سینما کی طلسماتی دنیا انسان کی حقیقت پسندی کی جبلت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ارطغرل ڈرامے کے کرداروں کومغربی لبا س میں دیکھا تو پاکستانی عوام تلملا اٹھی۔ کیونکہ وہ ان کرداروں کو سر تا پا کپڑوں میں ملبوس دیکھنے کے عادی تھے اور مانوس بھی۔ اسی طرح ہالی ووڈ نے امریکہ سے مطلق ایک خیالی دنیا بنا رکھی ہے جس کے مطابق امریکہ کا ہر شہری نہ صرف برائی کے خاتمے کے لیے ہر وقت مستعد نظر آتا ہے بلکہ وہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کرداروں سے بھی با آسانی نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کرونا سے امریکہ کا صدربوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہے۔ امریکہ کے بعد انڈیا دوسرا ملک ہے جس نے سینما کو اپنے فائدے کے لیے بہترین طور پر استعمال کیا۔ فلموں میں دکھا ئے جانے والے ہندوستان کا حقیقی ہندوستان سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس کی آدھی آبادی غربت کی لیکر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔
پاکستان میں سینما کی تاریخ بٹوارے سے جڑی ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے ممبٔی اور لاہور کو سینما کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ ممبٔی میں فلمی صنعت بہت بڑے پیمانے پر موجود تھی، جبکہ لاہور میں محدود وسائل سے فلمیں بنائی جاتی تھیں۔ لاہور کے تاریخی سینما گھروں میں ریگل اور پلا زہ سینما آ ٓج بھی یا د کیے جاتے ہیں۔ کراچی کا نشاط سینما بھی تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ بٹوارے کے بعد سید شوکت حسین رضوی نے اپنی بیگم میڈم نور جہاں کے ہمراہ لاہور میں شاہ نور سٹوڈیو کی بنیاد رکھی۔ اس سٹوڈیو سے لازوال فلمیں بنائی گئیں۔ فنکاروں کے علاوہ فلمی صنعت سے ہزاروں لوگوں کا روزگار جڑا ہوا تھا۔ فلم کے لیے اشتہاری بورڈ بنانے سے لیکر کیمرہ مین اور سب سے بڑھ کر حکومت کو ٹیکس کی مد میں اچھی آمدنی ہوتی تھی۔ ایوب خان کے دور میں فلمی صنعت نے بہت ترقی کی۔ بہت سے نامور ہیرو اور ہیروئنیں منظر عام پر آئیں جواپنی بہترین فنکاری اور انسان دوستی کی بنا پر بین الاقوامی دنیا میں پاکستان کے سفیر مانے گئے نور جہاں نے بھی ابتدائی شہرت فلموں سے حاصل کی۔ ان کے 1965 اور1971 کی جنگوں میں گائے گئے ترانے آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔
فلمی دنیا کا پاکستان میں زوال ضیاالحق کے دور حکمرانی سے جڑا ہے۔ فلم بینی کو اسلامی اقدار اور پاکستانی ثقافت سے متصادم سمجھا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ تجربہ کار اداکاروں نے یا تو انڈسٹری کو خیر آباد کہہ دیا یا وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ اسی طرح سینما گھروں کی حالت بھی ابتر ہونے لگی۔ معیاری فلموں کی جگہ ایسی فلمیں بننے لگیں جن میں بیہودہ ناچ، مار دھاڑ کے علاوہ کچھ نہ ہوتاتھا۔ نتیجتاً لوگوں نے انڈین فلمیں دیکھنا شروع کر دی اور وی سی آر گھر گھر پہنچ گیا۔ شاید اسی تناظر میں سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے پاکستانیوں کے گھروں میں جا کر ان کی ثقافت پر حملہ کیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے میری ملاقات ندیم منڈویوالا سے ہوئی جسے میں پاکستانی سنیما کے احیاء کا بانی سمجھتا ہوں۔ ملاقات کے دوران اس نے کہا کہ وہ سینما گھر بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس وقت چونکہ پاکستان میں سینما کا تصور مکمل طور پر ختم ہو چکاتھاتومیں نے ان کے اس ارادے کی وجہ دریافت کی۔ انہوں نے کہا کہ میرا سپنا ہے کہ میں پاکستان میں فلمی صنعت کو دوبارہ پنپتا دیکھوں، جس کے لیے ضروری ہے کہ بڑے پیمانے پر سینما گھر بنائے جائیں۔ انہوں نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا کہ سینما گھر ایسا ہونا چاہیے جہاں لوگ نہ صرف اپنی فیملی کے ساتھ آسکیں، بلکہ وہاں انہیں راحت بھی محسوس بھی ہو۔ کچھ مہینوں بعد انہوں نے مجھے فلم جناح دیکھنے کی دعوت بھیجی جو کہ ایک انتہائی خوبصورت تجربہ تھا۔ کچھ عرصے بعد جب میری ان سے دوبارہ ملاقات ہوئیتو معلوم ہوا کہ انہوں نے پاکستان میں فلمیں نہ بننے کی وجہ سے آخر کار سینما بند کر دیا ہے۔ اس ایک لمحے میں مجھے ان کا سپنا ختم ہوتا دکھائی دیا۔ ایک مدت بعد انہوں نے ڈیفنس میں ایک سنیما گھر تعمیر کیا جہان انڈین فلمیں دکھانے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس کے پیچھے حکمت عملی یہ تھی کہ انڈین فلموں کی وجہ سے پاکستان میں معیاری اور منافع بخش فلمیں بنانے کی لگن پیدا ہوگی۔ یوں نئے سینما گھر تعمیر کیے جائیں گے اور پاکستانی فلمی صنعت چل پڑے گی۔
ہم نے دیکھا کہ پھر ایسا ہی ہوا۔ پاکستان میں معیاری فلمیں بننے لگیں۔ نئے اداکار اور نوجوان ہدایت کاروں نے جدید طرز کی فلموں کوناظرین تک پہنچایا۔ میں نے کچھ مخیرحضرات کے ساتھ مل کر گریجویٹ پروگرام ایوارڈ کا اجراء کیاتاکہ نئے ٹیلینٹ کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ سینما منافع میں جانے لگے لیکن پھر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی اسقدر بڑھ گئی کہ خود سنیما گھر کے مالکوں نے ہندوستانی فلمیں دکھانے پر پابندی لگا دی۔ یوں ایک بار پھر سینماس کی رونقیں مانند پڑ گئی۔ اس وقت تک گو پاکستانی فلموں نے اچھا بزنس کرنا شروع کر دیا تھا مگر تب کرونا آگیا جس سے پوری کی پوری صنعت ٹھپ ہو گئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی فلمی صنعت کو آگے بڑھنا چاہیے، مگر شومئی قسمت سے اسے آج بھی چلنے کے لیے ہندوستانی فلموں کی بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ فلم دیکھنے کا مقصد تفریح ہے تو کھیلوں کی طرح اسے بھی سیاست سے الگ رکھنا چاہیے۔ اگر ہم خاص ضابطہ اخلاق کے تحت انڈین فلمیں دوبارہ دکھانا شروع کر دیں تو میرے خیال میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس سے نہ صرف پاکستانی فلمی صنعت کو سہارا ملے گا بلکہ حکومت کو بھی مالی فائدہ پہنچے گا۔ کیونکہ بندش کے باوجود ہندوستانی فلمیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں اور پایرسی کی مد میں حکومت کو لاکھوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ اسی کے ساتھ ہمیں سنسر بورڈ کی بھی از سر نو تنظیم سازی کی بھی ضروت ہے۔ سنسربورڈ کا ہرگزیہ مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ لوگوں کو فلم بنانے کے عمل ہی سے بیزار کر دے۔ فلمی صنعت میں ترقی سے بین الاقوامی سطح پرپاکستان کا تصور بہتر ہوگا۔ پاکستان میں جو ٹیلینٹ ہے وہ ہر قسم کے مقابلے، چاہے انڈین سینما سے ہو یا ہالی وڈ یا انٹرنیٹ سے، کے لیے تیار ہے۔ اس سے نہ صرف لوگوں کو اچھی اور سستی تفریح میسر آئے گی بلکہ روزگار میں بھی اضافہ ہو گا۔
ساٹھ اور ستر کی دہائی ہماری فلمی صنعت کا عروج کا زمانہ تھا، اس زمانے میں ایسی کلاسیکل فلمیں بنائی گئیں، جنہوں نے نہ صرف بھارتی فلمی سرکٹ میں ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ شاندار بزنس بھی کیا، اس سے پاکستانی فلمسازوں میں حوصلہ پیدا ہوا جو پاکستانی فلمی ترقی کا باعث بنا، یہ ماحول آج بھی بنایا جا سکتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ سینما کلچر کو فروغ دیا جائے اور نئے سینما گھروں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ نئے فلمسازوں کو بھی چاہئے کہ وہ قومی جذبوں سے ہم آہنگ اور سوسائٹی کو درپیش مسائل اور ان کے حل پر مبنی اور تکنیکی لحاظ سے اعلیٰ معیار کی فلمیں تخلیق کریں تاکہ بین الاقوامی فلمی مارکیٹ کا مقابلہ کیا جا سکے۔