صدر جو بائیڈن نے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکہ تائیوان کا دفاع کرے گا۔ سی این این کی ایک ٹاؤن ہال تقریب کے موقع پر حالیہ رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہ چین نے ہائپرسونک میزائل کا تجربہ کیا ہے جب صدر بائیڈن سے پوچھا گیا کہ کیا وہ "تائیوان کی حفاظت کا عہد" کر سکتے ہیں، اور وہ چین کی عسکری ترقی کو جاری رکھنے کے لیے کیا کریں گے تو امریکی صدر نے جواب دیا: "ہاں اور ہاں۔ اس بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ زیادہ طاقتور ہونے والے ہیں "، کیونکہ "چین، روس اور باقی دنیا جانتی ہے کہ ہم دنیا کی تاریخ کی سب سے طاقتور فوج ہیں "۔ اس کے بعد سی این این کے اینکر اینڈرسن کوپر نے دوسری بار ان سے پوچھا کہ کیا چین کے حملے کی صورت میں امریکہ تائیوان کے دفاع میں آئے گا؟ تو بائیڈن نے جواب دیا کہ "ہاں، ہم ایسا کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔"
یہ بیان اگرچہ بظاہر طویل عرصے سے امریکی خارجہ پالیسی کی پوزیشن سے ہٹ کر ہے مگر گزشتہ تین دہائیوں سے عالمی سیاست میں رونما ہونے والی تبدیلوں کو دیکھیں تو یہ بیان کسی بھی قسم کی حیرانگی کا باعث نہیں بنتا کیونکہ عالمی سیاسی نظام ہمیشہ سے متغیر رہا ہے مختلف ریاستوں کی طاقتوں میں کمی بیشی اِس نظام کو بھی متاثر کرتی رہی ہے۔ کسی زمانے میں سلطنتِ برطانیہ کی حدود اِتنی وسیع و عریض تھیں کہ سورج غروب نہیں ہوتا تھا مگر دوسری جنگِ عظیم کے بعد نو آبادیاتی نظام کی ٹوٹ پھوٹ تیز ہوئی اور برطانیہ کو مقبوضہ علاقوں سے نکلنا پڑا جس کے نتیجے میں برطانیہ کو عالمی سیاست میں لیڈر کے کردار سے دستبردار ہونا پڑا اور مغربی دنیا کی قیادت امریکہ کے ہاتھ میں آگئی۔
اِسی طرح روس 1917 کے بالشویک اِنقلاب کے بعد کمیونزم کا نِظامِ حکومت اِختیار کر چکا تھا اوردنیا کے سامنے اِسے امریکہ سمیت مغربی جمہوریت کے ایک متبادل نظامِ حکومت کے طور پر پیش کر رہا تھا جس کا نتیجہ ایک ایسی نظریاتی کشمکش کی صورت میں نکلا جسے دنیا "سرد جنگ" کولڈ وارکے نام سے جانتی ہے اور اِس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور تقریباّ تمام دنیا دو گروپس میں تقسیم ہوگئی مگر 1991 میں سابق سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یہ سرد جنگ کولڈ واراِختتام پذیر ہوئی اور امریکہ (اِنٹر نیشنل ریلشنز کی زبان میں) دنیا کی اِکلوتی سپر پاور بن گیا۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے اِنٹر نیشنل ریلشنز کے سکالرز نے (باالخصوص امریکہ میں) مستقبل کے عالمی سیاسی نظام کے خدوخال اور اس میں امریکہ کے ممکنہ کردار کے بارے میں اپنے نظریات اور تجزیے پیش کیے جن میں بہت حد تک چین کو ایک چیلنج کے طور پر پیش کیا گیا اگرچہ کہ "پولیٹیکل اِسلام" بھی ایک ممکنہ خطرہ سمجھا گیا (اِس کا ذکر سموئیل پی ہنٹنگٹن نے اپنے مشہورِ زمانہ ریسرچ آرٹیکل " تہذیبوں کے تصادم" میں کیا ہے) جس کی روک تھام کے لیے "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کی پالیسی کے تحت، اَمریکہ نے مسلم ممالک خصوصی طور پر افغانستان پر حملہ کیا۔
اگرچہ شروع میں امریکہ کا مقصد دہشت گرد عناصر کا خاتمہ تھامگر افغانستان میں امریکہ کے طویل قیام کا مقصد چین کے عزائم پر نظر رکھنا اور ان کے سدِباب کے لیے اقدا مات کرنا تھا۔ امریکہ اور چین کے مابین تجارتی مسابقت تین دہائیاں قبل شروع ہو گئی تھی مگر دونوں ملکوں کے مابین باہمی تجارت کا حجم بھی خاصا ہے جسے نظر انداز کرنا مشکل ہے، خاص طور پر جب سے چین نے اپنی تجارتی پالیسیوں کو اوپن کرنا شروع کیا اور نتیجے میں امریکہ کی پرائیویٹ کمپنیوں نے وافر اور سستی مزدوری، اور وسیع مارکیٹ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی انڈسٹریز چین میں بھی لگایئں۔ اپنی عالمی ترجیحات اورامریکی تجارتی طبقے کے مفاد کے پیشِ نظر صدر بل کلنٹن کے دور سے امریکہ کی دونوں پارٹیوں خصوصی طور پر ڈیموکریٹس نے چین کی جانب انگیجمنٹ کی پالیسی جاری رکھی مگر ساتھ ساتھ مسابقت بھی جاری رہی۔
صدر ٹرمپ نے چین کی جانب جارحانہ رویہ اِختیار کیا اگرچہ کہ پہلے کے امریکی صدور بھی چین کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں مگر صدر ٹرمپ نے کرونا وائرس کو "چینی وائرس" کہنا شروع کیا اور دنیا میں اِس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار چین کو قرار دیا۔ افغانستان میں امریکہ کی شکست اور امریکی افواج کے اِنخلا کے بعد سے امریکہ عالمی سطح پر اَپنے اِمیج کو بحال کرنے کے لیے جارحانہ انداز اِختیار کر رہا ہے چین جیسی مضبوط معیشت کی ابھرتی ہوئے سیاسی اثرورسوخ کی روک تھام ہوسکے۔
آکس (AUKUS)) کے نام سے ستمبر میں آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے مابین طے پانے والا سہ ملکی دفاعی معاہدہ بھی، امریکہ اور چین کے درمیان سرد جنگ کی طرف بڑھتا ہوا ایک قدم ہے۔ اِس معاہدے کے تحت امریکہ نے آسٹریلیا کو کروز میزائل اور ایٹمی آبدوزیں فراہم کرے گا۔ اِس معاہدہ کی رو سے تینوں ممالک اپنی دفاعی صلاحیتیوں کو مزید مضبوط بنا سکیں گے اور میڈیا رپورٹس کے مطابق، آبدوز کے بیڑے کے علاوہ آکس "سائبر، مصنوعی ذہانت A1 خاص طور پر اَپلائیڈ مصنوعی ذہانت، کوانٹم ٹیکنالوجیز، اور کچھ زیر سمندر صلاحیتوں کے ساتھ اِتحادی افواج کو یکجا کرے گا"۔
آکس معاہدہ کا بنیادی مقصد بھی چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنا ہے (اگرچہ اِس کا اعلان نہیں کیا گیا ہے) کیونکہ آسٹریلیا کے وزیر اعظم سکاٹ موریسن کے 16 ستمبر کے میڈیا بیان کے مطابق آکس کے قیام کا بنیادی مقصد انڈو پیسیفک ریجن میں سفارتی، سیکورٹی اور دفاعی تعاون کو مضبوط بنانا ہے تاکہ اکیسویں صدی کے چیلینجز سے نمٹا جا سکے۔ دوسری طرف چین نے آکس کے قیام کو سرد جنگ کی ذہنیت اور غیر ذمہ دارانہ سوچ کی حامل قرار دیتے ہوئے علاقائی اِستحکام کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
اب تائیوان کے معاملے میں امریکی پالیسی میں تبدیی (اگرچہ کہ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے صدر بائیڈن کے بیان کے تناظر میں امریکہ کی تائیوان پالیسی میں تبدیلی سے اِنکار کیا ہے) اور چینی صدر شی جن پنگ کی اپنے ہی دورِصدارت میں تایئوان کو واپس چین کا حصہ بنانے کا عزم، اِس بات کا اِشارہ ہے کہ چین اور امریکہ کے مابین "سرد جنگ" شروع ہوچکی ہے جِس کے اثرات (مثبت اور منفی) کا بہرحال دنیا کو سامنا کرنا پڑے گا۔