یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں تفریح کے مواقعے بہت ہی قلیل ہیں اور جوکہ تفریح کے معدودے چند مواقع ہیں وہ عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔
ماضی میں فلم ایک تفریح کا اہم ذریعہ تھا جوکہ آج سے 25 سے 30 سال قبل ایک بہترین ذریعہ تھا اور عام آدمی کی دسترس میں بھی تھا اس وقت ان فلموں کا معیار اس قدر بلند ہوتا تھا کہ لوگ پوری پوری فیملی کے ساتھ سینما گھروں میں جاکر فلم بینی کا شوق پورا کرتے تھے پھر یہ سستی ترین تفریح کا ذریعہ جوکہ عام لوگوں کی دسترس سے دور ہوتا چلا گیا جب کہ فلموں کی تیاری میں بھی نمایاں ترین کمی ہونا شروع ہوچکی تھی۔
سینما میں داخلے کے لیے ٹکٹوں کے بڑھتے ہوئے دام بھی فلموں کے زوال کا باعث بننے لگا اور پھر یہ وقت بھی آیا فلمسازی کا عمل مکمل طور پر بند ہوگیا اور عام لوگ اس تفریح سے محروم ہوگئے البتہ پھر جب چند باہمت لوگوں نے دوبارہ فلم سازی کا آغاز کیا تو پھر ستم یہ ہوا کہ سینما میں داخلے کے ٹکٹ بہت مہنگے ہوچکے تھے گویا سات سے آٹھ سو روپے میں ایک ٹکٹ دستیاب ہے جوکہ گرانی کے اس دور میں خاصا مہنگا ہے۔
اسی باعث عام آدمی سینما میں جاکر اپنا فلم بینی کا شوق پورا کرنے سے مکمل طور پر قاصر ہے، یوں کہا جاسکتا ہے کہ ان حالات میں فلم انڈسٹری کا دوبارہ سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ناممکن ہے۔ بہرکیف فلم کے ساتھ ساتھ ایک اور تفریح کا اہم ترین ذریعہ ہے اور وہ ریڈیو ہے۔ ریڈیو کی افادیت سے بھلا کسے انکار ہو سکتا ہے۔ ریڈیوکی خوبی یہ ہے کہ ریڈیو سنتے ہوئے آپ اپنے تمام دیگر امور بھی احسن طریقے سے نمٹا سکتے ہیں۔
بالخصوص جوکہ دستکار ہیں وہ سامعین اپنے کام کے دوران بھی ریڈیو کی نشریات سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں، پھر اگر کوئی دکاندار اپنے کاروبار میں مصروف ہو تو وہ ریڈیو کی نشریات بھی سن سکتا ہے اور اس کا یہ عمل اس کی کاروباری سرگرمیوں میں رکاوٹ کا باعث نہیں بنتا۔ ذکر اگر ابتدائی زمانے کا کیا جائے تو یعنی قیام پاکستان کے بعد کا تو کیفیت یہ تھی کہ بڑے بڑے نامور ترین براڈ کاسٹ ریڈیو سے وابستہ تھے جن میں مصطفیٰ علی ہمدانی جنھوں نے 14 اگست 1947 کو آزادی کی شب یہ اعلان کیا تھا کہ یہ ریڈیو پاکستان ہے ان کا یہ اعلان کرنا گویا تاریخ کا حصہ بن گیا، پھر اسی دور میں ذوالفقار علی بخاری کا نام بھی سامنے آتا ہے، ان صاحب کا اردو زبان کے لیے یہ کارنامہ ہے کہ وہ تلفظ کے معاملے میں بہت سخت تھے اور گفتگو کے دوران تلفظ کی غلطی معاف نہیں کرتے تھے۔
ان کے سامنے اگر دو افراد تلخ کلامی میں بھی تلفظ کی غلطی کرتے تو اس پر وہ ٹوکتے، البتہ ان کے تلفظ کے معاملے میں سخت رویے کے باعث یہ ضرور ہوا کہ ریڈیو سے ٹھیک تلفظ کے ساتھ گفتگو سامعین کو حاصل ہوتی چلی گئی۔ بعدازاں جب صداکار ریڈیو سے وابستہ ہوتے چلے گئے تو ان کے اردو بولنے کے انداز و تلفظ کی مثال دی جاتی تھی ان صداکاروں میں ایک نام محمد علی کا بھی ہے، جنھوں نے فلموں میں بھی اداکاری کی اور لیجنڈ فنکار ثابت ہوئے۔ اس کالم میں ہم تذکرہ کریں گے ظہیر عالم کا۔ یہ صاحب 1964 سے ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہیں اور اس وقت ان کی عمر عزیز تھی فقط آٹھ برس۔ ظہیر عالم کے بارے میں بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ صاحب پیدائشی صداکار تھے۔
14 اگست 1964 کو جنم لینے والے ظہیر عالم نے ریڈیو پروگرام بچوں کی دنیا سے صداکاری کا آغاز کیا۔ اردو، پنجابی و انگریزی زبانوں پر مکمل عبور رکھنے والے اور ان تینوں زبانوں میں ٹھیک تلفظ کے ساتھ گفتگو کرنے والے ظہیر عالم کی زبان کے معاملے میں حقیقی تربیت گاہ ریڈیو پاکستان ہے ان باصلاحیت صداکار نے فقط 13 برس کی عمر میں یعنی 1969 میں اناؤنسمنٹ کا آغاز کیا۔ وہ اس اعتبار سے خوش قسمت رہے کہ انھیں محمد نقی، عبیدہ انصاری، قاضی واجد، معین اختر، صادق الاسلام، حسن کاظمی، ارشاد حسین کاظمی، طلعت حسین، سیدہ ناز کاظمی، عرش منیر و دیگر سیکڑوں لیجنڈ صدا کاروں کا ساتھ نصیب ہوا۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ریڈیو کے صداکاروں کا معاوضہ اس قدر قلیل ہوتا ہے کہ یہ صداکار اس حاصل ہونے والے معاضے سے گھرچلانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
اسی باعث یہ صداکار دیگر ذرایع سے چھوٹی بڑی ملازمتیں اختیارکرکے اپنا گھر چلانے کے اسباب تلاش کرتے ہیں، البتہ ظہیر عالم خوش قسمت رہے کہ انھیں محکمہ انفارمیشن میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کا موقع مل گیا جہاں وہ احسن طریقے سے اپنی خدمات انجام دیتے رہے اور کوئی چار برس قبل یعنی 2016 میں ریٹائرڈ ہوئے۔ اس کے علاوہ وہ دو نجی ٹیلی ویژن چینلز پر بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرچکے ہیں، آج بھی 64 سالہ اپنی حیات کی بہاریں دیکھنے کے باوجود ریڈیو پاکستان کراچی سے منسلک ہیں جہاں وہ مختلف شعبوں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں جن میں ڈیوٹی آفیسر کے علاوہ ریڈیو پر اناؤنسمنٹ کرنا پورے دن میں نشر ہونے والے پروگراموں کا خلاصہ پیش کرنا، کسی بھی میزبان کی غیر حاضری پر میزبانی کے فرائض بھی بحسن و خوبی نبھانا ان کے فرائض میں شامل ہے۔
ہمارے خیال میں ان کا شمار ہم ان لوگوں میں کرسکتے ہیں جنھیں ریڈیو سے وابستہ رہنے کا شوق نہیں بلکہ جنون ہے، البتہ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان کو اگر ایک اور زندگی بھی مل جائے تو وہ ریڈیو پر ہی اپنی خدمات انجام دینے کو ترجیح دیں گے ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر کوئی نیا گلوکار، اداکار وکرکٹر اپنے شعبے میں فقط ایک نغمہ گا لے اچھی اداکاری کرلے یا 40 یا 50 رن اسکور کرلے تو چاروں جانب اس کی شہرت کے چرچے ہوجاتے ہیں اور مختلف ادارے حکومتی اداروں سمیت ان کی سرپرستی کے لیے آگے آجاتے ہیں مگر ریڈیو صداکار جن کے سامعین ان کو اتنا پیار دیتے ہیں کہ گویا وہ ان کے خاندان کے ایک فرد کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں ان جیسے صداکار جنھوں نے ریڈیو کو 56 برس دے دیے پھر کسی ستائش کسی ایوارڈ سے محروم ہیں۔