گزشتہ شب جناب وزیر اعظم عمران خان کے قوم سے خطاب کا ٹیلی ویژن پر اعلان ہوا تو میں نے پاس بیٹھے ہوئے بیٹے سے ایک پیش گوئی کی۔ میری آدھی پیش گوئی تو بالکل درست ثابت ہوئی مگر باقی آدھی پوری نہ ہو سکی۔ دل سے صدا آئی اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی میں قارئین کے اشتیاق کا زیادہ امتحان نہیں لینا چاہتا میری پیش گوئی تھی کہ آج جناب عمران خان اپنی تقریر کو صرف کرونا وائرس تک محدود رکھیں گے ہو بہو سچ ثابت ہوئی مگر ساتھ ہی میں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ وسیع القلبی کا ثبوت دیتے ہوئے وفاق، پنجاب اور بلوچستان سے کہیں پہلے سندھ حکومت کے کرونا کے خلاف بروقت اقدامات کی تعریف بھی کریں گے مگر ایسا نہ ہوا اس کے برعکس انہوں نے تفتان کے بارڈر پر وفاقی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کے ان حفاظتی اقدامات کو سراہا۔ اگرچہ انہوں نے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اعتراف کیا کہ تفتان کا یہ سرحدی علاقہ ایک ویرانہ ہے۔ اس ویرانے میں کرونا وائرس سے نبردآزما ہونے کے لیے جن طبی سہولتوں کی فراہمی ازبس ضروری تھی وہ تفتان میں موجود نہ تھیں۔
سندھ میں روزانہ کئی نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں اس لیے سندھ حکومت نے بجا طور پر مکمل لاک ڈائون کر دیا ہے۔ صرف خوراک ادویات کی دوائیں کھلیں گی۔ سرکاری دفاتر بند، انٹرسٹی ٹرانسپورٹ بند، ریستوران بند اور بڑے بڑے بڑے اجتماعات بند کر دیئے گئے ہیں۔ لیکن چھوٹے کاروبار اور روزانہ کی بنیاد پر مزدوری کرنے والے محنت کشوں پر کیا گزرے گی، اس کا کوئی حل نہیں بتایا گیا۔ خان صاحب نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ جب جنوری میں چین کے شہر ووہان میں کرونا وائرس کے کیسز سامنے آئے تو ہم اس وقت سے چین کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اسی طرح انہوں نے کہا کہ چین کی طرح ایران بھی ہمارا ہمسایہ ہے ہم ان سے بھی معلومات حاصل کر رہے تھے۔ اب ذرا یہ دیکھیے کہ ہمارے وزیر اعظم اور ان کے طبی مشیر ٹوئٹر وغیرہ پر تو شاید متحرک تھے مگر ہم نے چین کے تجربات سے بروقت سب سیکھنے اور انہی خطوط پر پاکستان میں اقدامات کرنے میں بے حد تاخیر کر دی ہے ووہان میں کرونا کا پہلا کیس 23جنوری کو منظر عام پر آیا۔ اس کے صرف دو تین روز کے بعد ہی چینی حکومت نے نہ صرف ایک کروڑ دس لاکھ آبادی والے شہر ووہان کو لاک ڈائون کیا بلکہ اگلے چند روز میں ہوبی کے پورے صوبے کو بھی لاک ڈائون کر دیا۔ چینی حکومت نے مزید شدید احکامات نافذ کر دیئے کیونکہ ان دنوں تقریباً ایک ہزار کیسز روزانہ کی بنیاد پر وائرس سے متاثر مریض سامنے آنے لگے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ روز ووہان میں کرونا کا صرف ایک کیس سامنے آیا۔ اب ووہان میں کرونا کا کوئی مریض نہیں۔ ووہان میں ہی پاکستان کے 800 جگر گوشے، ہمارے بیٹے اور بیٹیاں وہاں گھروں پر قرنطینہ کے حفاظتی اقدامات کے تحت زندگی گزار رہےہیں۔ چینی حکومت ان کی حفاظت کا فریضہ کما حقہ ادا کر رہی ہے۔ ایک والد کی حیثیت سے میں ووہان میں مقیم پاکستانی طلبہ و طالبات کے والدین پر گزرنے والی قیامت کا بخوبی اندازہ کر سکتا ہوں مگر اسی میں بہتری ہے۔ جہاں تک ہمارے برادر اسلامی ملک ایران کیحکومت کا تعلق ہے وہ اس وائرس کی تباہ کاریوں کا بخوبی اندازہ نہیں لگا سکی لہٰذا مشہد اورقم کی زیارت گاہیں کھلی رہیں اور وہاں آمد و رفت جاری رہی جس کی بنا پر خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایران میں لاکھوں افراد اس موذی مرض کا شکار ہو سکتے ہیں۔
اگر جناب وزیر اعظم کے بقول اواخر جنوری سے چین کے ساتھ رابطے میں تھے تو پھر ہم نے ووہان میں کی جانے والی تیز رفتار حفاظتی کارروائی سے کیا سبق سیکھا۔ فروری کے وسط تک کرونا سے متاثرین زائرین تفتان پہنچتے رہے اور پھر سارے ملک میں پھیلتے رہے اس دوران وزیر اعظم اور وفاقی حکومت سمیت سبھی تغافل کی بلندیوں کو چھوتے رہے بالآخر لوگوں کے توجہ دلانے پر تفتان میں "قرنطینہ" کے نام پر خانہ بدوشوں کے خیموں کی طرز پر چھوٹے بڑے شامینے نصب کیے گئے ہیں جہاں متاثرہ اور غیر متاثرہ زائرین ساتھ ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔ اس "قرنطینہ" میں تو ان زائرین کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے کہ جو ایران سے یہ وائرس اپنے ساتھ نہیں لائے۔ اسی طرح ہمارے بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کی چیکنگ کا کوئی انتظام نہ تھا۔ میرا اپنا ایک بھانجا ایک یورپی ملک(اٹلی نہیں ) سے تقریباً دس روز قبل لاہور پہنچا مگر ایئرپورٹ پر اس کا کوئی معائنہ نہ کیا گیا۔ البتہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نے 14روز کے لیے گھر میں سیلف لاک اپ کر لیا ہے اور اس سے پہلے اعزہ و اقارب سے ملنے سے انکار کر دیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جناب وزیر اعظم کو اوائل فروری سے ہی فرنٹ سیٹ خود سنبھال لینی چاہیے تھی۔ تمام صوبائی حکومتوں کے ساتھ اختلافات مٹا کر رابطہ رکھنا چاہیے تھا۔ کیا ہم اتنے ہی گئے گزرے ہی کہ ہم جنگی بنیادوں پر تفتان سےکرونا متاثرین کو ہیلی کاپٹروں، جہازوں اور گاڑیوں میں لاکر مناسب قرنطینہ میں نہیں رکھ سکتے تھے۔ ایک ایک مسافر کا ریکارڈ محفوظ کرتے۔ جنہیں گھر جانے کی اجازت دی جاتی ان کے فالو اپ کیا جاتا۔ آج ہی خبر آئی ہے کہ حکومت سندھ تفتان سے 671زائرین کو 18بسوں کے قافلے میں گزشتہ روز سندھ لے کر گئی ہے جہاں انہیں سکھر شہر سے باہر ایک لیبر کالونی کے فلیٹوں میں رکھا جائے گا۔ جہاں خصوصی طور پر قرنطینہ اور طبی سہولتوں کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ اسی طرح تقریباً 276متاثرین کو پنجاب لایا جائے گا۔ مگر ابھی تک پنجاب میں واضح نہیں کہ انہیں کہا رکھا جائے گا۔ لاہور کے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ یا میوہسپتال یا یونیورسٹیوں کے ہوسٹلوں میں رکھنا انتہائی خطرناک ہو گا۔ اگرچہ بہت تاخیر ہو گئی ہے مگر سب سے بڑے صوبے میں کہیں بہتر منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔ جناب وزیر اعظم! تاخیر ہو گئی، بہت تاخیر ہم تاخیر کا سبب نہیں پوچھتے۔
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
مگر اب جناب وزیر اعظم تمام سیاسی اختلافات مٹا کر اس تاخیر کا مداوا کریں۔