تازہ واقعہ گورنمنٹ سائنس کالج لاہور میں پیش آیا۔ جمعیت کے چند کارکنوں کا ہوسٹل میں مقیم غیر جماعتی طلباء سے جھگڑا ہوگیا۔ تین روز پہلے جمعیت کے کارکنوں نے ہاسٹل کو باہر سے بند کردیا۔ محصور طلباء نے ایک ویڈیو بنائی جس میں ناظم جمعیت کے پستول کا ذکر تھا۔ اگلے دن خبر آئی جمعیت نے طلباء کوپیٹا۔ ایک ویڈیو میں طالب علم کی گردن پر گھٹنا رکھ کر نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ ایک کو ہوسٹل کی چھت سے گرا دیا۔ پرنسپل نے مقامی پولیس سٹیشن میں اطلاع کی لیکن پولیس تماشہ دیکھتی رہی۔ دو طلباء کی حالت نازک ہے۔ زخمی طلباء کا کہنا ہے کہ پولیس نے کچھ با اثر شخصیات کے کہنے پر حملہ کرنے والوں کی بجائے ان پر ایف آئی آر درج کردی ہے۔
پاکستان کی یونیورسٹیاں اور کالج عالمی رینکنگ میں کیوں نہیں آ سکے، اس سوال کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے۔ میرے جیسے کچھ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر اسلامی جمعیت طلبائ، پی ایس ایف۔ این ایس ایف۔ مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، بلیک ایگلز اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نہ ہوتیں تو تعلیمی اداروں کا ماحول واقعی تعلیم دوست ہوتا۔
کالجوں پر قبضہ بحال رکھنے کے لیے کسی زمانے میں مخالف تنظیم کے کارکن قتل کردیئے جاتے۔ اس کام کے لئے آج بھی قانون ہاتھ میں لیا جاتا ہے۔ آج کی مسلم لیگ ن تحریک انصاف اورجماعت اسلامی میں ایسے لوگوں کی خاصی تعداد ہے جو طلباء کی پرتشدد سیاست کا اہم کردار رہے۔ تشدد پسند ذہن جھگڑالو اور مرنے مارنے والوں کو جی دار، دلیر اور بہادر قرار دیتا ہے۔ ایسے بیمار ذہنوں کی اب بھی کمی نہیں۔ ہمیں کالج میں سیاست کرنے سے ابا جی نے منع کر رکھا تھا۔ سیاست کا شوق محلے اور علاقے کی سرگرمیوں میں حصہ لے کر پورا کرلیتے۔ اسلامیہ کالج سول لائنزہوسٹل میں آئے روز طلباء تنظیم والے کسی مخالف کو اٹھا لاتے۔ گرم استری لگائی جاتی۔ ناخن اکھاڑے جاتے، پولیس تشدد والے سارے آلات بروئے کار آتے۔ انجینئرنگ یونیورسٹی، ایم اے او کالج اور دیال سنگھ کالج میں بھی یہی کچھ ہوتا۔ طلباء تنظیموں نے باقاعدہ بدمعاش پیدا کئے۔ ویگنوں سے بھتہ لینا، ریڑھیوں سے مفت پھل اٹھا لینا، پینوراما اور انارکلی میں سیکنڈ ہینڈ کپڑے خریدتے وقت غریب دکانداروں سے بدمعاشی کرنا اور پھر سیاسی جماعتوں کی سرپرستی میسر آنے پر خود قبضہ گروپ بنا لینا۔ ایک کا طریقہ کار دوسری سے کچھ مختلف رہا لیکن تاثر سب کے بارے میں ایک سا رہا۔
اسلامی ماحول چاہئے ہو تو اصحاب صفہ جیسے طالب علم بن کر دکھائو، ٹیکنالوجی کے دور سے ہم آہنگ رہنا چاہتے ہو تو آکسفورڈ کا ماحول پیدا کرلو? لیکن یہاں تو دہشت کو دودھ پلایا جاتا ہے۔ دہشت ردعمل میں بڑی دہشت پیدا کرتی ہے۔ پستول کے مقابلے میں کلاشنکوف نکل آتی ہے۔
ہمارے بزرگ ساتھی توصیف احمد خان مرحوم ایک بار پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم اپنی بیٹی سے ملنے گئے۔ کینٹین سے چائے کے انتظار میں باپ بیٹی بیٹھے تھے کہ طلبا تنظیم کے کارکن آدھمکے، اعتراض کردیا کہ لڑکا لڑکی اکٹھے نہیں بیٹھ سکتے۔ توصیف صاحب کی عمر اس وقت ستر برس کی ہو گی۔ بتایا کہ ہم باپ بیٹی ہیں۔ کارکن کب مانتے۔ خان صاحب وہاں سے تو دل جلا کر اٹھ آئے لیکن روزانہ شائع ہونے والے اپنے کالم "آج کی بات" میں ہر دوسرے روز اس واقعہ کا ذکر کرتے۔ جماعت اسلامی کو بھی ساتھ گھسیٹ لیتے۔ جماعت کی ساری قیادت نے خان صاحب سے باری باری معذرت کی لیکن ان کا دل اس درجہ دکھا تھا کہ مرتے دم تک یہ واقعہ لکھتے اور بیان کرتے رہے۔
کالج یونیورسٹی میں بدمعاشی کرنے والوں نے بعدازاں اپنے تعلیمی ادارے بنا لیے جہاں نہ کسی یونین کی اجازت ہے نہ کوئی تنظیم قائم ہو سکتی ہے۔ ہزاروں خاندانوں کا مستقبل برباد کرنے والے ارب پتی ہیں، انہیں احساس تک نہیں کہ انہوں نے درس گاہوں کو قتل گاہیں بنا کر کیا ظلم کیا۔
یہ 2007ء کے لگ بھگ کا واقعہ ہے۔ عمران خان کو پنجاب یونیورسٹی میں ان کے حامی طلباء نے کسی تقریب میں مدعو کیا۔ وہاں اسلامی جمعیت طلباء کے کارکنوں نے عمران خان کو دھکے دیئے، زدوکوب کیا۔ عمران خان کو صدمہ رہا کہ ان دنوں وہ قاضی حسین احمد مرحوم کے بہت قریب تھے۔ جماعت کے سینئر رہنمائوں نے عمران خان کو بتایا کہ جمعیت اپنے معاملات میں جماعت کے اثر میں نہیں۔ مرحوم عباس اطہر نے اس پر سلسلہ وار کالم لکھے۔ عمران خان نے ہمیں زمان پارک والے گھر مدعو کیا۔ عباس اطہر، نذیر ناجی، اطہر ندیم صاحب اور کچھ دوسرے سینئر زکے ساتھ مجھے بھی موقع ملا کہ عمران خان کے ساتھ پیش آئے بدسلوکی کے واقعہ کو ان کی زبانی سن سکوں۔
واقعات سینکڑوں میں ہیں لیکن یہ ثابت کرنا مقصود نہیں کہ جمعیت، ایم ایس ایف یا کسی بھی تنظیم کا ہر کارکن بدمعاش ہے، کئی بھلے لوگ بھی ملے۔ ناگوار واقعات دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ طلباء تنظیموں میں تشدد پسند عناصر کی سرپرستی روکی جائے۔ سیاسی جماعتیں تشدد پسند عناصر کی سرپرستی پر کیوں بضد رہتی ہیں، آخر تشدد پسند لوگوں کو سلجھے، شائستہ اور مکالمہ پریقین رکھنے والے نوجوانوں پر فوقیت کیوں دی جاتی ہے۔ جو ملک ترقی یافتہ ہیں وہاں کا نوجوان ہاتھ میں پستول لے کر خود کو نہیں منواتا، نہ وہ خدائی فوجدار ہوتا ہے۔ اس کی توجہ کتاب، استاد، ہنر اور سماج میں بطور کارآمد شہری جگہ بنانے پر ہوتی ہے۔
جماعت اسلامی کی موجودہ تمام قیادت جمعیت سے آئی ہے۔ جناب سراج الحق، لیاقت بلوچ، امیر العظیم اور برادرم قیصر شریف۔ انہیں بخوبی علم ہوگا کہ جمعیت میں گھسے تشدد پسند عناصر کی وجہ سے خود جماعت اسلامی کو آج تک مسائل درپیش ہیں۔ انہیں ایسی شکایات پر کارروائی کرنا چاہیئے۔ سماج میں ایک گھٹن ہے۔ طلباء تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں آکسیجن کی بجائے مسلسل سماج میں گھٹن چھوڑ رہی ہیں۔ سانس لینا مشکل ہورہا ہے، کیا ہم اس وقت کے منتظر ہیں جب گھٹن کی تمازت سماج کے پورے ڈھانچے کو پگھلا کر گٹر میں بہا دے گی۔ یہ سوال بھی بے حسی کی رومیں بہہ جائے گا کہ سرکاری تعلیمی اداروں کو مارکیٹ، بس اڈہ، لنڈا بازار یا قبضے کی جگہ کیوں سمجھ لیا گیا ہے؟