ستمبر 1985ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے تربیت مکمل کرنے کے بعد کوئٹہ میں میری پہلی تعیناتی ہوئی۔ میری یونٹ ان دنوں کوئٹہ سے باہر بلیلی گاؤں کے نواح میں سالانہ سرمائی مشقوں میں مصروف تھی۔ سارا دن ہم کھلے سنگلاخ پہاڑوں کے دور تک پھیلے کٹے پھٹے دامن میں تیز گرد آلود ہوا ئوں کے جھکڑوں میں گھرے تربیتی سرگرمیوں میں مصروف رہتے۔ ہمارا رہائشی کیمپ سیب کے باغوں میں گھرا ہوا تھا۔ میرا خیمہ سنہرے لال سیبوں سے لدے باغ کے عین کنارے پرکھڑا تھا۔
ہم نوجوان افسرشام گئے اکثر جناح روڈ پر مٹر گشت کرنے کے لئے نکلتے۔ شہر کی مرکزی شاہراہ اپنی اعلیٰ درجہ کی دکانوں، خوبصورتی اور صفائی ستھرائی کی وجہ سے جانی جاتی تھیں۔ جناح روڈ پرہی ایک معروف ٹیلر شاپ واقع تھی۔ وہیں سے میں نے اپنے پہلے Ceremonial Dresses بشمول میس کٹ(Mess Kit) بنوائے کہ جن کی قیمت اس وقت میری کئی ماہ کی تنخواہوں کے برابر تھی۔ جب میرا اردلی سلے ہوئے ڈریسز وصول کرنے گیا تو دکان کے مالک نے کسی معاوضے یا رسید کی طلبی کے بغیر صرف میرا نام اورپی اے نمبر پوچھ کر لباس اس کے حوالے کر دیا۔ جناح روڈ پرواقع اکثر معروف اور بڑی دکانوں اور فوجی افسروں کے مابین اعتماد کا ایسا ہی رشتہ تھا۔ لیاقت روڈ پر واقع مارکیٹیں ایرانی اشیاء سے لدی پھندی رہتیں، جہاں مقامی بالخصوص ہزارہ قبائل کے لوگ بڑی تعداد میں بلا خوف و خطر کاروبار کرتے۔ ہر دکان دار کو علم ہوتا کہ سٹاف کالج اور انفنٹری سکول میں کورسز کب شروع اور کب ختم ہو ں گے۔ اشیاء کی قیمتوں میں کمی بیشی اسی کے مطابق ہوتی۔ ان دنوں ٹارگٹ کلنگ ایک غیر مانوس لفظ تھا۔ کوئٹہ کی ٹریفک پولیس اپنے ڈسپلن، عمدہ طرزِ عمل، صاف ستھری وردی اور سفید اینکلٹس کیلئے جانی جاتی تھی۔ شورش زدہ سالوں میں اس فورس کی افرادی قوت کا ایک بڑاحصہ اپنی خاص شناخت کی بناء پر ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا تو فورس اپنی پہچان کھو بیٹھی۔
مجھے جنرل ضیاء الحق ان دنوں میں بھی خاص پسند نہیں تھے۔ تاہم اس دور میں نا پسندیدگی کی وجوہات مختلف تھیں۔ ہمیں یقین تھا کہ ان کی ہدایت پر خفیہ ادارے نوجوان افسروں پر مسلسل نظر رکھتے ہیں تا کہ غیر اخلاقی و غیر اسلامی سرگرمیوں میں ملوث پائے جانے والوں کی نشاندہی ہو سکے۔ نوجوان افسروں میں یہ تاثر بھی عام تھا کہ ظہر کی نماز میں ان کی حاضری کی رپورٹ بنائی جاتی ہے جو فارمیشن کمانڈر تک جاتی ہے۔ ا س کے علاوہ یہ بات بھی مشہور تھی کہ جنرل ضیاء الحق کے بارے میں کی جانے والی کوئی بھی منفی بات خفیہ ادارے اسی زبان میں (Verbatim) اُن تک پہنچاتے ہیں۔ چنانچہ اُن دنوں ہمارے دلوں میں آج کل کے کئی خواتین و حضرات کی طرح خفیہ اداروں کے بارے میں بھی شکوک و شبہات پائے جاتے تھے۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ فکر پختہ ہوئی توبد گمانی جاتی رہی۔
سال1988ء کے وسط میں گرمائی مشقوں کے سلسلے میں ہم مستونگ کے نواح میں خیمہ زن تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے حادثے کی خبر ہم نے اسی کیمپ میں سنی۔ جنازہ کے مناظرپی ٹی وی پر برا ہ ِراست انتہائی جذباتی تبصرے کے ساتھ دکھائے جا رہے تھے۔ ہم سب ٹی وی پر جنرل ضیاء الحق کے جنازے کی نشریات دیکھ کر خوب روئے۔ میرا خیال ہے ہمارے رونے میں جنرل صاحب کی نا گہانی وفات سے زیادہ عمل دخل ضرور لودھی صاحب کی جذبات سے لبریزکمنٹری کو حاصل رہا ہوگا۔ مستونگ ہی کے قرب وجوار میں انہی مشقوں کے دوران ایک شام میں معمول کے مطابق ٹریک سوٹ پہن کر کوئٹہ خضدار شاہراہ پر جاگنگ کر رہا تھا کہ میرے عقب سے ایک ریڑھی بان اپنی ریڑھی کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے آیا۔ میرے پاس آکر رفتار کم کرتے ہوئے بولاکہاں جانا ہے؟ آؤ میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔ اس سادہ لوح بلوچ کا خلوص کیا کسی نعمت سے کم تھا؟
ان دنوں افغان جنگ بھی اپنے عروج پر تھی۔ افغانستان سے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد بلا روک و ٹوک پاکستان منتقل ہو کر ہمارے پختون علاقوں میں آباد ہو رہی تھی۔ اب تو ان علاقوں میں مقامی پٹھان کم اور افغان مہاجرین بڑی اکثریت میں آباد ہیں۔ یہ غیر ملکی اب ہمارے ہاں بیش قیمت جائدادوں کے مالک اور اکثر ایک معروف قوم پرست سیاسی جماعت کے ووٹرز ہیں۔ گزشتہ دنوں اچانک وفات پاجانے والے اسی جماعت کے ایک رہنماء کو ہزاروں سوگواروں کے درمیان سپردِ خاک کیا گیا تو ان کی قبر پر افغانی جھنڈا لہرا رہا تھا۔
سنہری یادوں سے مزین کوئٹہ میں میرا چار سالہ قیام اگست1989ء میں اختتام پذیر ہوا۔ اس کے بعد بھی دو دفعہ کوئٹہ میں میری تعیناتی ہوئی، تاہم سب کچھ بدل چکا تھا۔ سال 2014ء میں اپنی آخری پوسٹنگ کے دوران ہمارا گھر کینٹ کے اس کونے میں واقع تھا۔ کینٹ کی دیوارکے پار ہزارہ قبائل کی قدیم بستی اور اس سے آگے شہر تھا جہاں اب کم ہی جانا ہوتا۔ آئے روز بم دھماکے ایک معمول تھا۔ ایک سہ پہر ہم سن روم میں بیٹھے تھے کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ بے ساختہ میرے منہ سے نکلا، لو ایک اور بم بلاسٹ ہوگیا،۔ میری نو دس سال کی بیٹی فاطمہ اپنے کام میں مگن کمال اطمینان سے بولی، بم بلاسٹ کی آواز ایسی نہیں ہوتی،۔ میری دعا ہے کہ بلوچستان اور بالخصوص وادیٔ کوئٹہ کی فضا میں امن، پیار اور خوشبو رچ بس جائیں۔ یہاں کے لوگ شادمان رہیں۔ زمین سونا اگلتی رہے۔ آسودہ حال گھروں کے درو دیوار پر ہیرے جواہرات جڑے ہوں اور اس کے گہرے نیلے آسمان کے نیچے سر سبز و شاداب باغات سنہرے لال سیبوں سے سدا لدے پھندے رہیں۔