اس سال لاہور میں ایک طرف سردی میں شدت تھی تو دوسری طرف گیس میں حدت نہ تھی۔ رگوں میں خون منجمد کرنے والی سردی۔ مجھے سردیوں میں چمکتا ہوا سورج بہت اچھا لگتا ہے۔ تین چار روز قبل موٹر وے کے ذریعے لاہور سے اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا تو وہ حسین منظر کہ دیکھنے کو ملا کہ جسے دیکھنا کافی نہ تھا۔ بادل کہیں نام کو نہ تھے، ہر طرف سورج کی رو پہلی کرنیں پھیلی ہوئی تھیں اوپر صاف نیلگوں آسمان اور تاحد نگاہ سبزہ ہی سبزہ۔ سڑک کے دونوں طرف سربفلک یو کلپٹس کے شجر مستعد پہرے داروں کی طرح صف در صف کھڑے تھے۔ دل یہی چاہتا تھا کہ چھوڑیے سفر کو کم از کم یہ خوبصورت دن اس حسین منظر کے سنگ گزارا جائے۔ فضائے سبزگوں میں مٹیالی پگڈنڈیوں کے ساتھ ساتھ سرسوں کے پیلے پھولوں کی چادر سرسبز کھیتوں پر تنی تھی۔ فرید بھائی ساتھ تھے۔ وہ بھی ایسے مناظر پر فدا ہوتے ہیں۔ لہٰذا کچھ دیر گاڑی روک کر ہم اس منظر کو آنکھوں میں بساتے رہے اور تمازت آفتاب سے جسم و جاں کو حرارت پہنچاتے رہے۔ فرید بھائی ایام جوانی میں پینٹنگ کا شوق رکھتے تھے مگر اب ان کا زیادہ وقت جماعتی و سیاسی مصروفیات میں گزرتا ہے اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں خوب صورت سفر ناموں کی تصنیف تک محدود ہو گئی ہیں۔ اس دلکش منظر کی مدح سرائی کے بعد مسکرا کر فرید صاحب کہنے لگے کہ اگر جناب عمران خان کو معلوم ہو جائے کہ مسافر موٹر وے کے دلکش نظاروں سے اتنا محظوظ ہوتے ہیں تو وہ "دید ٹیکس" کے نام سے ایک نیا محصول نافذ کر دیں گے۔ میں نے کہا اتنے حسین و جمیل منظر میں بھی آپ سیاست کو نہیں بھولے۔ زندگی میں مجھے سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک، یورپ اور امریکہ کے تیز رفتار ہائی ویز پر گاڑی ڈرائیو کرنے کا موقع ملا ہے مگر یقین جانیے کہ ایسا دلکش نظاروں والا موٹر وے میں نے نہیں دیکھا۔
ہمیں شام کو اسلام آبادمیں اپنے نہایت عزیز دوست سابق ایڈیشنل سیکرٹری فنانس فاروق حسن گیلانی مرحوم کے صاحبزادے عمر گیلانی کے ولیمے میں شرکت کرنا تھی۔ فاروق سے سکول کے زمانے سے دوستی کا آغاز ہوا جو اس کی زندگی کے آخری لمحے تک قائم رہی۔ فاروق ذہانت و فطانت کا شاہکار تھا۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں سیاست و ادب کے حوالے سے جو کتاب چھپتی اس تک سب سے پہلے سرگودھا میں ہماری ہی رسائی ہوتی۔ ہمارے دوست حافظ محمد سعید ایڈووکیٹ مرحوم نے تو سکول کے دنوں سے ہی بہت سی ادبی کتب کا ذخیرہ کر رکھا تھا۔ فاروق گیلانی نے صرف شوق ذوق سے کتابیں پڑھتے بلکہ دوستوں کو ہدیہ بھی کرتے۔ یوں باہمی طور پر ادبی ذوق کی آبیاری ہوتی رہی۔ ایم اے انگریزی کرنے کے بعد فاروق فوج میں انگریزی تدریس کے لئے منتخب ہو گیا مگر کہاں گورنمنٹ کالج لاہور کا کھلا ڈھلا ماحول اور کہاں فوج کے ضابطوں کی پابندی۔ جلد ہی اس کا دل اچاٹ ہو گیا۔ کسی نہ کسی طرح اس نے وہاں سے رہائی پائی اور سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے سرکاری کا ملازم ہو گیا۔ فاروق کی ملازمت اور اس کی ذہانت کے مابین اکثر ٹکرائو ہوتا رہا اور وہ او ایس ڈی بھی بنتا رہا مگر ہر بار تحقیق کے بعد فیصلہ اس کے موقف کے حق میں ہوا۔ تاہم اس کی صداقت و ذہانت اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتی رہی۔ ع
اے روشنی طبع تو برمن بلا شدی
ولیمے میں ہماری شرکت سے گیلانی فیملی بہت خوش ہو گئی۔ تاہم یہ سوچ کر میری آنکھیں نم دیدہ ہو گئیں کہ اگر آج فاروق خود موجود ہوتا تو وہ اپنے اکلوتے صاحبزادے کی دعوت ولیمہ میں بطور میزبان کتنا خوش ہوتا۔ معاً مجھے پروین شاکر یاد آ گئیں:
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
تقریب کے علاوہ شہر اقتدار میں ہمارے پاس دو چار گھنٹے ہی تھے۔ اس دوران چند سینئر بیورو کریٹس دوستوں اور ایک دو سیاست دانوں سے ملاقات ہوئی۔ ان میں سے کچھ عمران خان کے حق میں تھے کچھ اس کے مخالف مگر اس بات پر سب متفق تھے کہ تحریک انصاف کی حکومت عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی۔ ایک طرف مہنگائی نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے تو دوسری طرف غربت اور بے روزگاری نے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ ہسپتالوں اور سکولوں کی حالت بھی دگرگوں ہے۔ گزشتہ کئی برس سے ہماری صوبائی و مرکزی حکومتوں نے یہ کلچر اختیار کر کھا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کی نوبت نہ آنے دی جائے اور اگر عدالتوں کے احکامات کے تحت ایسا کرنا بھی پڑے تو بلدیاتی اداروں کو بے دست و پا کر دیا جائے اور ان کے پاس اختیارات نہ رہنے دیے جائیں اگر ہمارے دیہاتی علاقوں اور چھوٹے بڑے شہروں میں بلدیاتی ادارے یا لوکل حکومتیں کام کر رہی ہوں اور ان کے باقاعدہ انتخابات ہو رہے ہوں تو مقامی مسائل حل ہوتے رہیں گے اور لوگ اپنی مدد آپ کے تحت منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے رہیں گے۔ جناب عمران خان تو لوکل حکومتوں کے بہت بڑے مداح تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ ان اداروں کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی ہونی چاہیے مگر اس معاملے خان صاحب بھی پرانی روش پر ہی چل پڑے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کی عدم موجودگی میں اختیارات ضلعی انتظامیہ کے پاس مرتکز ہو جاتے ہیں۔ انتظامیہ نے کسی عوامی عدالت کے سامنے الیکشن کے موقع پر تو پیش ہونا نہیں ہوتا۔ اس لئے انہیں زیادہ پروا بھی نہیں ہوتی۔ بلھے شاہ فرماتے ہیں:
دیکھ اسماناں تے اُڈدے پنچھی/نہ او کردے رزق ذخیرہ/نہ او پُکھے مردے نے/بندے ہی کردے رزق ذخیرہ/بندے ای پُکھے مردے نے
بلھے شاہ کے مطابق حل یہی ہے کہ کسی صورت میں بھی ذخیرہ اندوزی نہ کرنے دی جائے۔ اسلام آباد سے واپسی پر بھی یہ حسیں منظر ہمارے ساتھ ساتھ سفر کرتا رہا اور میں سوچتا رہا کہ وہ دن کب آئے گا جب ہماری زندگیاں بھی اس حسین منظر کی طرح خوش رنگ اور خوب صورت ہو جائیں گی۔