Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Agha Talish, Aik Bara Adakar

Agha Talish, Aik Bara Adakar

یادش بخیر کوئی پچاس برس قبل پاکستانی فلم انڈسٹری کے عظیم ہدایت کار و مصنف ریاض شاہد مرحوم نے کہا تھا کہ ہماری فلم انڈسٹری میں ڈھائی اداکار ہیں اور وہ اداکار ہیں آغا طالش، علاؤالدین و محمد علی۔ اب یہ تو معلوم نہیں کہ ریاض شاہد نے یہ بات کس پیرائے وماحول میں کہی تھی۔

البتہ یہ بات ضرور ہے کہ ان کی بیان کردہ بات میں صداقت مخفی تھی البتہ اس سلسلے میں ریاض شاہد کی اس بات سے ضرور اختلاف کیا جاسکتا ہے کہ دو مکمل اداکار کون سے تھے اور آدھے اداکار کون تھے؟ البتہ ان تین اداکاروں میں جن کی عظمت کے ہم قائل ہیں آج کی نشست میں ہم ذکر کریں گے آغا طالش مرحوم کا۔ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق ایران سے تھا، البتہ ان کے خاندان نے 1899 میں ایران سے ہجرت کی اور متحدہ بھارت و متحدہ پنجاب کے شہر لدھیانہ میں سکونت اختیار کی۔

آغا طالش کے والد محکمہ پولیس میں چونکہ ملازمت کرتے تھے، تو ان کا مختلف شہروں میں تبادلہ ہوتا رہتا تھا مگر یہ ضرور ہے کہ آغا طالش کی پیدائش 1924 میں لدھیانہ میں ہوئی وہ ابھی کم سن تھے کہ ان کے والد کا تبادلہ متھرا میں ہوگیا۔ متھرا میں ہی آغا طالش نے اپنی حصول تعلیم کے سلسلے کا آغاز کیا اور متھرا میں ہی اپنی تعلیم مکمل کی۔ ان کے بارے میں بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ انھیں بچپن سے اداکاری کا شوق نہیں بلکہ جنون تھا یہی باعث تھا کہ انھوں نے بچپن میں ہی بطور چائلڈ اسٹار اسٹیج ڈراموں میں اداکاری کا آغاز کردیا، مگر 1944 میں جب ان کی عمر عزیز 20 برس تھی، ان کے والد کا انتقال ہوگیا، والد کی وفات کا صدمہ بھی ان کی اداکاری کے جنون میں کمی نہ لاسکا اور اسی برس وہ اپنے فلمی شوق میں بمبئی روانہ ہوگئے۔

اس وقت بھارت میں فلم سازی کے تین مراکز تھے لاہور بمبئی وکلکتہ۔ تمام ترکوششوں کے باوجود وہ فلموں میں اداکاری توکیا کرتے انھیں کوئی فلمی اسٹوڈیو میں داخل ہونے کی اجازت بھی نہ دیتا۔ البتہ ان کی جمع پونجی ختم ہو گئی تو انھوں نے نیشنل فلم اسٹوڈیو میں کسی دفتر میں ملازمت اختیارکر لی، یوں وہ اسٹوڈیو میں داخل ہوگئے گوکہ اس سے قبل وہ اسٹوڈیوکے گیٹ پر کھڑے رہتے کہ شاید اسٹوڈیو میں داخل ہونے کی اجازت مل جائے۔

اسی ملازمت کے دوران ان کی ملاقات ممتاز ترقی پسند انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی سے ہوگئی جوکہ اکثر نیشنل فلم اسٹوڈیو آتے رہتے تھے، البتہ جب آغا طالش نے ساحر لدھیانوی سے اپنے اس شوق کا اظہار کیا کہ انھیں فلموں میں اداکاری کرنے کا بے حد شوق ہے تو ساحر لدھیانوی صاحب نے آغا طالش کو نامور ادیب کرشن چندر سے ملوایا، کرشن چندر ان دنوں فلم سرائے کے باہر بنا رہے تھے۔

بطور ہدایت کار و مصنف چنانچہ کرشن چندر نے ان کو فلم سرائے میں کاسٹ کرلیا۔ یہ کوئی زیادہ کامیابی حاصل نہ کر پائی نتیجہ آغا طالش کو بمبئی میں مزید کوئی فلم نہ مل پائی۔ تین برس تک طویل قیام کے بعد آغا طالش پشاورآگئے اور ریڈیو پشاور سے منسلک ہوگئے۔ بعدازاں وہ ریڈیو آزاد کشمیر سے وابستہ ہوگئے مگر ان کے اندر کا فنکار انھیں بے چین کیے ہوئے تھا چنانچہ ایک نئے عزم کے ساتھ وہ دوبارہ فلم نگر میں داخل ہوئے مگر ان کا رخ بمبئی نہیں لاہور تھا۔ قیام پاکستان کا قیام عمل میں آچکا تھا پاکستان فلم انڈسٹری اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے کی کوشش میں تھی گویا فلم انڈسٹری کی تعمیر کا دشوار گزار مرحلہ درپیش تھا۔

آغا طالش بھی فلم انڈسٹری کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے کمربستہ ہوگئے اور پنجابی فلم نتھ میں جلوہ گر ہوئے۔ 1951 میں جب کہ اولین اردو فلم جھیل کنارے قرار پائی۔ 1953 میں پھر تین سال مکمل خاموشی البتہ 1956 میں ان کی چھ فلمیں پردہ سیمیں کی زینت بنیں جن میں دربار حبیب میں یاسمین کے مدمقابل ہیرو کا کردار کیا۔ پنجابی فلم جبرو میں مزاحیہ کردار تھا۔ باغی میں پولیس مین تھے جب کہ 1957 میں سات لاکھ میں کردار نگاری کی اور خوب کی۔ اس فلم میں وہ مے نوش کے کردار میں سامنے آئے اور خوب رہے۔ اس فلم میں ان پر ایک نغمہ بھی فلمایا گیا جس کے بول تھے " یارو! مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں۔" فلم سات لاکھ نے انھیں بام عروج پر پہنچا دیا۔

آغا طالش کی حقیقی شہرت کا آغاز فلم شہید سے ہوا جوکہ ریاض شاہد و خلیل قیصر کی مشترکہ پیشکش تھی اس فلم میں وہ ایک یہودی میجرکے کردار میں پیش ہوئے اور ایسے ہوئے کہ اس قسم کے کردار ان کے لیے مخصوص ہوگئے۔ بعدازاں شہید کے بعد فلم فرنگی، عجب خان، آفریدی، زرقا وغیرہ میں اسی کردار میں جلوہ گر ہوئے بلکہ آغا طالش کی یہ خوبی تھی کہ جس کردار میں آتے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیتے، چنانچہ فلم کنیز میں ایک مغرور نواب کے کردار میں نظر آئے تو سب فلمی ناقدین کا ایک ہی خیال تھا کہ ان سے بہتر کیا ان جیسا کردار کرنے والا کوئی دوسرا نہیں ہے۔

کنیز کے بعد انھوں نے امراؤ جان ادا، دیدار، ثریا بھولی، پنجاب فلم تیرے عشق نچایا میں نواب کا کردار بڑی خوبی سے ادا کیا جب کہ ملنگی، عشق نچاوے گلی گلی، وڈیرا فلموں میں جاگیردار، باغی، الارم، ماں پتر، اور شاہین میں پولیس مین کا کردار، پیداگیر میں گلے میں ڈبہ ڈال کر پان فروش کا کردار، نیندو ڈائریکٹ حوالدار میں اندھے کا کردار، ایک دھی، پنجاب میں وفادار ملازم کا کردار، بانکی نار میں سکھ کا کردار، یہ امن میں نیک فطرت ہندو کا کردار، ماما جی میں پہلے ڈاکو پھر شفیق ماما کا کردار، دھی رانی میں مجبور باپ کا کردار، بڑے میاں دیوانے میں عاشق مزاج بڈھے کا کردار، سچائی میں فراڈیے کا کردار گویا انھوں نے جو بھی کردار کیا خوب کیا۔

وہ فلم کے جس منظر میں آتے دیگر تمام کرداروں پر چھا جاتے چنانچہ اس حقیقت کا اعتراف لیجنڈ اداکار محمد علی نے ایک ٹیلی ویژن کے پروگرام کے دوران ایک سوال کے جواب میں کیا کہ "مشکل کام ہے آغا طالش کے سامنے اداکاری کرنا"۔ طالش نے پی ٹی وی کے چند ڈراموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں ضرورت، زندگی، قرب وغیرہ کا خصوصیت سے تذکرہ کیا جاسکتا ہے ان کا بیٹا احسن آغا طالش پی ٹی وی ڈراموں کا نامور ہدایت کار ہے۔

لگ بھگ پچاس برس تک فلم نگر پر حکومت کرنے والے آغا طالش نے 19 فروری 1998 کو وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر 74 برس تھی۔ انھوں نے 510 فلموں میں اداکاری کی جن میں 310 اردو، 165 پنجابی، 7 پشتو، 28 ڈبل ورژن فلمیں تھیں۔ بہرکیف آج فلم انڈسٹری کی حیثیت یہ ہے کہ سال بھر چند ایک فلمیں بن رہی ہیں گویا عام آدمی تفریح سے مکمل محروم ہے، چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فلمی صنعت کی مکمل سرپرستی کرے نئے و جدید سینما گھر تعمیر کیے جائیں چند برس تک فلم انڈسٹری کو تمام قسم کے ٹیکسز سے استثنیٰ قرار دیا جائے۔ سینما ٹکٹوں کی قیمت میں نمایاں ترین کمی کی جائے، نئے فنکاروں کی حوصلہ افزائی کی جائے اگر ایسا ہو تو قوی امید ہے کہ فلم انڈسٹری پھر سے کامیابی کی جانب رواں دواں ہو سکے گی۔