جس طرح لاہور کے تاریخی آثار میں شاہی قلعے کو گل ِسرسبدکی حیثیت حاصل ہے۔ ایتھنزمیں یہی حیثیت ایکروپولس کو حاصل ہے۔ ایکروپولس کا مطلب ہے بلندو بالا حصار، یہاں بھی یونان کا قلعہ تھا جس کے آثار پر اب ایکروپولس میوزیم قائم ہے۔ ایتھنز پہنچنے کے بعد ہم سب سے پہلے ایکروپولس جاناچاہتے تھے لیکن جس روز ہم شہرکی سیر کے لیے نکلے تو افضل نے کہا کہ ایکروپولس جائیں گے تو پھراس کے سواکہیں اور نہیں جاپائیں گے۔ اس لیے بہتر ہے پہلے ایسی جگہیں دیکھی جائیں جہاں نسبتاً کم وقت صرف ہوتاہو۔ چونکہ ہم افضل کو اپنا ہادی بناچکے تھے لہذااس کی بات ماننا واجب تھا۔ ہم اس کے ساتھ پالیااغورا کی جانب روانہ ہوگئے۔ مختصرنام تو فقط اغورا The Agora ہی ہے جس کا مطلب شہرکاچوک یا منڈی کی جگہ ہے، پالیا (Palio) ساتھ لگاکر اس کی قدامت ظاہرکی جاتی ہے۔ یہ قدیم ایتھنز کا مرکزیا آج کی زبان میں سٹی سنٹرہے۔ مرکز شہرکو مصر میں "وسط البلد "اور شام میں "مرکز المدینہ" کہاجاتاہے۔ آپ اسے قلب شہربھی کہہ سکتے ہیں، جسے شہری اجتماعات کے لیے بنایاگیا۔ یہاں لوگ اکٹھے ہوتے تھے۔ یہ قلب ِشہر چھٹی صدی قبل مسیح کی یادگار ہے جسے تجارتی اور رہائشی مقاصد کے لیے بنایاگیاتھاکبھی عوامی اسمبلی کے اجلاس بھی یہاں ہواکرتے تھے۔ یہ ایکروپولس کی شمال مغربی ڈھلوان کی جانب پہاڑ Areopgus کے جنوب پرواقع ہے اور اسے قدیم یونانی دور میں مرکز شہرکی بہترین مثال سمجھاجاتاہے، اس کا دوسرا نام "مارکیٹ ہل "ہے۔ یہاں پہنچ کر گاڑی کو دور روکنا پڑاکہ اس جگہ کی کیفیت گنجان آبادعلاقوں کی سی تھی۔ تنگ راستوں، بہ کثرت دکانوں اور غول در غول سیاحوں کے باعث آگے گاڑی لے جانا ممکن نہیں تھا۔ میں نے اس صورت حال کو غنیمت جانا کہ بازاروں اور راستوں پر پیدل چل کر ہی کسی مقام کی زندگی کا حقیقی مشاہدہ کیاجاسکتاہے۔ میں یہاں پہنچ کر گردوپیش میں گم ہوگیا یہاں تک کہ سفیرصاحب کی یہ ہدایت بھی یادنہ رہی کہ کوچہ و بازارمیں جاتے ہوئے جیب کتروں سے ہوشیاررہیں جو ہر جگہ موجودہوتے ہیں ان کا کہناتھاکہ یونان کودیکھنے کے لیے رائے زنی یا تنقیدکی بجائے ٹک ٹک دیدم کا اصول اختیارکرناچاہیے، ٹیکسی والے سے کرایہ پہلے طے کرلیاجائے اور یونانیوں کی بلندآہنگی کے لیے تیاررہاجائے۔ یہ علاقہ اتنا گنجان تھا کہ آپ اسے پرانے لاہورسے مشابہ کہہ سکتے ہیں۔ ملکوں ملکوں کے سیاح بڑی تعداد میں یہاں پہنچے ہوئے تھے۔ یادگاری اشیا اور تاریخی نوادر کی فروش گاہوں نے ایک رونق لگارکھی تھی۔ ان فروش گاہوں کے دکاندار یا ان کے نمائندہ خواتین و حضرات دکانوں سے باہرنکل کر اپنے پاس موجود سامان کا تعارف کروارہے تھے۔ گویا ہر آنے والے سے کہہ رہے ہوں
اندرین شہرشما ہیچ خریداری ہست
تاریخی آثار اور ان کی یادگاروں سے اپنے شغف کی بناپرمیں ان دکانوں کی سیرکرتارہا اور یہاں وہاں سجائے گئے سووینیرز دیکھتارہاجن میں سے اکثر کا تعلق یونانی دیومالاکے قصوں سے تھا۔ یہاں جو سووینیر ہر دکان پر سجاہوادکھائی دے رہاتھاوہ زہرہ کا اساطیری مجمسہ(Aphrodite Pan Eros) تھا۔ ایفرودایت عربی میں زہرہ کہلاتی ہے۔ فلک سوم کی زہرہ، رومیوں تک پہنچی تو وینس (Venus) کہلائی۔ یہ رقاصہء فلک، فارسی میں زائیدئہ کف ِدریا، ہندی میں شکراورفارسی میں ناہید ہے ?اس غیرت ِناہیدکی ہر تان ہے دیپک?اس میں شک نہیں کہ"نازواداکے ساتھ وہ دلبر شکیل ہے" ?زہرہ؛زرخیزی، ثمرآوری اور حیات آفرینی کے باعث دھرتی ماتاکی علامت تھی۔ یونانی دیومالامیں محبت، مسرت، حسن اورتخلیق کی دیوی قرار پائی۔ حسن و جمال میں اس کی حریف اگرکوئی تھی تووہ مشتری (جوپیٹر)کی بیوی ہیرا تھی کچھ مآخذ ہیراکو زیوس کی بیوی بتاتے ہیں بہ ہر حال ?زہرہ و ماہ و مشتری ازتو رقیب یکدگر? اس تمثال میں زہرہ کا نہایت متناسب اور حسین وجود، بکری کی پشت اور بکری کی ٹانگوں والے پین Panکی ہوسناکی کی زدپر ہے۔ یونانی اساطیر میں پینPan جنگلی گڈریوں کا دیوتاتھا۔ زہرہ نے اپنے بال سلیقے سے گوندھ کر اسکارف میں سمیٹ رکھے ہیں اور اپنے بائیں ہاتھ سے نسوانی مثلث کو چھپارکھاہے۔ اس کی دائیں ٹانگ ایک ادائے خاص سے خم کھارہی ہے۔ گڈریوں اور چرواہوں کا جنگلی دیوتا، اس کے بائیں ہاتھ کی کلائی کو اس کی جگہ سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بکری کی پشت اور بکری کی ٹانگوں والے پین Panکو دیکھ کر مجھے چھٹی صدی قبل مسیح کے شاعر زینوفینیز (Xenophanes) کی بات یادآئی جس نے دیوتائوں پر تنقیدکرتے ہوئے کہاتھاکہ لوگوں نے اپنی شکلوں پر دیوتائوں کوبنایاہے اگربیلوں، خنزیروں اوردوسرے جانوروں کے ہاتھ میں بھی موقلم ہوتا تووہ اپنی صورت پر خداکو بناڈالتے۔ اس کاکہناتھا کہ خداایک ہی ہے جس کی ابتداہے نہ کوئی انتہا، خداکائنات کا اساسی نکتہ ہے، خداہی کائنات ہے۔ زینوفینیزہی نہیں یونانِ قدیم میں خدائے واحد پر ایمان رکھنے والوں کی ایک بڑی تعدادموجودتھی۔ سوفسطائیہ نے متعدد خدائوں کے تصور پر بڑے تندوتیزحملے کیے تھے اوراسے خلاف عقل قراردیاتھا۔ سقراط نے متعدد خدائوں کو ایسی تنقیدکانشانہ بنایاکہ معاشرہ اسے برداشت نہ کرسکا بہ قول مولاناامین احسن اصلاحی" اس کی جرح نے بت پرستی توکیا اوہام پرستی کی بھی جڑاکھاڑدی "جس پر بت پرست معاشرہ چیخ اٹھا اور بتوں کے خلاف اس کے خیالات کو نوجوانوں کی گمراہی کا باعث قراردے کر اسے زہرکاپیالہ پلاکر خاموش کردیاگیا۔ سقراط کایہی کردارہے جس کی بناپر ہمارے ہاں اسے وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولاً ا(اورہم نے ہر امت میں رسول بھیجا۱۶النحل ۳۶) کا مصداق تک سمجھاگیاہے یاپھراس کی تعلیمات کی بناپر اسے وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ (ہرقوم کے لیے ہے ایک ہادی ۱۳ رعد۷)کے مقام پر فائزدیکھاگیاہے۔
زینوفینیز کا خیال کیاآیا توحیداپنی قوس قزح بناتی چلی گئی۔ مجھے پین Panکی صورت گری کے پس منظر میں کوئی حیوانی متخیلہ کام کرتی دکھائی دینے لگی جس کا سامنا زہرہ کی صورت میں انسانی متخیلہ سے ہے۔ زہرہ نے اپنے دائیں ہاتھ میں جوتا اٹھاکر اسے بلندکررکھاہے گویا وہ اس بھدے دیوتا کو اس کے مذموم مقاصد کا مزہ چکھاناچاہتی ہے۔ ادھرننھے پروں والا زہرہ کا چھوٹا بیٹا ایروس Eros))ماں کے بائیں کندھے کے پیچھے سے بڑھ کر پین کے دائیں سینگ کو تھامے ہوئے اسے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کررہاہے۔ یہ مجسمہ ۱۹۰۴ء میں بیروت سے دریافت ہوا اور اس کی اصل اب ایتھنز کے نیشنل آرکیالوجیکل میوزیم میں موجود ہے، بعد میں ہم نے نیشنل آرکیالوجیکل میوزیم میں وہ اصل بھی دیکھی۔ یونانی دیومالامیں اگرچہ اس مجسمے کو بہت اہمیت حاصل ہے اور یہاں اس کی مہنگی ترین سے لے کرسستی ترین تک چھوٹی بڑی بیسیوں اقسام برائے فروخت موجودتھیں لیکن میرے ذوق نے چھونا بھی گوارانہ کیا۔
اسرائیلی روایات کے مطابق زہرہ نے ہاروت و ماروت کو گناہ پر آمادہ کیا تھاجس کی سزاکے طور پر اسے متحجرکرکے ستارہ بنادیاگیا۔ رقص وسروداورعشق ومحبت، اسی دیوی سے منسوب کیے جانے لگے۔ ہمارے بعض مفسرین نے وَمَا أُنزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْْنِ بِبَابِلَ ہَارُوتَ وَمَارُوتکی تفسیرمیں اس قصے کی علامتی تعبیرکرتے ہوئے زہرہ کو نفس بلکہ نفس امارہ اور الْمَلَکَیْْن(دوفرشتوں )کو قلب اور روح سے کنایہ کیاہے تاہم یہ ایک لٹریری بات ہے، تحقیق کی نگاہ میں اس قصے کی کوئی اصل نہیں۔ دنیائے ادب کی اپنی وسعتیں ہیں اور اس کے نزدیک اصلیت سے مراد شے کا خارج میں وجودہونا ضروری نہیں ہوتا۔ فنکار کا عندیہ بھی کافی ہوتاہے، چنانچہ اقبال جیساشاعر بھی یہ کہہ دیتاہے کہ ؎
ازجمال زہرئہ بگداختی
دل بہ چاہ بابلی انداختی
تو زہرہ کے حسن سے پگھل گیااور چاہِ بابل کی اسیری گواراکرلی۔ جاویدنامہ میں فلکِ زہرہ کی تمہیدمیں زہرہ کے قریب پہنچ کر جو گفتگواقبال نے کی ہے، آنکھیں کھول دیتی ہے ؎
عشق شاطر مابدستش مہرہ ایم
پیش بنگر در سوادِزہرہ ایم
اندرو بینی خدا یا ن ِکہن
می شناسم من ہمہ راتن بہ تن
بعل و مردوق ویعوق و نسروفسر
رم خن و لات ومنات وعسروغسر
برقیام خویش می آرد دلیل
از مزاجِ این زمان ِبی خلیل
عشق شاطرہے اور ہم اس کے ہاتھ میں مہروں کی طرح ہیں جن سے وہ کھیلتاہے، سامنے دیکھوہم زہرہ کے ماحول میں ہیں، جس کے عشق نے ہاروت و ماروت جیسوں کو الٹالٹکادیا۔ اس ماحول میں پرانے پرانے خدا یان ِباطل موجودہیں، میں ان میں سے ہرایک کو خوب پہچانتاہوں۔ ان پرانے باطل خدائوں کے ناموں کوفنکارانہ چابک دستی سے ایک ہی شعرمیں سموکر شاعر کہتاہے کہ دورِحاضر کا ماحول توحید سے بیگانہ ہواجارہاہے جسے یہ جھوٹے خدااپنے دوبارہ دنیامیں آنے کی دلیل سمجھے ہوئے ہیں