وطن عزیز میں ان دنوں بہت رونقیں لگی ہوئی ہیں خاصوصاً اسمبلیوں میں عوام کے منتخب نمایندے جو دھماچوکڑی مچائے ہوئے ہیں، اسے دیکھ کر عوام حیران اور پریشان ہیں کہ انھوں نے کن لوگوں کو ووٹ دے اقتدار کے ایوانوں میں بھیج دیا ہے۔
ماضی میں بھی ہمارے منتخب نمایندے ایک دوسرے کی کردار کشی کے لیے یہی کچھ کرتے رہے ہیں لیکن اس بار عوام نے نئے پاکستان اور تبدیلی کے خوش کن نعرے پر نئے حکمران منتخب کیے تھے، اس لیے ان کی پریشانی بجا ہے کہ تبدیلی کا یہ سفر خوش کن تجربہ نہیں رہا۔ ملک کے طول وعرض میں اس پر تبصرے جاری ہیں۔ الزامات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، مجھے لگتا ہے کہ یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک جمہوریت سے انتقام نہیں لے لیا جاتا۔
اس دھماچوکڑی میں حکومتی وزراء نت نئے بیانات داغ کر عوام کا دل جلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہوشربا مہنگائی کو مصنوعی مہنگائی کہہ کر عوام کے دلوں پر الفاظ کے نشتر چلانا اور ان کے زخموں پر نمک چھڑکنا کوئی ان سے سیکھے جو یہ کہتے ہیں اپوزیشن مصنوعی مہنگائی کے نام پر ان کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتی ہے حالانکہ ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہے، ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں جن سے عوام مستفید ہو رہے ہیں۔
خیبر پختونخواہ کے سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے نئی منطق نکالی ہے، قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ملک میں کوئی غربت نہیں ہے، یہ اپوزیشن کا ڈرامہ ہے، مہنگائی ہو گی تو ملک ترقی کرے گا۔ انھوں نے کمال ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ ان کے حلقہ انتخاب میں کوئی غریب نہیں ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ انھوں نے اپوزیشن لیڈرکو مناظرے کا چیلنج بھی دیا ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ وزیر موصوف کا مخاطب اسی ملک کے عوام ہیں یا جاپان اور ناروے وغیرہ کے عوام۔ پاکستان کے عوام تو مہنگائی سے پس رہے ہیں، خودکشیاں کی جارہی ہیں۔ وزیر موصوف ملک کی خوشحالی کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے الٹا سوال کرتے ہیں کہ لوگوں کے پاس گاڑیاں ہیں، اچھا رہن سہن ہے، اپوزیشن بتائے کہ غربت کہاں ہے؟
اس دل جلانے والے بیان پر حکومتی ارکان بھی قہقہے لگانے پر مجبور ہو گئے۔ کاش یہ سوال وہ عوام کے کسی ہجوم میں پوچھ لیتے توان کو آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جاتا۔ انھوں نے ملک کی افسانوی خوشحالی کی ایک دلچسپ تصویر کھینچی ہے اور جس تیر بہدف نسخے کا پر جوش انداز میں ذکر کیاہے کہ مہنگائی کی وجہ سے ملک اور کارخانے چلیں گے، اس پر میر کا ایک شعر یاد آرہا ہے کہ
سودائے عشق اور، وحشت کی حقیقت اور
مجنوں کا کوئی دوست افسانہ نویس تھا
وزیر اعظم بھی اکثرخوشحالی کا ذکر کرتے ہیں اورصبر کے مشورے دیتے رہتے ہیں لیکن اب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے کیونکہ جس سرمایہ دارانہ نظام میں ہم زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں، یہ نظام کسی سرمایہ دار کے لیے تو خوشحالی کا سبب بنتا ہے لیکن عوام کو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتااور ان سرمایہ داروں کی زبردست قسم کی دولت مندی میں سے کچھ زمین پر گرا پڑا ہی ملتا ہے لیکن معلوم رہے کہ دولت مند لوگ اپنی جیب میں سے کچھ بھی گرنے نہیں دیتے۔
ایسے فیاض دولت مند اب نہیں ہوا کرتے کہ اپنی دولت میں سے کچھ غریبوں کو بھی دے دیا کریں۔ غریبوں کو تو فیاض لوگوں کے جام سے اگر کچھ چھلک بھی جائے تو اس کے چند قطرے بھی نصیب نہیں ہوتے کہ ایسے فیاض لوگ کے اردگرد جمع حواری وہ چند قطرے بھی اپنے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں اگر کسی کے پاس دولت زیادہ ہو جائے تو وہ فوراً بیرون ملک منتقل ہو جاتی ہے۔ ان دنوں ہم ایسے ہی کیس سن اور دیکھ رہے ہیں اور بیرون ملک دولت منتقل کرنے والے دولت کی فروانی کا عذاب بھگت رہے ہیں۔
جناب وزیر اعظم سے گزارش ہے کہ وہ اپنے وزیروں باتدبیروں کو عوام کے سینے پر مونگ دلنے سے منع کریں اور اپنی معاشی پالیسیوں کو عوام دوست بنائیں۔ حقائق کو تسلیم کریں وہ خود بھی وقتاً فوقتاً بغیر پروٹوکول کے اسلام آباد کے ریڑھی بازاروں کے دورے کرتے رہتے ہیں، ان کو یقینا اس بات کاا دراک ہے کہ روز مرہ استعمال کی اشیاء کس بھائو بک رہی ہیں، اسی لیے تو وہ مہنگائی ختم کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔
عوام اپنی محرومیوں اور آرزو کی تکمیل کے لیے آپ کو اقتدار میں لائے ہیں، خدارا ان کی محبتوں کا مذاق نہ اڑائیں۔ غریبوں کو صرف بڑے لوگوں کی دولت مندی دکھا کر ہی خوش نہ کریں کہ ذراسا صبر ابھی کچھ نیچے گرے گا تو آپ کو بھی کچھ مل جائے گا، یہ تو اونٹ کے لٹکتے ہوئے ہونٹ والی بات ہے کہ بندر اس کے انتظار میں بے ہوش ہو جاتا ہے۔