فواد چودھری اور شیخ رشید کی باتوں کو سنجیدگی کے ایک ہیدرجے پر نہیں رکھا جا سکتا مگر ان دنوں تواتر سے دونوں حضرات نے مسلم لیگ ن کے قالین کے نیچے چھپے اختلافات پر بیانات داغے تو مجھے نپولین بونا پارٹ یاد آ گیا۔ نپولین جب فرانس کے اعلیٰ ترین انتظامی ادارے ایگزیکٹو کونسل کافرسٹ ڈائریکٹر بن گیا تو اس کے ذہن میں شہشناہ بننے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگی لیکن اسے انقلابی پارٹی کی جانب سے مزاحمت کا ڈر تھا۔ اسے اندیشہ لاحق ہوا کہ پارٹی اراکین کہیں گے کہ انہوں نے انقلاب فرانس اس لیے تو برپا نہیں کیا کہ جس شہنشاہیت کا خاتمہ کیا اسے دوبارہ بحال ہونے دیں۔ ایک شام نپولین ڈرامہ دیکھنے تھیٹر کو روانہ ہوا۔ راستے میں اس کی بگھی ایک جگہ سے گزری تو گزرنے کے چند سیکنڈ کے بعد وہاں بم دھماکہ ہوگیا۔ نپولین بالکل نہیں گھبرایا۔ وہ تھیٹر پہنچا، صدارتی باکس میں بیٹھ کر پورا ڈرامہ دیکھا۔ اس دوران اس کا دماغ اس سانحے کے بارے میں سوچتا رہا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ تخریبی کارروائی میں ملوث افراد کو ڈھونڈنا پولیس کا کام ہے۔ اس سے مجھے کوئی غرض نہیں، مجھے تو یہ دیکھنا ہے کہ میں اس واقعہ کو اپنے مفاد میں کیسے استعمال کرسکتا ہوں۔ چنانچہ اگلی صبح اس نے اپنی پارٹی کے ایسے تمام لوگوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا جن کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ وہ اس کے شہنشاہ بننے کے ارادے کی مخالفت کریں گے۔
پاکستان کے مرحوم اور شہید ہو چکے بہت سے سیاسی رہنما قومی و بین لاقوامی تاریخ کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ خصوصاً بائیں بازو کی جماعتوں میں بین الاقوامی نظریات، ان نظریات کا پاکستانی سماج پر انطباق اور جدلیاتی ارتقا پر غور کیا جاتا۔ کچھ بائیں بازو کی اپنی غلطیوں اور کچھ ان کے مخالف حلقوں کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ دائیں بائیں کی بحث ختم ہونے کے بعد یہ لوگ سماج کے لئے اپنی حیثیت کو کار آمد ثابت کرنے کی جدوجہد میں ہیں۔ یہ سماج کا مجموعی رویہ ہے۔ ناقدری کا شکار ہر با صلاحیت ہے۔ اب بے مرشدے لوگ ہیں۔ آگاہی کی بنیادی روشنی کے بغیر بازار سے کتاب خرید کر لاتے ہیں اور پھر اپنے غیر تربیت یافتہ دماغ میں تعصبات کو پالتے ہیں۔ ان تعصبات کو نظریات کا نام دیتے ہیں اور اپنے جیسے نابغوں کی کوئی مجلس بنا لیتے ہیں۔
مرحوم اصغر خان کی کتاب، میری سیاسی جدوجہد، 2005ء کے لگ بھگ شائع ہوئی۔ شاید یہ کسی معتبر، باوقار اور حقیقی سیاستدان کی آخری کتاب تھی۔ بے نظیر بھٹو کی خود نوشت "دختر مشرق" بہرحال سب سے نمایاں ہے۔ ہم نے بعدازاں جنرل پرویز مشرف کی ان دی لائن آف فائر، جاوید ہاشمی کی کتاب، ہاں میں باغی ہوں، یوسف رضا گیلانی کی "چاہ یوسف سے صدا" اور اب شیخ رشید کی دوسری کتاب بھی دیکھ لی لیکن مطالعہ مشاہدہ اور تجربہ کی روشنی کب کی گل ہو گئی۔ اب تو اندھے لفظ ہیں جو ابلاغ کو پہچانتے ہیں نہ سلیقے سے واقف۔ سب مال تیار ملتا ہے۔ کل کلاں کوئی مریم نواز کی کتاب شائع کرکے ہمیں ان کی جمہوری جدوجہد پر ایمان لانے کا درس دے رہا ہوگا، ہم نے جن بہت سے بزرگوں کو سینئر اور بڑا صحافی مان رکھا ہے وہ سب اس کتاب کی ہزاروں خوبیاں ڈھونڈ نکالیں گے۔ جو کہے گا کہ باقی سیاستدانوں کی طرح یہ کتاب بھی گھوسٹ رائٹر کی لکھی ہے اسے جمہوریت دشمن، فوج کا ایجنٹ اور جانے کیا کیا کہا جائے گا۔ سیاستدان کی قابلیت یہ رہ گئی ہے کہ اب وہ لکھ بھی نہیں سکتا۔
نوازشریف اور شہبازشریف بھائی ہیں۔ ایک مدبر والد کی سرپرستی میں دونوں نے تربیت پائی۔ دونوں کے مزاج میں فرق اپنی جگہ لیکن یہ سچ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نہیں ہوسکتے۔ دونوں کی اولاد بھی ایک دوسرے سے اتنی محبت کرے اور اسی طرح ایک دوسرے کی مدد کرے یہ اب ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ مجھے یاد ہے شریف خاندان سعودی عرب گیا تو ضمانت کے طور پر حمزہ شہباز وطن میں رہے۔ حمزہ نے مسلم لیگ ن میں ایک خاص گروپ بنایا۔ بعد میں یہی گروپ پورے پنجاب میں ہونے والے ہر ضمنی انتخاب کا انتظام سنبھالتا۔ حمزہ شہباز ضمنی انتخاب کے ماہر بن چکے ہیں۔ گزشتہ برس بلاول بھٹو کے ساتھ ملاقات کے لیے مریم نواز کا پروگرام بنا تو حمزہ کوبڑی مشکل سے ساتھ جانے پر آمادہ کیا گیا۔ ملاقات کے دوران بھی وہ لاتعلق سے دکھائی دیئے۔ اب مریم نواز اور ان کے بھائی درپردہ رابطوں کا پھل کھا رہے ہیں جبکہ حمزہ شہباز نیب کی حراست میں ہیں۔ ان کے حامیوں نے سالگرہ کے کیک کاٹے اور حمزہ حمزہ کے نعرے لگائے۔
لاہور کے نئے سی سی پی او شیخ عمر کی تعیناتی پر اراضی پر قبضے کرنے والے گروہ پہلی بار پریشان دکھائی دیئے ہیں۔ لاہور پولیس میں ن لیگ کے بہت سے سہولت کار ہیں۔ ایسے اہلکاروں کی فہرستیں بن چکی ہیں۔ قبضہ مافیا کے جو لوگ جلسے جلوسوں میں ہنگامہ آرائی کرتے ہیں ان کے خلاف کارروائی کا امکان ہے۔ ممکن ہے ن لیگ کا کوئی شہ دماغ اس موقع پر مریم نواز کو میسر افرادی و مالی سہاروں کو قانون کی گرفت میں لانے کا منصوبہ بنا رہا ہو۔ سارا الزام پولیس اور وزیراعظم پر آ جائے گا۔ اب یہ ممکن دکھائی دینے لگا ہے کہ قانون شکنوں کو سیاسی جھنڈوں تلے چھپنے کا موقع نہ دیا جائے۔ سنا ہے جاتی عمرہ کا خرچ اٹھانے والی پارٹی جلد شکنجے میں آ سکتی ہے۔ ہمارے ہاں مارکیٹ چائنا کے نپولینز سے بھری ہوئی ہے۔ کسی حادثے، ہنگامے، جلوس اورجرم کو لمحوں میں ایسا عوام دوست رنگ دیتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے۔ ابھی راستے میں کچھ پتھر ہیں جن سے محلوں کے شیشے بھی توڑے جاسکتے ہیں لیکن جس کے راستے کے پتھر صاف ہوں گے کوئی اس پر انگلی نہیں اٹھا پائے گا۔