ایک ہی دکھ بھری داستان بار بار سن کر انسانی اعصاب چٹخ جاتے ہیں۔ آج سوچا تھا کہ کورونا سے ذرا ہٹ کر بات کی جائے۔ ارادہ تھا کہ قارئین کے ساتھ درد دل شیئر کروں اور انہیں ان سرگوشیوں کے بارے میں بتائوں جو آج کل میرے اور گھر کے لان میں کھلے پھولوں کے درمیان ہوتی ہیں۔ مرزا اسد اللہ غالب نے کہا تھا کہ:
غم فراق میں تکلیف سیر باغ نہ دو
مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بے جا کا
تاہم اس باب میں میرا مسلک غالب سے الگ ہے۔ مجھے کسی صورت میں بھی انسانوں کی نہ ہی پھولوں کی دل شکنی گوارا ہے۔ البتہ راز کی بات آپ کو بتا دوں کہ ان دنوں انسانوں کی طرح پھول بھی آزردہ خاطر ہیں۔ بقول فیصل امام رضوی:
مسکراتے ہوئے پھولوں کی نزاکت پہ نہ جا
کوئی اندر سے پریشان بھی ہو سکتا ہے
تاہم پیر کی صبح کے اخبارات دیکھ کر میرا رنگ فق ہو گیا اور میں نے اپنا ارادہ بدل لیا۔ پھولوں کی کہانی پھر سہی۔ ابھی تک اکثر ممالک میں کورونا کا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ بالخصوص پاکستان کے مختلف علاقوں کی خبریں دل دہلا دینے والی ہیں۔ نشتر ہسپتال ملتان کے 15 ڈاکٹرز کورونا میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ لاہور کی ایک ہی گلی میں 42 مریض ہیں۔ برطانیہ سے آئی دلہن نے 18 رشتہ دار مریض بنا دیے ہیں۔ کورونا کے چیلنج پر جس طرح سے یورپ اور امریکہ نے ابتدا میں گومگو کی پالیسی اپنا کر کام لیا اور جس انداز سے چین نے دو ٹوک طرز عمل اختیار کیا۔
اس میں دنیا کے لئے کئی اسباق ہیں۔ اس وقت دنیا کے تجربات سے حاصل ہونے والا سب سے اہم سبق یہ ہے کہ کورونا کے پھیلائو کو روکنے کے لئے برق رفتار فیصلہ کن اور ہر ابہام سے پاک ایکشن ہی موثر ترین پالیسی ہے۔ چاہیے یہ تھا کہ جناب وزیر اعظم حکمت، ہمت اور استقامت سے سارے ملک کے لئے ایک ہی کورونا پالیسی اختیار کرتے۔ وہ پانچوں صوبوں اور تمام سیاسی جماعتوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر جرأت مندانہ قیادت کا ثبوت دیتے۔ اس بات کی بھی اشد ضرورت تھی کہ وہ لاک ڈائون یا شٹر ڈائون کا فیصلہ تمام صوبوں کے ساتھ مل کر کرتے اور سب سے اہم قدم یہ تھا کہ وہ بیورو کریسی کے بجائے ملک کے ماہر ترین ڈاکٹروں کے پینل کے ذمے کورونا کے بارے میں فیصلہ سازی کا فریضہ سونپتے۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہماری مرکزی لیڈر شپ نے ماہرین کے مشورے سے مستقبل میں پیش آنے والی صورت حال کا درست اندازہ نہ لگایا۔ شروع میں یہ کہا گیا کہ کورونا سے زیادہ ڈرنے کی ضرورت نہیں یہ عام فلو کی طرح ہے بس تھوڑا سا شدید ہے۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ کورونا کا پاکستان پر حملہ زیادہ خطرناک نہیں۔ جناب عمران خان نے بعینہ وہی کچھ کیا جو آغاز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا تھا۔ جب پاکستان میں دھڑا دھڑ کیسز بڑھنے لگے تو وزیر اعظم گھبرائے اور انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہاں کیسز کی تعداد اتنی بڑھے گی کہ ہسپتال کم پڑ جائیں گے مگر پھر بھی لاک ڈائون یا تجارت و صنعت کی بحالی کے بارے میں کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا گیا۔
اگر جناب وزیر اعظم کے بقول انہیں کورونا کی بیماری اور اس وائرس کی ہلاکت آفرینی کے بارے میں 15 جنوری کو ہی علم ہو گیا تھا تو انہوں نے اس کی پیش بندی کے لئے کیا کیا۔ 26 فروری کے پہلے کیس کے منظر عام پر آنے کے بعد کچھ ہلچل پیدا ہوئی مگر تفتان اور بیرون ملک سے ہوائی راستوں کے ذریعے آنے والے مسافروں کو قرنطینہ میں نہ رکھا گیا۔ قرنطینہ کے اقدامات بہت تاخیر سے کئے گئے۔ اس دوران ملک کے اندر بڑے بڑے دینی اجتماعات منعقد ہونے دیے گئے۔ ان اجتماعات کے شرکاء جب پنجاب اور کے پی کے میں واپس گئے تو کورونا کی ایک زبردست لہر نے مختلف علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جو ہوا سو ہوا، اب اس لکیر کو زیادہ پیٹنے کا فائدہ نہیں مگر زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ابھی تک مرکزی قیادت گومگو سے باہر نہیں آئی۔
غلامی سے بدتر ہے بے یقینی۔ صوبہ سندھ میں کورونا کچی آبادیوں میں بھی پھیلنے کے بعد وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ ابھی لاک ڈائون جاری رکھنا چاہیے مگر وہیں گورنر سندھ عمران اسماعیل کہتے ہیں نہیں اب لاک ڈائون ختم کرنا ہو گا اور کچھ صنعتیں بحال کرنا ہوں گی۔
سوال وہی پرانا ہے کہ پہلے انڈہ یا پہلے مرغی۔ پہلے کورونا کنٹرول کرنا ہے یا پہلے معاشی سرگرمیاں بحال کرنا ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے تمام ملکوں کو متنبہ کیا ہے کہ اگر انہوں نے کورونا پر مکمل قابو پائے بغیر معاشی سرگرمیاں بحال کر دیں تو انہیں ایک بڑی اور زیادہ خوفناک اقتصادی ابتری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے تازہ ترین ہدایت نامے کے مطابق حکومتیں کورونا کا ایک ایک کیس تلاش کریں، ٹیسٹ کریں ایک ایک مریض کا قرنطینہ میں علاج کریں اور وہ مریض جن لوگوں سے ملتے رہے ہیں ان کا بھی ٹیسٹ کریں۔
پاکستان کے لئے بھی یہی بہترین پالیسی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جناب عمران خان سب سے تعاون حاصل کر کے اس پالیسی پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ ہماری جناب عمران خان صاحب سے ایک ہی درخواست ہو گی کہ یہ وقت سبق سیکھنے کا ہے۔ سبق سکھانے کا نہیں۔