امریکہ کے سیکریٹری آف سٹیٹ ہنری کسینجر نے اپنی کتاب "World Order" میں کہا تھاکہ اشیاء میں باہم اتحاد مبہم ہو تا ہے جس کا اظہار متضاد قوتوں کے درمیان توازن ہی سے ممکن ہے۔ ہمارے عہد کا ہدف بھی اسی توازن کا حصول ہونا چاہیے۔ اور ہمیں یہ ہدف تاریخ کے تیزی سے بہتے دھارے میں کرنا ہوگا۔
ہنری کسینجر کا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں تقسیم ہونے کے بجائے ایک نئی ثقافت کی طرف اکٹھا ہونا ہوگا تاکہ مقامی اور بین الاقوامی سطح پر امن حاصل کیا جا سکے۔ کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں ایک بحث چھڑی تھی جس کے پس منظر میں دو واقعات تھے۔ ایک واقعہ کا تعلق ترکی میں آئیا صوفیہ عجائب گھر سے تھا جسے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اور دوسرے کا تعلق مندر سے ہے جسے پاکستان کے ایک چھوٹے سے گائوں سوہاوہ میں تعمیر کرنا تھا مگر جس کے لیے پیسوں کا انتظام ایک معمہ بن گیا۔ ان دونوں واقعات کو اس دوسری ثقافت کے اجراء کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
آئیا صوفیہ سے متعلق بھی مختلف آراء سامنے آئیں۔ کچھ نے اسے سراہا اور اسلام کی بقا کی طرف پیش قدمی سے تعبیر کیا، بعض کا کہنا تھا کہ ترکی کو ایسے اقدم سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ آئیا صوفیہ پہلے چرچ کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا، بعد میں اسے مسجد میں بدل دیا گیا۔ اتا ترک جب اقتدار میں آیا تو اس نے 1934 کے ایک حکم نامے سے اس تاریخی عمارت کو عجائب گھر میں تبدیل کر دیا۔ اس تمام عرصے یہ عمارت سلطنت عثمانیہ اور کرسچن ارتھڈوکس کے درمیان تہذیبی تصادم کا باعث بنی رہی۔
کمال اتا ترک کی وفات کے بعد ترک ثقافت پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی۔ ایسے میں مغر بی تہذیب کے خلاف ایک مہم کا آغاز ہوا اور آئیا صوفیہ کی ہئیت میں تبدیلی کو شرمناک عمل سے تعبیر کیا گیا۔ نصیپ فاضل کیساکوریک جیسے شہراآفاق شاعر نے کہا کہ آئیاصوفیہ کو عجائب گھر میں تبدیل کرنا ترکوں کی روح کو اس عمارت میں مقید کرنے کے مترادف ہے۔ ایک اور مشہور ترک لکھاری نیہال اتسیز ک نے اس تبدیلی کو ترکوں کے لیے باعث شرم کہا۔ دوسری طرف ناظم حکمت جیسے بڑے شاعر نے آئیاصوفیہ پرقابل فخر اشعارکہے۔
جب ترکی کے صدر نے آئیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تو اس نے ان تمام شعراء کا ذکر کیا۔ کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ تبدیلی کے اس اقدام کو صرف اسلام کے تناظر ہی میں نہیں بلکہ ترکی کی ثقافت کے اہم جزو کے طور پر بھی سمجھا جائے۔ آئیاصوفیہ میں پہلی نماز 24جولائی کو ادا کی گئی۔ تاریخ کا انتخاب بھی اتفاقیہ نہیں تھا۔ کئی دہائیاں پہلے اسی دن لویسین نامی معاہدہ ترکی اور الحاقی قوتوں کے درمیان عمل میں آیا تھا۔ پہلی نماز کو یاد گار بنانے کے لیے اسے دنیا بھر میں بڑی بڑی سکرینز لگا کر نشر کیا گیا جس کا مقصد مغربی دینا کو دکھانا تھا کہ اب ترکی ان کی گرفت سے باہر نکل چکا ہے اور اپنی علیحدہ شناخت رکھتا ہے۔
ترکی کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ترکی اپنی ثقافت کے معاملے میں بہت حساس ہے۔ ہامی اکسوئی، ترجمان وزیر خارجہ، کا ماننا ہے کہ آئیا صوفیہ اپنی آغوش میں سب کو سما تے ہوئے اپنی الگ شناخت قائم رکھے گا۔ اسی لیے نماز کے اوقات میں یہ مسجد اور باقی وقت اسے شہریوں کے لیے عجائب گھر کے طور پر کھول دیا جاتا ہے۔
کیا ترکی ہنری کسینجر کے مطابق متوازی ثقافت کا حامی ہے؟ اب ہم آتے ہیں دوسرے واقعہ کی طرف جس کا تعلق پاکستان میں سہاواکے مقام پر مندر بنانے سے ہے۔ اس عمارت کے لیے زمین نواز شریف کے دور حکومت میں دی گئی تھی اور اب اسکی تعمیر کے لیے پیسے پی ٹی آئی کی حکومت نے دینے تھے۔ مسئلہ کھڑا ہوا کہ کیا ایک اسلامی ریاست مندر بنانے کے لیے پیسے فراہم کرسکتی ہے یا نہیں۔ اس مسئلے کو اسلامی نظریاتی کونسل بھیج دیا گیا ہے۔ اس واقعہ کا ذکرنے کا میرا مقصد نہ تو یہ بتانا ہے کہ آیا شریعت ہمیں ہندووں کے لیے مندر بنانے کی اجازت دیتی ہے یا نہیں، نہ ہی میں اس قسم کی گفتگو میں مہارت رکھتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اس معاملے کا حل بھی دیر آئے درست آئے والا ہو گا۔
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان کسی جنگ یا قابض فوج کی مشق سے وجود میں نہیں آیا، یہ تو تین فریقوں کے درمیان معاہدے سے بنایا گیا ملک ہے جس میں برطانوی حکومت، آل انڈیا کانگرس اور آل انڈیا مسلم لیگ شامل تھیں۔ پنجاب کی تقسیم صرف ایک ووٹ سے کھٹائی میں پڑ گئی۔ اسی طرح ہمیں ایک اور اہم معاہدے کو یاد کرنے کی ضرورت ہے جو نہرو اور لیاقت علی خان کے مابین پیش آیا جسے لیاقت نہرو معاہدہ یا دہلی معاہدہ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کا مقصد مذہبی بنیادوں پر امن قائم کرنا، اقلیتوں میں ان کے حقوق سے متعلق ابہام دور کرنا اور دونوں ملکوں کے درمیان باہمی روابط کا رشتہ قائم کرنا تھا۔
میرے ذہن میں تو بس ایک ہی سوال گونج رہا ہے کہ کیا کبھی ہم بھی اس متوازی ثقافت کو اپناکر ملک میں باہمی محبت اور توازن کی فضا پیدا کر پائیں گے۔ جہاں سب کے ساتھ کھلے دل کا مظاہرہ کرنا ممکن ہو۔ ایسا صرف تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب ہم اپنی تہذیب پر فخر کرنے کے ساتھ ساتھ دوسری ثقافتوں اور سیاسی نظریات کو تسلیم کریں۔