بھارت کا کشمیر پر غیرقانونی قبضہ الحاق سے مشروط ہے، جو بذات خود قابل اعتراض مسودے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان نے ہمیشہ حقِ خودارادیت کی بات کی ہے۔ پاکستانی موقف کی تائید نہرو نے خود بھارتی پارلیمنٹ اور سلامتی کونسل میں کی۔ بھارت کا مقدمہ کشمیر زمین کے ٹکڑے کی ملکیت پر منحصر ہے جبکہ پاکستان قانون اور انسانی حقوق کے اصولوں پر اس مقدمے کا حل چاہتا ہے۔ یہ جنگ انسانی حقوق اور زمینی قبضے کے درمیان ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آخر کار جیت اصول ہی کی ہوتی ہے۔
جبر سے لوگوں کو طویل عرصے تک دبایا نہیں جا سکتا۔ فرانس کو آزادی بغاوت کے ذریعے ملی۔ انہیں کوئی روک نہ سکا۔ روسیوں نے سرمایہ داری کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور زاروں کو مار بھگایا۔ جنوبی افریقہ نے نسلی امتیازکے خلاف کامیاب جنگ لڑی۔ اسی طرح امریکہ نے برطانیہ کے خلاف جنگ جیت کر آبادی حاصل کی۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ نہ صرف پاکستان مسلم لیگ بلکہ آل انڈیا کانگرنس کی ساری جدوجہد حق خودارادیت کے اصولوں پر مرتکز تھی۔ پاکستان اور ہندوستان کی علیحدگی بھی عوامی خواہشات کے مطابق کی گئی تھی۔
بھارت کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح سلامتی کونسل کی قراردادوں کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ 1955ء میں نہرو اور پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد کے درمیان بات چیت ہوئی تاکہ مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کیا جائے۔ نتیجہ صفر۔ جبکہ اس مسئلہ کشمیر کا حل نہرو کے ایک خفیہ نوٹ سے ضرور ملتا ہے جن میں وہ کہتے ہیں، ہمارے قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ ہماری پاکستان پالیسی پرامن ہو۔ اسی طریقے سے ممکن ہے کہ ہم اپنے آپ کو مضبوط کرسکیں کیونکہ طاقت کا حصول عسکری دفاع ہی سے ممکن ہوتا ہے جبکہ معاشی او رصنعتی طور پر مضبوط ہونے کی بھی ضرورت ہے۔ ہم جیسے جیسے مضبوط اور طاقتور ہوتے جائیں گے، پاکستان کے ہراساں کرنے کی وجہ بھی کم ہو گی اور یوں ایک وقت آئے گا جب ہم پاکستان کو مجبور کردیں گے کہ تنازع کشمیر کو ہمارے اصولوں کے مطابق حل کرے۔
پنڈت نہرو اور صدر ایوب کے درمیان 1960ء میں مری میں ہونے والی ملاقات بھی نتیجہ خیز نہ ہو سکی۔ صدر ایوب کے مطابق نہرو مسئلہ کشمیر کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ جب بھی اس موضوع پر بات ہوتی نہرو کھڑکی سے منہ باہر نکال لیتے اور کہتے:مری کس قدر خوبصورت ہے۔
شملہ معاہدہ 1972ء کے وقت تک پاکستان دو لخت ہو چکا تھا اور پاکستان کے 80000 جنگی قیدی بھارت کی تحویل میں تھے۔ لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا معاہدہ ہوا۔ سب جانتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ مسئلہ کشمیر کا حل اب بھارت اور پاکستان کے درمیان حل نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے کشمیریوں کو مداخلت کرنا ہوگی۔
بھارت کی بھرپور کوشش کے باوجود سلامتی کونسل کی قراردادیں اب بھی زندہ ہیں۔ آگرہ ڈکلیریشن شاید پاکستان اور بھارت کے مابین آخری کوشش تھی، جب کشمیر سے متعلق حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی، سابق صدرجنرل پرویزمشرف کے مطابق معاہدہ طے پانے والا تھا، بھارت نے آخری وقت ارادہ بدل لیا۔ بعد میں ایل کے ایڈوانی نے خود ماناکہ اس نے آگرہ معاہدے کے خلاف تخریب کاری کی تھی۔
آج کشمیر کی تحریک عوامی تحریک میں بدل چکی ہے۔ پاکستانی حکومت اور عوام کو یقین ہے آزادی کشمیر کی یہ عوامی تحریک بھارت کی قابض فوج کے مقابلے میں فتح یاب ہوگی۔ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھارت کے کفن میں آخری کیل ثابت ہوگی۔ کشمیر میں شاید ہی کوئی گھر بچا ہو جہاں ان کے پیاروں پر ظلم و ستم یا ان کا قتل نہ ہوا ہو۔ بھارتی فوج کی مظاہرین کے خلاف تشدد کی داستان بھی طویل اور دردناک ہے۔
جھوٹے پولیس مقابلوں میں لوگوں کو مروایا جاتا ہے۔ حراست میں لوگوں کی اموات معمول ہیں۔ پیلٹ گن سے متعدد کشمیریوں کو اندھا کیا جا چکا ہے۔ جبری اغوا آئے دن کی بات ہے اور خواتین کی عصمت دری ایک مسلسل عذاب ہے، جس سے کشمیری خواتین ہر وقت خائف رہنے لگی ہیں۔
5 اگست 2019ء سے اب تک کشمیر میں کرفیو نافذ ہے۔ شاید جرمنی کے باشندوں نے بھی نازیوں کے ہاتھوں ایسا ظلم نہ سہا ہوگا۔ اس وقت کشمیر میں دنیا کی سب سے بڑی قابض فوج موجود ہے۔ حکومت کی ہدایت کے مطابق کسی بھی سیاستدان یا پولیس آفیسر کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا جاسکتا۔ Armed forces act 1990 کی شق 7کے مطابق قابض بھارتی فوج کے پاس لامحدود اختیارات ہیں جس میں کسی کو مارنا اور املاک کو تباہ کرنا بھی شامل ہے۔ کشمیر میں بھارتی فوج کو حکومتی تحفظ حاصل ہے اورانہیں کوئی بھی مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتا۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے اور کشمیر کو جبراً بھارت کا حصہ بنانے کی مذموم کوشش نے مودی سرکار کی ہندو توا پالیسی کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ اقوام عالم کی مجرمانہ خاموشی نے اس صورت حال کو مزید خراب کردیا ہے۔ نتیجہ کے طور پر بھارت نے کشمیر میں قانون اور انصاف کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ کشمیر میں جاری عوامی تحریک کو روکنا اب مشکل ہوگا۔ میرا یہ تجزیہ بھارت کی مسلم دشمنی اور کشمیریوں کی نسل کشی کی مذموم کوشش سے اخذ کردہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف نفرت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ لوگ نیند میں بھی آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں۔ یہ آگ اب بجھائی نہیں جا سکتی۔ امریکی اقوام کو بھی ویتنام سے نکلنا پڑا تھا۔ لوگوں کی خود ارادیت کو کچلنا آسان نہیں۔ بھارت کے ساتھ بھی یہ ہی معاملہ ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان اور ان کے دفتر خارجہ کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے اقوام متحدہ کی کشمیر کے مطابق قراردادوں کو دوبارہ زندہ کردیا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بنیاد پر بھارت کی کشمیر پر قانونی گرفت کمزور پڑ گئی ہے۔ ٹرمپ، مہاتیر، اردوان اور چین کے وزیر خارجہ نے کھل کر اقوام متحدہ کی کشمیر پر قراردادوں کو نافذ کرنے کی حمایت کی ہے۔
ہندوستانی افواج کو بالآخر کشمیر سے بھاگنا ہوگا جیساکہ مہاراجہ کو 1947ء میں بھاگنا پڑا تھا اور پھر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر بین الاقوامی اتحاد کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کو حل کیا جائے گا۔