میری خاتون اینکر کولیگ نے برہمی سے کہا کہ ہم تو آپ کو اچھا خاصا ماڈرن سمجھتے تھے مگر آپ بھی اندر سے مولوی نکلے۔ میں نے پوچھا کیوں کیا ہوا؟ کہنے لگیں آپ عورتوں کی آزادی کے خلاف ہیں۔ جواباً عرض کیا بی بی! میں عورتوں کی آزادی کے نہیں بے حیائی کے خلاف ہوں۔
گزشتہ برس کے عورت مارچ کا غالب پلے کارڈ تھا۔ میرا جسم میری مرضی۔ ایک پوسٹر پر نیم عریاں لباس میں ملبوس ایک لڑکی کو نہایت بے ہودہ طریقے سے بیٹھے ہوئے دکھایا گیا تھا جس کے نیچے یہ طنزیہ جملہ درج تھا کہ لو بیٹھ گئی صحیح سے۔ ایک نعرہ تھا۔ میں آوارہ میں بدچلن۔ ایک اور پوسٹر کی عبارت تھی۔ یہ چادر اور چار دیواری گلی سڑی لاش کو مبارک۔ اس سال بھی 8مارچ کے عورت مارچ کی تیاری کے لئے لڑکیوں کی فیشن پریڈ کے کچھ مناظر وائرل ہوئے ہیں جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اب کے ارادے پہلے سے بڑھ کر "پروگریسو" ہیں۔ غالباً اسی بات کے مدنظر کچھ لوگوں نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی کہ عورت مارچ پر پابندی لگائی جائے۔ جس پر چیف جسٹس مامون رشید نے فیصلہ سنایا کہ مارچ پر پابندی تو نہیں لگائی جا سکتی البتہ انہوں نے مارچ کے منتظمین کو تنبیہ کی کہ وہ اخلاق اور آئین کے دائرے میں رہیں اور دل آزار نعروں سے اجتناب کریں۔
میں نے کچھ دیر پہلے ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی سے پوچھا کہ کیا آپ "عورت مارچ" کے خلاف کوئی بڑی ریلی نکال رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کچھ لوگ عورت کو عورت سے لڑانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم "تحفظ حقوق نسواں " کے نام سے 8مارچ کو ریلی نکالیں گے۔ عورت مارچ والوں کو ہم ڈائیلاگ کے ذریعے یہ بات سمجھاتے رہے ہیں کہ ہر معاشرے کی اپنی تہذیبی و معاشرتی روایات ہوتی ہیں جن کا ہر مذہب یا ہر نظریے سے تعلق رکھنے والا احترام کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کہا کہ ہماری آج بھی عورت مارچ کی منتظمین سے میٹنگ ہے۔ ہم انہیں یہ بات باور کرانا چاہتی ہیں کہ جہاں تک تحفظ حقوق نسواں کا تعلق ہے اس میں ہم آپ کی حریف نہیں حلیف ہیں۔ ڈاکٹر سمیحہ قاضی نے یہ کہہ کر دریا کو کوزے میں بند کیا کہ ہم لبرل ازم کو مانتے ہیں نہ کمیونزم، ہم فیملی ازم پر یقین رکھتی ہیں۔ عورت خاندان کا دھڑکتا ہوا دل ہے۔ ہمارے معاشرے کی مٹھی بھر لبرل عورتیں امریکہ اور یورپ کی خواتین کو آزادانہ سڑکوں پر آتے جاتے اور برگر کھاتے دیکھ کر سمجھتی ہیں کہ وہ آزاد نہیں مظلوم ہیں۔ مغرب کی یہ مظلوم عورت محنت مزدوری بھی کرتی ہے بچوں کو بھی پالتی اور چولہا بھی جھونکتی ہے گھر کی میڈ بھی وہ خود ہی ہوتی ہے۔ وہی بچوں کی نگہداشت بھی کرتی ہے۔ مختصر یہ کہ وہ "چراغ خانہ"بھی ہوتی ہے اور حسب ضرورت شمع محفل بھی۔ کسی نے ممتاز ادیب اشفاق احمد مرحوم سے ان کے آخری یام میں پوچھا تھا کہ آپ نے افسانے بھی لکھے، ڈرامے بھی لکھے، آدمی کو بہتر انسان بنانے کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا اور تصوف کی وسعتوں کے بارے میں بھی لکھا، کیا کوئی ایسا موضوع بھی ہے جس کے بارے میں لکھنے کی حسرت آپ کے دل میں باقی ہو، اشفاق احمد صاحب نے جواب دیا کہ ہاں ایک موضوع ایسا ہے جس پر میں لکھنے کی خواہش رکھتا تھا مگر نہیں لکھ سکا وہ گھروں میں مارپیٹ کا شکار ہونے والی مظلوم امریکی عورت ہے جس کے بارے میں نہیں لکھا سکا۔ امریکہ میں آئے روز ایسی کہانیاں منظر عام پر آتی رہتی ہیں جن میں بغیر نکاح بوائے فرینڈ بیچاری مجبور لڑکی پر دوتین بچوں کا بوجھ لاد کر خود اچانک غائب ہو جاتا ہے۔
بہت سے مسلم معاشروں میں اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر قبائلی و معاشرتی رواجوں کو فوقیت دی گئی ہے۔ اسلام عورت کو جائیداد اور وراثت کا حق دیتا ہے مگر ہمارے دیہاتی معاشرے میں بالعموم اسے اس حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اسلام عورت کو تعلیم کا حق دیتا ہے اور واضح طور پر ہدایت دیتا ہے طلبِ علم ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے مگر یہاں کئی علاقوں میں "قبائلی غیرت" اور عورت کے تحفظ کے نام پر اسے جاہل رکھا جاتا ہے۔ اسلام لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان برابری کا حکم دیتا ہے۔ بلکہ بچیوں کی تعلیم و تربیت کی بڑی فضیلت بتائی جاتی ہے مگر یہاں لڑکے کو برتری دی جاتی ہے۔ بعض ایسے بھی جاہل خاندان ہیں جہاں آج تک قبل از اسلام کے زمانہ جاہلیت کے رواجوں کے مطابق بچی کی پیدائش پر صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ رب ذوالجلال غضبناک ہو کر قیامت کا منظر کھینچتے ہوئے فرماتا ہے کہ اس وقت کو یاد کرو کہ جب زندہ درگور کی جانے والی بچی سے سوال کیا جائے گا کہ تمہیں کس جرم میں قتل کیا گیا؟ اسلام عورت کو اپنی آزاد مرضی سے نکاح کا حق دیتا ہے مگر یہاں شہروں یا دیہات میں والدین بچیوں کو ہی نہیں لڑکوں کو بھی ڈانٹ کر کہتے ہیں کہ تمہاری مرضی سے نہیں ہماری مرضی سے شادی ہو گی۔ یہ ہیں وہ حقوق کہ جن کے حصول کے لئے لبرل اور قدامت پسند کی تفریق سے نکل کر عورتوں کو مل کر جدوجہد کرنی چاہیے۔ میں اپنی لبرل بچیوں کو خاص طور پر متوجہ کروں گا کہ وہ تاریخ کے مختلف ادوار میں عورت کی مظلومیت کی داستان پڑھیں تو انہیں معلوم ہو گا کہ اسلام سے پہلے یونان، مصر، عراق، ہند اور چین کی قدیم تہذیبوں میں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے۔ ساتویں صدی میں پہلی بار اسلام نے عورتوں کو وہ حقوق دیے جن کے بارے میں مغرب نے 20ویں صدی کے اوائل میں آ کر کچھ بات کی۔ انہی دنوں سینئر کالم نگار اور ممتاز دانشور ثروت جمال اصمص نے "عورت، مغرب اور اسلام" کے عنوان سے ایک تفصیلی و تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔ جسے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔ اس مقالے میں ان حقوق کا ذکر کیا گیا ہے جو عورت کو تاریخ میں پہلی مرتبہ اسلام نے دیے ہیں۔ انہوں نے ممتاز برطانوی صحافی یوآن ریڈلے اور سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر کی بہن لارا بوتھ جیسی خواتین کا ذکر کیا ہے جو اسلامی حقوق نسوان سے ہی متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوئی ہیں۔ ہماری لبرل خواتین عورت مارچ ضرور کریں مگر دریدہ بدن یا دریدہ دہن ہو کر نہیں گریس فل طریقے سے معاشرے کی مظلوم عورت کے لئے آواز بلند کریں۔