"اوہ افندم! اونن گوزی لی ینی تصور ایڈریسی نیزی(Onun gözelliyini tesvvür edirsinizs)"
میں نے چائے کی چسکی لی اور زبان پر رکھی قند کے گھلنے کے انتظار میں خاموش رہا۔ نہاد شاید اسی موقع کا منتظر تھا۔ اس کے چہرے پر جذبے کی سرخی تھی اور کلام میں جوش، اس نے نہایت تیزی کے ساتھ یہ جملہ بولا تو میں حیرت سے اس کے چہرے کی جانب تکتا رہ گیا۔ مایا مسکرائی اور کہنے لگی، "یہ کہہ رہا ہے جیناب (Cenab)۔۔۔"مایا نے اپنے بھاری لیکن نسوانی لہجے میں آخری لفظ بولا تو میں چونکا اور پوچھا، یہ تم نے کیا کہا، مایا؟ "جیناب، مطلب ہے سر! ہمارے ہاں اپنی عمر سے بڑے کو، معزز مہمان کو، قابل احترام بزرگ کو ایسے ہی پکارتے ہیں، جیناب! "ْ
ہاتھ نکالو، استاد، ہمارے ہاں بھی ایسا ہی کہتے ہیں۔ مایا اور نہاد دونوں یہ سن کر شاد ہوئے۔ نہاد کہنے لگا، مجھے ایک بزرگ سے ملنے کا اتفاق ہوا تھا، جانے کہاں کہاں کی خاک چھانتے ہوئے یہاں پہنچے تھے؟ یہ ادھر سامنے ملتان سرائے…
ؔ"یہ جملہ ابھی اس کے منہ میں ہی تھا کہ میں چونکا"۔
ہاں ہاں ملتان سرائے، وہ سامنے جو نیچی سی لیکن نمایاں ترین چھت ہے، وہی ملتان سرائے ہے۔ ہمارا ملتان یہاں باکو میں کہاں سے آگیا؟ یوں جانیے، دل و دماغ پر سوالات کی بارش سی برسنے لگے لیکن میں نے اسے تھپکی دے کے اپنی بے چینی کو تسلی دی اور نہاد کو بات کہنے کا موقع دیا۔ اس نے بتایا کہ ایک بزرگ تھے، جانے کہاں کہاں کی خاک چھانتے ہوئے یہاں پہنچے تھے، ملتان سرائے کے آس پاس پائے جاتے۔ اکثر خاموشی اختیار کرتے، لوگ سلام کرتے تو محبت سے جواب دیتے، سر یا پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر تادیر دعائیں دیا کرتے۔ میری ان سے اچھی شناسائی ہو گئی تھی۔
ایک دن ملتان سرائے کی چھت کے اوپر سے دور کہیں خلاؤں میں دیکھتے ہوئے کہاکہ جانتے ہو، میں وہاں سے کیوں آیا؟ میں ادب سے خاموش رہا، وہ بھی خاموش ہوئے، چائے پڑی پڑی ٹھنڈی ہوگئی، خاموشی کے طویل وقفے کے بعد فرمایا، میں یہاں اپنی جڑوں کی تلاش میں آیا ہوں، اپنوں کو دیکھنے آیا ہوں اور یہ دیکھنے آیا ہوں بچھڑا ہوا خون جب جوش مارتا ہے تو روح و بدن میں کیسی کیفیت پیدا ہوتی ہیں۔
ان کے لہجے میں ماں باپ سے بچھڑے ہوئے بچے کی اداسی لیکن آنکھوں میں شوق دید کی امید اورچمک تھی۔ تب مجھے اپنے والد کی یاد آئی جو ان زمانوں کی بات کیا کرتے تھے جب فاصلوں کے باوجود ان بزرگوں کا یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں آنا جانا بہت تھا۔ تو افندم، ہمارے دل جب یوں ملتے ہیں تو زبان میں یکسانیت کیوں نہ ہو۔
پس، میں نے سوچا، یہ سارے کھیل توجہ کے ہیں۔ ذرا سی توجہ درکار ہے، لہجہ پکڑنے میں کامیابی ہو جائے تو بات سمجھنے میں دیر نہیں لگتی۔ زبان کے سمجھنے نہ سمجھنے کا معاملہ بھی ماموں تائیوں کے بیٹوں بیٹیوں جیسا ہی ہے، دل کے کان لگادیے تو سب کچھ میں آ گیا، ورنہ بے گانگی ہی بے گانگی۔
زبان کی یکسانیت سے شروع ہونے والی بات جب خون کے رشتوں تک جا پہنچی تو تھوڑا بہت تکلف جو شرکائے محفل میں تھا، وہ بھی اٹھ گیا۔ رشتے ناتے کی گرم جوشی میں گز گلاسی کی داستان حریت رہی جاتی تھی۔ میں نے یاد دلایا، افندم، آپ باکو کی داستان حریت سنانے لگے تھے لیکن کسی حسن کی دیوی کا ذکر لے بیٹھے، میں وہ بات ابھی بھولا نہیں۔
ہاں، ہاں، وہی حسن کی دیوی، ایک ہی بات ہے۔ نہاد مسکرائے اور کہا کہ بتانا میں یہ چاہتا تھا کہ حسن و عشق ہو یا جلال و جمال، یہ سب تذکرے اسی ایک کہانی کے مختلف حصے ہیں جنھیں علیحدہ علیحدہ کریں تو شاید کچھ بھی سمجھ میں نہ آئے۔ اسی لیے تو میں چاہتا ہوں کہ آپ کو اُس حسن بلا خیز کا جلوہ دکھاؤں، باقی بات آپ کی سمجھ میں آپ سے آپ آجائے گی۔ مایا کسمسائی اور کہا، "جیناب"، بہت دیر ہو جائے گی۔
یہ تو ہے میں نے اس سے اختلاف نہیں کیا اور کہا کہ مجھے تمھارے شہر کی روح سے ملنے کا موقع مل رہا ہے۔ میں جانتا ہوں، تمھارے لیے اس سب کی کچھ خاص اہمیت نہیں ہوگی لیکن تمہارے لیے ایک نیا جہاں کھل جائے گا۔ میں نے پر امید نگاہوں کے ساتھ اس کی طرف دیکھا تو وہ بے ساختہ مسکرائی۔ اس کی مسکراہٹ میں معصومیت اور فرماں بردار بیٹیوں جیسا اثبات تھا، کہنے لگی فکر نہ کریں جیناب، نہاد جب تک اپنی کہانی سنا نہیں لیتا، میں آپ کے ساتھ ہوں۔
"حرکت ایدیک(Hereket edek)"۔ نہاد نے کسی چست بڈھے کی طرح تیزی سے اٹھتے ہوئے کہا تو مایا نے مسکراتے ہوئے ترجمانی کی کہ یہ کہہ رہے کہ چلیں، جب اس نے Lets moveکے الفاظ بولے توآذربائیجانی تھوڑی اور آسان ہوگئی، ایدیک کامطلب کچھ بھی ہو گا، Hereket کا لفظ آسانی کے ساتھ سمجھ میں آگیا، ہم لوگ بھی "حرکت" میں آگئے۔ نہاد کا ارادہ قریب میں کسی آرٹسٹ کے اسٹوڈیو میں جانے کا تھا۔ میرا بس چلے تو میں تمھیں میر تیمور سے ملواؤں۔
یہ میرتیمور کون ہیں؟ اس سوال کا جواب کچھ مختصر نہ تھا، بس یوں سمجھ لیجیے کہ کوئی غیر ملکی ہم پاکستانیوں سے پاکستان کے سب سے بڑے مصور کے بارے میں پوچھے تو بلاتاخیر ہمارے منہ سے نکلے کہ صادقین یا گل جی۔ یوں سمجھ لیجیے کہ میر تیمور آذربائیجان کے بڑے مصوروں اور فن کاروں میں ایک ہیں، چلیے، یہ تو خوب ہو گیا کہ اس دیس کے سب سے بڑے مصور سے ملنے کا موقع مل رہا ہے۔
ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ہم ایک اسٹوڈیوز میں داخل ہوگئے۔ میر تیمور کی تلاش میں ؛ میں نے نگاہ ادھر ادھر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ وہ ایک مصروف آدمی ہیں، ان سے ملنا کچھ ایسا آسان بھی نہیں۔ دوسری بات یہ کھلی کہ ہمارے نہاد صاحب کی زبان پر ان کا نام چڑھا ہوا ہے جب بھی کسی مصور کا ذکر ہوتاہے، ان کے منہ سے میر تیمور ہی نکلتا ہے۔
اسٹوڈیو زمیں مصوری کے چھوٹے بڑے نمونوں، رنگوں اور کینوسوں کی دنیا آباد تھی، نہاد مجھے لیے آگے بڑھے اور ایک تصویر کی طرف اشارہ کیا، گزگلاسی (میڈن ٹاور)کے سائے میں سرخ بالوں والی حسینہ ایک ادا سے کھڑی تھی اور بحرگیلان (Caspian) اٹھنے والی تیز ہواؤں میں اس کے بال کسی پرچم کی طرح لہراتے تھے۔"یہی ہے، یہی ہے، اس شہر کی وہ جی دار بیٹی جس نے اپنی ذہانت، بہادری اور جی داری سے باکو پر اچانک سے آپڑنے والی افتاد کا منہ موڑ دیا تھا۔ سرخ بالوں والی، اس کا ماحول اور رنگوں کا انتخاب جانا پہچانا نکلا، یہ کوئی مغل منی ایچر جیسی مصوری تھی۔