جینے کے لیے صرف سانس ہی نہیں اچھی صحت کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ ایک صحت مند آدمی ہیزندگی کی سختیوں سے نمٹپاتا ہے۔ انسانی جسم کا ہرحصہ اہم ہے لیکن چند اعضاء ایسے ہیں جو نشونما میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، جیسے کہ جگر۔ شاعر معشوق کو جگر سے تشبیہ دیتے ہیں۔ جسم کوشفاف خون کی فراہمی کا کام اسی معشوق کی ذمہ داری ہے۔ جگر جسم کو تروتازہ رکھتا ہے۔ جگرمرجھا جائے تو جسم پیلا پڑنے لگتا ہے، بالکل اسعاشق کی طرح جس کی محبت ادھوری رہ جائے۔ بیمار جگر بیمار خون کو جنم دیتا ہے جس سے جسم میں آلودگی بھر جاتی ہے جو رفتہ رفتہ جسم کے ہر حصے کو متاثر کر کے ناکارہ بنا دیتی ہے۔
ہیپاٹائیٹس کا عالمی دن منانے کا مقصد یہی ہے کہ ہم اپنی زندگی میں شامل آلودگیوں کو پہچانیں۔ طب میں احتیاط کو علاج سے مقدم رکھنے کی صلاح دی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک ادویات سے زیادہ خوراک اور احتیاطی تدابیر سے علاج کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ہیپاٹائٹس کا عالمی دن دراصل ایک یاد دہانی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پہلی یاددہانی تو جگر سے متعلق احتیاطی تدابیر اپنانے سے وابستہ ہے، باقی یاد دہانیوں کا مقصد ہماری توجہ گندے پانی کی سپلائی، غیر تربیت یافتہ ڈاکٹرز، استعمال شدہ سرنجوں کے استعمال پر مرکوزکرانا ہے۔ یہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے غیر ترقی یافتہ یا ہم جیسے ترقی پذیر ممالک میں لاکھو لوگ ہر سال موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ دن اس حقیقت کی بھی یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کے شہری علاقوں میں رہنے والے 40 سے 60 فیصد افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ یہ دن یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کے ہسپتالوں میں 25 سے 40 فیصد ایسے مریض زیرعلاج ہیں جنہیں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں لاحق ہیں جیسے ہیضہ، پیچش، ٹائیفائیڈ، کالراہ، ہیپاٹائٹس E۔ اور آخر میں یہ دن اس بات کی بھی یاد دہانی ہے کہ پاکستان میں حاملہ عورتوں میں ہیپاٹائٹس E کی وجہ سے اموات کی شرح 38 فیصد جب کہ جنین کی شرح اموات 48 فیصد ہے، جو کہ دنیا بھر سے زیادہ ہے۔ WHO کے نزدیک ہیپاٹائٹس E ایک خطرناک بیماری ہے۔ مثبت بات یہ ہے کہ اگر بروقت تشخیص کر لی جائے تو یہ مرض قابل علاج بھی ہے۔
اینٹی بائیوٹک کی ایجاد کے بعد میڈیکل سائنس کا مشن زندگی فراہم کرنے والی ادویات اور ٹیکنالوجی کے ذریعے معیار زندگی بہتر بنانا ہے۔ اگر بیماری کی تشخیص صحتیابی کا روڈ میپ ہے تو درست ادویات اور ویکسین کا بر وقت استعمال صحت مند زندگی کی طرف لے جانے والا محفوظ راستہ۔ امسال ہیپاٹائٹس کے عالمی دن کا موضوع Hepatitis Can't wait ہے، یعنی ہیپاٹائٹس انتظار نہیں کرسکتا۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ اس مرض کا بروقت علاج نہ کرایا جائے تو یہ موت کی طرف لے جاتا ہے۔
دنیا بھر میں ہرسال بیس ملین افراد کسی نہ کسی طرح ہیپاٹائٹس کے وائرس کی زد میں آجاتے ہیں، 1.1 ملین افراد ہر سال ہیپاٹائٹس B اور C کی وجہ سے مر جاتے ہیں جبکہ3.3 ملیں افراد کو ہپاٹائٹس E کا مرض لاحق ہو جاتا ہے جس میں سے 70، 000 افراد مختلف پیچیدگیوں کے باعث قبر میں جا پہنچتے ہیں۔ پاکستان میں ہیپاٹائٹس سے مرنے والوں کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ ہیپاٹائٹس انتظار نہیں کرسکتا، میں ہمارے لیے ایک دوسرے کے لئے زندہ رہنے کی نوید ہے۔ ہمارے ارد گرد کتنے ہی لوگ ہوں گے جنھیں خوش خبریوں کی ضرورت ہے، زندگی کی ضرورت ہے۔ جنہیں علاج کے لیے اس روڈ میپ کی ضرورت ہے جو تندرستی کی طرف لے کر جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک روڈ میپ کا نام Hecolin Vaccine ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ ویکسین ادویات بنانے والے ادارے فیروزسنز لیبارٹریز لمیٹڈ نے چائنہ کی مشہور کمپنی، Xiamen Innovax Biotech کے تعاون سے پاکستان میں متعارف کروائی ہے۔
Hecolin" ہیپاٹائٹس E کے علاج کے لئے نہایت مفید ہے۔ ویکسین کی تکمیل تین مراحل میں مکمل کی گئی ہے۔ تیسرے مرحلے میں حفاظتی معیار کی جانچ کے لیے ویکسین 604 1، 12رضاکاروں کو لگائی گئی۔ ویکسین کی ایک سالہ افادیت 8 .93 فیصد ہے۔ جبکہ طویل المدتی افادیت کی شرح 3 93. فیصد ہے۔ ویکسین کے فیز III کے نتائج اور اس کی طویل المدتی افادیت کی تفصیلات، The Lancat اور England The New Journal of Medicineمیں بالترتیب شائع کی گئی تھیں۔
ایشیا میں وائرل ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی اکثریت ہے۔ اسی طرح اس مرض سے 70 فیصد اموات بھی اسی خطے میں ہوتی ہیں۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقے غیر یا نیم ترقی یافتہ ممالک میں ہیں جہاں حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق نا تو رہن سہن ہے اور نا ہی خوراک۔
بدقسمتی سے پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ہیپاٹائٹس کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اسقدر خطرناک صورت حال ہونے کے باوجود اس مرض کے پھیلاؤ کی روک تھام، اس کی تشخیص سے متعلق اقدامات، اس سے بچنے کی تدابیر اور اس کے علاج سے وابستہ معلومات سے مطلق کسی قسم کی آگاہی مہم کو چلانے کا انتظام نظر نہیں آتا۔ اس مایوس کن صورتحال کے باوجود امید کے امکانات موجود ہیں۔ سائنسی ترقی نے معیاری اور سستی ادویات کے حصول کو یقینی بنا کر اس بیماری کے علاج کو آسان بنا دیا ہے۔ چونکہ ان ادویات کے مضر اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں اس لیے صحت کے معیار پر بھی سمجھونہ نہیں کرنا پڑتا۔
اگر ہم اور کچھ نہیں تو صرف اتائیت کے خاتمے، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، فضلات کو بہتر انداز سے ٹھکانے لگانے جیسے انتظامات ہی کو یقینی بنالیں تو نہ صرف ہیہیپاٹائٹس بلکہ دوسرے موذی امراض جیسے AIDS HIV کے پھیلاؤ کوبھی روک سکتے ہیں۔