گوکہ دو ہجری میں جنگ بدر میں کفار مکہ سخت ہزیمت اٹھا چکے تھے مگر اس بدترین شکست سے دوچار ہونے کے باوجود تین ہجری میں کفار مکہ تمام قسم کے حربی ساز و سامان کے ساتھ لیس ہو کر ایک بار پھر اہل مدینہ پر لشکر کشی کرنے کے لیے آگئے تھے یہ جنگ جوکہ احد پہاڑ کے دامن میں لڑائی گئی مسلمانوں کو وقتی طور پر شکست سے دوچار ضرور ہونا پڑا تھا مگر یہ شکست ایسی نہ تھی کہ یہ کہا جائے کہ مسلمانوں کو شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا البتہ کفار مکہ اپنے زعم میں جنگ احد کو اپنی بہت بڑی فتح قرار دے رہے تھے۔
چنانچہ 5 ہجری میں کفار نے ایک بہت بڑا لشکر ترتیب دیا اور اس عزم کے ساتھ مدینہ کی جانب روانہ ہوئے کہ نعوذ باللہ مسلمانوں کا خاتمہ کرکے ہی ہماری واپسی ہوگی اس بار کفار مکہ کی تعداد پانچ ہزار کے قریب تھی یہ تعداد اس وقت کے لحاظ سے ایک بہت بڑی تعداد تھی حربی ساز و سامان کی کوئی کسر نہ چھوڑی گئی تھی نامور ترین جنگجو اس لشکر میں شریک تھے دوسری جانب مدینہ میں اس جنگی لشکر کی تیاریوں کی خبر پہنچ چکی تھی چنانچہ مدینہ میں بھی حضور پرنور آقاؐ مدنی و مکی کی قیادت میں مقدور بھر جنگی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ جمہوری طریقہ کار پر عمل کیا گیا اور صحابی رسولؐ حضرت سلمان فارسیؓ کی رائے کو تسلیم کرتے ہوئے مدینہ شہر کے اردگرد ایک خندق کھود دی گئی۔
کفار مکہ کی حکمت عملی یہ تھی کہ مدینہ شہر میں داخل ہوکر قتل عام کیا جائے جب کہ مدنی لشکر کی حکمت عملی یہ تھی کہ بجائے اس کے کہ کسی کھلے میدان میں کفار مکہ کا مقابلہ کیا جائے۔ مناسب ہوگا کہ شہر بند ہوکر لڑا جائے۔ اس طرح مسلمان بہتر پوزیشن میں ہوتے چنانچہ اپنی اسی حکمت عملی پر عمل کرتے مدینہ میں مسلمان خواتین کو گھر کی چھت پر قیام کا حکم دیا گیا۔ البتہ خواتین کی نگرانی کے لیے آقا رسولؐ عربی کی سگی پھوپھی حضرت صفیہؓ بنت عبدالمطلب کو مقرر کردیا گیا۔ مسلمان اب منتظر تھے دیکھئے کس دن کفار مکہ سے جنگ ہوگی بالآخر کفار مکہ مدینہ کی جانب روانہ ہوئے اور مدینہ شہر کے قریب پہنچ کر محو حیرت تھے کہ ان کی مزاحمت کے لیے کوئی جنگی لشکر تو نہ تھا البتہ مدینہ شہر کے چاروں طرف ایک خندق کھودی گئی موجود تھی۔
اس کیفیت میں کفار مکہ نے مدینہ شہر کے باہر قیام کیا اور بدلتے حالات کے تحت جنگی حکمت عملی ترتیب دی جانے لگی البتہ جنگی جنون میں مبتلا چند جنگجو مدینہ شہر میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے اور اس گھر کی جانب پیش قدمی کی گئی جہاں مسلمان خواتین قیام پذیر تھیں۔ ارادہ تو یہی تھا کہ مسلمان خواتین کا قتل عام کیا جائے البتہ خواتین کی نگرانی پر مامور حضرت صفیہؓ بنت عبدالمطلب بھی پوری تیاری کے ساتھ چوکس تھیں چنانچہ جب کفار مکہ کے جنگجو اس گھر کے قریب پہنچ کر بالائی منزل پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگے تو خواتین میں خوف و ہراس پھیلتا دیکھ کر حضرت صفیہؓ نے خواتین کو تسلی دی اور ایک تلوار طلب کی انھیں تلوار پیش کردی گئی چنانچہ حضرت صفیہؓ نے اپنا آنچل دستار کی شکل میں سر پر باندھا اور تلوار سونت کر کھڑی ہوگئیں چنانچہ جب ایک مکی فوجی نے مکان کی چھت پر چڑھنے کی کوشش کی اور اپنی کوشش میں کامیاب بھی ہو گیا تو جناب صفیہؓ نے اس جنگجو کو لڑائی کے لیے للکارا اور ایک ہی وار میں اس کا سر تن سے جدا کردیا اور اس جنگجو کا سر نیچے دیگر کفار مکہ کی جانب اچھالتے ہوئے فرمایا کوئی اور ایسا جنگجو بھی ہے جسے آج مرنے کا شوق ہے اس کیفیت میں اس مکان کے پاس نیچے کھڑے جنگجو دہشت زدہ ہوکر وہاں سے سرپٹ بھاگ کھڑے ہوئے۔
حضرت صفیہؓ سے منسوب یہ کوئی واحد مثال نہیں بلکہ اکثر اسلامی جنگوں میں مسلم خواتین نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے ان جنگوں میں مسلم خواتین کی ذمے داری ہوتی تھی کہ وہ نہ صرف مسلمان فوجیوں کو پانی پلاتیں بلکہ وہ زخمی فوجیوں کی مرہم پٹی بھی کرتیں اسی لیے یہ بات مسلم خواتین سے منسوب کی جاتی ہے کہ انھوں نے نرسنگ جیسے مقدس شعبے کا آغاز کیا پھر حربی عمل میں حصہ لینے تک ہی بات محدود نہیں بلکہ تجارت کے شعبے کا بھی اگر ذکر کیا جائے تو ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی تجارت تو دوسرے ممالک تک پھیلی ہوئی تھی اور ان کا مال تجارت خود آقاؐ دو جہاں ؐ خود فروخت کے لیے لے کر جاتے تھے بالخصوص مصر کے بازاروں تک ان کا مال تجارت جاتا تھا۔
اگر فقط اپنے ملک کی سیاست کی بات کریں تو سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی مثال دی جا سکتی ہے جن کی فہم و فراست کا یہ عالم تھا کہ جب مشرف دور میں 2007 میں ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہوا تو مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ ان انتخابات کا بائیکاٹ کریں گے مگر محترمہ نے فقط 30 منٹ کی مختصر ترین ملاقات میں اپنے سیاسی حریف کو اپنی قابلیت سے قائل کرلیا کہ میاں صاحب عام انتخابات میں حصہ لینے پر رضامند ہوگئے البتہ محترمہ کی ناگہانی وفات کے باعث جب یہ عام انتخابات منعقد ہوئے تو یعنی 18 فروری 2008 کو تو ان کی پارٹی کے لوگ عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے باوجود چالیس روز بعد یہ فیصلہ کر پائے کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ہوں گے جب کہ چالیس روز تک یہ فیصلہ کہ وزیر اعظم کون ہوگا، زیر بحث رہا۔ یہ محترمہ کی ذہانت، فہم و فراست تھی۔
البتہ، عصر حاضر کا ذکر کیا جائے ان بدترین معاشی حالات میں سب سے زیادہ متاثر خاتون خانہ ہی ہوتی ہیں ان کے ساتھ سماجی جبر و استحصال کا ذکر ہوگا تو سب سے زیادہ جبر و استحصال کا شکار عورت ہی نظر آئے گی۔ گھریلو تشدد، عصمت دری، تیزاب گیری، محنت کش خواتین کو قلیل اجرت کا حاصل ہونا یہ مسائل قدم قدم پر خواتین کا پیچھا کرتے ہیں۔ ان حالات میں اگر خواتین اپنے حقوق کے لیے آٹھ مارچ کو اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے، محنت کش عورت مارچ جیسے پروگرام ترتیب دیتی ہیں تو وہ حق بجانب ہیں ہمارے خیال میں عصر حاضر میں اگر معاشی حالات میں بہتری لانا ہے تو خواتین کو معاشی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا ہوگا تب ہی معاشی تبدیلی آئے گی کیونکہ عورت ماضی کی ہو یا عصر حاضر کی قدرت نے اسے تمام ان صلاحیتوں سے نوازا ہے جن سے مردوں کو نوازا گیا ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دیا جائے آخر میں مخدوم محی الدین کا یہ شعر پیش کریں گے کہ:
تیرے ماتھے پہ یہ آنچل خوب ہے لیکن
تو اس آنچل کو گر پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا