Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. India Ka Zahiri O Batni Husn

India Ka Zahiri O Batni Husn

بھارت کو اس وقت کئی چھوٹی بڑی بیماریوں کا سامنا ہے:۱۔ کوویڈ 19۲۔ سمندری طوفان۳۔ سفید پھپھوندی۴۔ بلیک فنگس۵۔ ڈیلٹا۶۔ اور ان سب سے بڑھ کے قبیح فطرت نریندر مُودی

مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ انھیں یہودیوں جیسا مکار مخالف روزِ اول ہی سے میسر آ گیا۔ اسی طرح پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہی ہے کہ اُسے ہندو جیسی مکروہ مخلوق کی دشمنی بھی ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی ورثے میں مل گئی۔ دیگر مسلمانوں کی نسبت ہمارا مسئلہ مزید گھمبیر اس طرح ہوا کہ ہمیں اپنے محدود وسائل کے باوجود ان دونوں شاطروں کا بیک وقت سامنا ہے۔ ہمارے نزدیک مُودی، یہودی کا صرف قافیہ ہی نہیں قیافہ بھی ملتا جلتا ہے۔

اوپر سے ہمارے مکار دشمن کی چالاکی یہ کہ اس نے اپنے کینہ پرور عیاروں اور غمزہ ادا مٹیاروں کے ذریعے نہ صرف اپنی اصلیت پہ پردہ ڈال رکھا ہے بلکہ ایک عالم کو وسیع ترین پیمانے پر ان کی تماش بین فطرت کے پیشِ نظر باقاعدہ دیوانہ بنا رکھا ہے۔ دوسرے معنوں میں ان کا بالی وُڈ اور گالی وُڈ طبقہ بہ ظاہر الگ الگ لیکن بہ باطن ایک ہی مذموم مشن پہ کام کر رہا ہے۔ ان کے سیاسی اداکار، شَر اور زَر کے بل بوتے پر ہمارے مطلبی فرقہ پرستوں اور مفاد طلب سیاہ ست دانوں کے دماغ پہ قبضہ جمائے ہوئے ہیں اور ان کے ثقافتی فن کار اپنے ظاہری حُسن کے ذریعے ہمارے ظاہر بین طبقے کے دلوں میں گھر کیے ہوئے ہیں۔

ایک عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ حُسن کی عالمی منڈیوں میں بھارت کی سانولی سلونی سُندرتا کا جادو سر چڑھ کے بول رہا ہے۔ اس نے چِٹی چمڑی والے حُسن کی بولتی بند کر رکھی ہے اور زمانے بھر کے عام و خاص حلقوں میں کالا شاہ کالا، کی مترنم گونج سنائی دے رہی ہے۔ ایک زمانے میں ششمیتا سَین عالمی حسینہ قرار پائی، پھر اس کے بعد ایشوریہ رائے نے دنیا بھر کو انگشت بدنداں کر دیا۔ کہیں یکتا مُکھی کے حُسن کا ڈنکا بجتا نظر آیا اور کہیں لارا دَتہ، کائناتِ حُسن کے ماتھے کا جھومر بنیں۔ کہیں حیدر آباد کی دیا مرزا نے میدان مارا تو کہیں پریانکا چوپڑا نے اپنے جادوئی حُسن کے جھنڈے گاڑے۔ غرض یہ کہ گزشتہ ربع صدی سے مشرقی حسن نے پوری طرح دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر رکھا ہے۔

اس سلسلے میں اگرچہ طرح طرح کی باتیں سننے میں آتی رہی ہیں۔ کوئی اس جیت کا سبب اربوں ڈالر کے سَٹّے کو قرار دیتا ہے تو کسی کے خیال میں یہ سب کاسمیٹکس کی بڑی بڑی کمپنیوں کا کیا دھرا ہے، جن کی نظریں ہر وقت ایشیا میں کاسمیٹکس کی اس سب سے بڑی منڈی پر لگی رہتی ہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ خدائے بزرگ و برتر نے انسانی حُسن کے جو لنگر برِ صغیر کے اس خِطے میں جاری کر رکھے ہیں، دنیا میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ ایک شاعر نے تو سانولے حُسن کی بابت بہت پہلے سے کہہ رکھا ہے:

خط بڑھا، زلف بڑھی، کاکل بڑھے، گیسو بڑھے

حُسن کی سرکار میں جتنے بڑھے، ہندو بڑھے

اپنے حکیم جی تو کہتے ہیں کہ ہمیں مذہب اور تہذیب اجازت نہیں دیتی وگرنہ بھارت کا مذکورہ بالا حُسن ہماری خواتین کے پاؤں کے برابر بھی نہیں، حیا اور حجاب کا نکھار اس پہ مستزاد ہے۔ اب اگرچہ حُسن کے ان مقابلوں سے متعلق ایک معقول طبقے کا احتجاج بھی برسوں سے سامنے آ رہا ہے، ان کے خیال میں یہ انسانیت کی توہین ہے کہ دنیا بھی کی منھ مَتھے لگنے والی لڑکیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونک بجا کے دیکھا جائے۔ ان کے ایک ایک جسمانی عضو کو تجارتی ترازو میں رکھ کے تولا جائے۔ اس طبقے کے نزدیک یہ حُسن کا عالمی مقابلہ نہیں بلکہ انسانی گوشت کی بہت بڑی منڈی ہے جہاں دستی، ران، چانپ، پُٹھ، گردن، سینے اور سری پائے کا الگ الگ بھاؤ لگایا جاتا ہے۔

ہمیں اس ساری تمہید کے بعد جو بات کرنی ہے، وہ یہ کہ حُسن کی اس چکا چَوند کا تعلق صرف بھارت کی ظاہری لیپا پوتی سے ہے۔ اس کا باطن اس کے بالکل برعکس ہے۔ روئے ارضی و انسانی یہاں اپنے اندر کئی انتہائیں سمیٹے ہوئے ہیں۔ اس کا ظاہر اگر چاندنی جیسا ہے تو باطن اتھاہ تاریکیوں کا مسکن ہے۔ سامنے اگرچہ چراغ ہی چراغ جلتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان چراغوں کے نیچے گھور اندھیرا ہے۔ دیکھنے میں صرف نرم و نازک پھول دکھائی دیتے ہیں لیکن چھونے پر نہایت زہریلے کانٹوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ظاہر و باطن کا جو تضاد اس نگری میں دیکھنے کو ملتا ہے، اس کی دوسری مثال شاید کہیں ڈھونڈے سے بھی نہ ملے۔ یہاں روشنی و تاریکی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑی ہیں۔ شاعرِ مشرق کے بقول:

ظاہر روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کے کسی پلیٹ فارم پر لڑکیوں کے ظاہری وجود کی طرح مختلف قوموں اور حکمرانوں کے باطن کی نمائش کا بھی اہتمام کیا جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ مقابلہ بھی ہمارا پڑوسی ملک کشمیریوں، پاکستانیوں، سکھوں، دَلتوں، عیسائیوں سے بے پناہ نفرت اور گائے کو اپنی سگی ماتا، اس کے گوبر کو مرہم، پیشاب کو امرت دھارا سمجھنے کی بنیاد پر واضح مارجن سے جیت جائے گا۔ اس طرح یہ ملک ثقافت اور کثافت میں بیک وقت دنیا کا سب سے بڑا چیمپئن قرار پائے گا۔

اس کی باطنی تصویر کے پردے پر کہیں چوہتر سالوں سے کشمیری خون کے روز تازہ ہوتے چھینٹے ہیں، کہیں پڑوسیوں سے مسلسل روا رکھی جانے والی منافقت اور بلا وجہ دشمنی کی گہری پرچھائیاں ہیں، کہیں خود مختار ریاستوں پر بلا ناغہ ڈھائے جانے والے مظالم کے سیاہ دھبے ہیں اور کہیں جمہوریت اور سیکولرزم کی آڑ میں کھیلے جانے والے آمریت کے بدبودار ڈرامے کا عکس ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ تضادات کے اس جھمیلے میں ہمیں تو یہ بھی واضح طور پر محسوس ہونے لگا ہے کہ دنیا کی ظاہری آنکھوں کے سامنے ہر سال رچایا جانے والا انسانی حُسن کا یہ ڈراما بھی کہیں دنیا کو حُسنِ زَن سے متاثر کر کے حُسنِ ظَن میں مبتلا کرنے کی ایک سازش تو نہیں، کیونکہ موجودہ حالات میں تو بھارت کی انتہا پسند حکومت کی جانب سے اقلیتوں کے لیے کسی بظاہر اچھے اعلان سے بھی ان قوموں کے ذہن میں یہی خدشہ سر اٹھاتا ہے:

ہم تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام

مُودی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں