا جن کا تعلق فارن فنڈنگ سے تھا۔ ترمیمی مسودے کی تشریح میں پلڈاٹ کے سربراہ بلال محبوب نے عرب نیوز میں اس وقت ایک مضمون لکھا تھا۔ بلال محبوب نے نئے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن پر فارن فنڈنگ الزامات پر تبصرہ کیا۔ ان کے تبصرے میں یہ بات شامل تھی کہ نئے قانون میں کسی بھی غیر ملکی کے فراہم کردہ فنڈ پر پارٹی تحلیل ہو سکتی ہے۔
اس صورت میں واقعی تحریک انصاف کی حکومت مشکل میں پھنس سکتی ہے۔ یہ بات تحریک انصاف کے نادان ترجمانوں اور قانونی ماہرین کو کون سمجھائے کہ انہوں نے خواہ مخواہ مزید تین سال تاخیر کر کے اپنے پائوں پر کلہاڑا مارا۔ انہوں نے الیکشن کمیشن اور عدالت کے سامنے یہ نکتہ رکھنے کی کوشش تک نہیں کی کہ جب ایک واقعہ ہوا تو اس وقت کے قانون کے مطابق وہ عمل غیر قانونی نہیں تھا۔ بعد میں اس کی ممانعت کا قانون 2017ء میں آیا تو اس کا اطلاق 20014ء کے عمل پر کیسے کیا جاسکتا ہے؟
الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 204ء کی شق 3 کے تحت کسی بیرونی ملٹی نیشنل، پبلک یا پرائیویٹ کمپنی، فرم، ٹریڈ یا پروفیشنل تنظیم یا پھر کسی فرد واحد کی طرف سے بھیجی رقم کی براہ راست یا بالواسطہ وصولی غیر ملکی چندہ یا عطیہ کے ضمن میں آئے گی۔ اسی شق 3 کی ذیلی شق (ب) میں بتایا گیا ہے کہ تارکین وطن کو غیر ملکی ذریعہ تصور نہیں کیا جائے گا۔ سیکشن 212 کی شق ایک کے تحت وفاقی حکومت اگر تسلی کرلے کہ الیکشن کمیشن کے ریفرنس یا دوسرے ذرائع سے ملنے والی معلومات درست ہیں کہ کوئی پارٹی غیر ملکی فنڈ سے قائم ہوئی، کام کر رہی ہے یا اس پارٹی سے قومی سلامتی کوخطرہ ہے یا دہشت گردی کو بڑھاوا دے رہی ہے تو حکومت اسے تحلیل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرسکتی ہے۔
تحریک انصاف کے معاملے میں یہ حقائق ثابت نہیں ہو سکے۔ پھر قانون بننے کی مدت سے پہلے کے واقعات پر اس کے اطلاق کا فیصلہ کیا گیا تو میاں نوازشریف اور ان کی جماعت بے نظیر بھٹو کو ہرانے کے لیے اسامہ بن لادن سے لیے گئے فنڈز کے الزامات سے نہیں بچ سکیں گے۔ یہ الگ بات کہ اس الزام کو ثابت کرنا کتنا مشکل ہوگا۔
تحریک انصاف کے ایک بزرگ سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ فارن فنڈنگ کے حوالے سے پی ٹی آئی کی پالیسی اس مقدمے کے بعد بہت واضح اور سخت بنا دی گئی ہے۔ سیاسی سطح پر جب ہم فارن فنڈنگ کی بحث سنتے ہیں تو چھ سال تک قانونی ماہرین کے دیئے گئے دلائل اور نئی قانون سازی کو فراموش کر کے سیاسی تعصب والا لہجہ اختیار کرلیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی دانشمندی کا بھرم اس وقت مزید کھل جاتا ہے جب خالص قانونی معاملے پر عام شدھ بدھ والا ان کا کوئی نمائندہ ٹاک شوز میں اظہار خیال کر رہا ہوتا ہے اور اگلے کئی روز ناخواندہ سیاستدان ان نا درست دلائل کے گھوڑے دوڑا کر عقل کے نخلستان روندتے رہتے ہیں۔ سایوں کا تعاقب کرتے ہیں۔ سائے اندھیرے میں گم ہو جاتے ہیں اور ہم اپنے اندھے پن کا نوحہ کہتے کہتے نڈھال۔