Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. 1953 Ke Shaheed Talba Ki Yaad Mein

1953 Ke Shaheed Talba Ki Yaad Mein

اول ڈاؤ میڈیکل کالج کی MBBS کی ڈگری سرکاری سطح پر تسلیم کی جائے، دوم چھ ماہ کی یکمشت فیس کی بجائے فیس کا شیڈول ماہوار کیا جائے، سوم طلبا کی فیس میں 33 فیصد کمی کی جائے، چہارم تعلیمی اداروں کی تعداد میں حسب ضرورت اضافہ کیا جائے، پنجم طلبا کے لیے رہائش گاہوں میں اضافہ کیا جائے، ششم اردو کالج و اسلامیہ کالج میں رات کی کلاسوں کو بند کرنے کا حکم واپس لیا جائے، ہفتم جو طلبا فیس ادا کرنے سے قاصر ہیں ان کی فیس معاف کی جائے بلکہ ان مفلس طلبا کی مالی معاونت کی جائے، ہشتم دستور میں نوجوانوں کے حقوق کی ضمانت دی جائے، نہم اسکالر شپ پانے والے طلبا سے یونیورسٹی کی فیس نہ لی جائے، دہم بورڈ اور یونیورسٹی کے عام امتحانات کے بعد ضمنی امتحانات کا طریقہ رائج کیا جائے۔

یہ وہ دس مطالبات تھے جنھیں منوانے کے لیے طلبا 8، 7، 6 جنوری 1953 کوکراچی کی شاہراہوں پر احتجاج کر رہے تھے، یہ ضرور تھا کہ 8 جنوری کو یہ احتجاج اپنے نقطہ عروج پر تھا، طلبا کا جوش و خروش ایک طوفان کی شکل اختیار کر رہا تھا جوکہ کسی بھی صورت میں تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا، دوسری جانب حکومت نے گویا یہ عہد کر رکھا تھا کہ وہ کسی بھی حالت میں طلبا کے مطالبات تسلیم نہیں کرے گی، گوکہ کیفیت یہ تھی کہ طلبا کے دس مطالبات میں سے کوئی ایک بھی مطالبہ ایسا نہ تھا جسے غیر ضروری وغیر مناسب کہا جاتا مگر حکومت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم تھی کہ طلبا کا کوئی ایک بھی مطالبہ تسلیم نہیں کیا جائے گا گوکہ اس احتجاج میں اس وقت کی تمام تنظیمیں شریک تھیں، البتہ 1950 میں قائم ہونے والی طلبا تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن پیش پیش تھی، ڈاکٹر سرور اس طلبا تنظیم کے روح رواں تھے۔

طلبا کا یہ احتجاج اس قدر شدید تھا کہ اس احتجاج کو ملکی ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ غیر ملکی عالمی نشریاتی ادارے بھی نمایاں طور پر نشروشایع کر رہے تھے بالخصوص 8 جنوری کو جب حکومت نے پوری قوت سے طلبا احتجاج کو کچلنے کا فیصلہ کر لیا اور عملی اقدام کے طور پر آنسو گیس کے گولے، لاٹھی و بندوق بردار پولیس اہلکار ان معصوم و نہتے طلبا پر حملہ آور ہوگئے۔ پھر کیا تھا اگلے ہی لمحے 26 جیتے جاگتے انسان جان کی بازی ہار گئے تھے۔ بہت سارے طلبا زخمی وگرفتار ہوئے جاں بحق ہونے والے فقط طلبا ہی نہ تھے بلکہ عام شہری بھی شامل تھے۔ اس سانحے میں جاں بحق ہونے والے طلبا و عام شہریوں کے جو نام و کوائف سامنے آئے وہ یہ ہیں۔

گوکہ یہ نام و کوائف نامکمل ہیں البتہ جو نام سامنے آئے وہ یہ ہیں۔ اسکاؤٹ نین سکھ لعل یہ نوجوان طلبا کو پولیس اہلکاروں سے بچا رہا تھا، حیدر علی بوہرا طالب علم سال اول سائنس، شادی شدہ تھا، سکھ لال عمر 15 سال، PVS پارسی ہائی اسکول رفیق دادا عمر12 سال، غلام ربانی زیر تعلیم ہائی اسکول عمر فقط 12 سال، حفیظ اللہ طالب زیر تعلیم، نعمت اللہ 23 سالہ، انفنسٹن ڈرائی کلیننگ کا ملازم، سائیکل رکشہ والا عبدالستار وہرا ملازم ولیکا ملز، ایک پشتون نوجوان جوکہ اپنے کسی قریبی عزیز سے ملنے آیا تھا۔ یہ سب کیفیت ایک جانب مگر دوسری جانب کمشنر کراچی مسٹر نقوی پولیس اہلکاروں کی کارکردگی کی ستائش کر رہے تھے اور طلبا مخالف بیانات دے رہے تھے۔

البتہ خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم پاکستان مجبور ہوئے کہ طلبا رہنماؤں سے مذاکرات کرتے۔ چنانچہ 9 جنوری کو طلبا رہنما خواجہ ناظم الدین کی رہائش گاہ پہنچے، طلبا اور وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین وزیر داخلہ مشتاق احمد گورمانی، وزیر تعلیم فضل الرحمن حکومت کی جانب سے شریک تھے چنانچہ طلبا رہنماؤں نے 8 جنوری کے بعد تبدیل شدہ حالات کے تحت مزید 9 مطالبات حکومتی ارکان کے سامنے رکھے۔ وہ 9 مطالبات یہ تھے اول کراچی کی انتظامیہ غیر مشروط معافی مانگے، دوم شہر سے فوج و پولیس کو فوری طور پر ہٹایا جائے، سوم طلبا پر ہونے والے وحشیانہ تشدد کی عام تحقیقات کرائی جائے اور تحقیقاتی کمیٹی میں طلبا رہنماؤں کو بھی شریک کیا جائے۔

چہارم تعلیم کی وزارت کو دیگر وزارتوں سے الگ کیا جائے۔ پنجم گرفتار شدہ تمام طلبا کو فوری رہا کیا جائے، ششم جان بحق تمام افراد کی لاشیں ان کے ورثا کے حوالے کی جائیں، ہفتم جاں بحق ہونے والے طلبا کے ورثا کو خون بہا، زخمیوں کو معاوضہ دیا جائے، ہشتم کمشنر کراچی مسٹر نقوی کے بیان کی حکومتی سطح پر مذمت کی جائے اور ان کا بیان واپس لیا جائے، نہم طلبا کے خلاف کوئی بھی انتقامی کارروائی نہ کی جائے۔ حکومت نے طلبا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے اور تمام طلبا رہنما راضی خوشی وزیر اعظم ہاؤس سے واپس لوٹ آئے البتہ 10 جنوری کے اخبارات میں حکومت کی جانب سے یہ خبر شایع ہوئی کہ حکومت نے طلبا کے تمام مطالبات مسترد کر دیے ہیں۔

اس شر انگیز خبر نے گویا ایک حشر برپا کردیا۔ انجام کار طلبا کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی 10 جنوری 1953 کو کراچی شاہراہوں پر ایک بھرپور احتجاج کر رہے تھے حکومت نے ایک بار پھر طاقت کا استعمال کرنے کی کوشش کی مگر لوگوں کا غیظ و غضب اپنے عروج پر تھا یہ ممکن تھا کہ یہ عوامی غیظ و غضب کسی تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوتا حکومت نے کمال ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے لوگوں سے پرامن رہنے کی اپیل کردی ساتھ میں کچھ سیاستدانوں، ٹریڈ یونین کے لوگوں کے علاوہ ایک مذہبی سیاسی جماعت نے بھی امن کی اپیل کردی۔ یوں حالات تو پرسکون ہوگئے مگر حکومت نے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس طلبا تنظیم پر پابندی عائد کردی۔ اس تنظیم کے ترجمان ہیرالڈ پر بھی پابندی لگا دی گئی طلبا رہنماؤں کو جیل بھیج دیا گیا یوں یہ طلبا تحریک کچھ عرصے کے لیے ساکت ہوگئی۔

مارچ 1969 کو طلبا نے ایک اور زبردست تحریک کا آغاز کیا۔ نتیجہ ایوبی آمریت دھڑام سے زمین بوس ہوگئی بعدازاں طلبا قوت سے خائف آمر ضیا الحق نے 1984 میں تنظیموں پر مکمل پابندی عائد کردی جوکہ ہنوز برقرار ہے۔ البتہ 29 نومبر 2019 کو ملک گیر احتجاج طلبا کی جانب سے کیا گیا۔ یہ بڑا منظم احتجاج تھا۔ یہ احتجاج طلبا تنظیموں کی بحالی کے لیے تھا مگر پی ٹی آئی حکومت نے روایتی طریقہ اختیار کرتے ہوئے طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس احتجاج کو روکنے کی کوشش کی مقدمات قائم ہوئے جن لوگوں پر مقدمات قائم ہوئے ان میں سیاسی کارکن بھی شامل ہیں۔

سندھ حکومت نے اس معاملے پر مثبت ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے بہرکیف آج سے 67 سال قبل صدر میں پیراڈائز سینما کے سامنے جو طلبا شہید ہوئے تھے 8 جنوری 2020 ان کی 67 برسی ہے جسے عقیدت و احترام سے منایا جائے گا ہم ان 8 جنوری 1953 کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ساتھ میں پی ٹی آئی حکومت سے اتنا ضرور عرض کریں گے کہ طلبا کو مثبت سیاست کا حق ہے ان کو یہ حق استعمال کرنے دے بصورت دیگر بڑھتا ہوا عوامی شعور کوئی بھی رخ اختیار کرسکتا ہے۔