یہاں ہم ہیں کہ افغانستان کے غم میں ہلکان ہوئے کشکول اٹھائے صدائیں لگارہے ہیں کہ "دے جا سخیا راہِ خدا"۔اس لئے دے جا کہ افغانستان میں انسانی المیہ جنم لینے کو ہے۔ خوراک کی کمی ہے، ادویات ناپید ہیں لیکن دوسری طرف افغانوں کی ہم سے "محبت" کا عالم یہ ہے کہ وہ اب بھی کالعدم ٹی ٹی پی کی حمایت و سرپرستی سے دستبردار نہیں ہوئے۔کچھ دن قبل افغان طالبان کی عبوری حکومت کے ایک ترجمان کفن پھاڑ کر بولے "پاکستانی نظام حکومت کفر پر مبنی ہے ہم نے افغانستان میں ایسے ہی کافرانہ نظام کے خلاف بیس سال جدوجہد کی تھی"۔سانپ سونگھ گیا، ہمارے عظیم محب وطنوں اور حب الوطنی کے مریضوں کو۔ وزارت خارجہ نے بھی چپ کا روزہ رکھ لیا۔ کوئی احتجاج نہ جواب طلبی، کیوں؟
جان کی امان رہے تو عرض کرو ہم نے تاریخ و تجربوں سے سبق سیکھا نہ ان گہرے گھاووں سے جو افغان جنگوں کی کوکھ سے پھوٹی عسکریت پسندی نے لگائے تھے۔افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد ہم محبان عبوری افغان حکومت کے طور پر سامنے آئے۔ دنیا بھر کی ناراضگی مول لی، اپنے لئے مسائل بھی پیدا کئے لیکن ریاست اور حکومت کا ہر چھوٹا بڑا افغان ترجمان کا کردار ادا کرنے میں جُت گیا۔
دوسری طرف صورتحال وہی ہے جو ہمیشہ ہوتی ہے۔ امریکی انخلا سے قبل کی افغان حکومت کے سابقین ہمیں صلواتیں سنارہے ہیں تو وقفے وقفے سے عبوری حکومت والے بھی "تبرے" کا ثواب کماتے ہیں۔ہم اپنی افغان پالیسی کے نئے دور کی محبت میں گردن تک دھنسے بس افغانوں کے برے حالات کا رونا رونے میں مصروف ہیں۔ کیا ہمارے پالیسی سازوں نے کبھی سوچنے کی زحمت کی ہے کہ چالیس اکتالیس برسوں کی اس افغان پالیسی کا صلہ کیا ملا؟خالص گھاٹے کا سودا تھا اور ہے ہماری افغان پالیسی۔ اصولی طور پر ہمیں اب انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر اپنے معاملات پر توجہ دینی چاہیے لیکن علاقائی تھانیدار کا "شوق" چین نہیں لینے دیتا۔
تمہید طویل ہوگئی لیکن پھر بھی ایک دو باتیں مزید عرض کرنا ضروری ہیں تاکہ کالم کے قارئین سمجھ سکیں کہ ان معروضات کا مقصد کیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تحریر نویس نے ہمیشہ علاقائی دوستی، خیر سگالی۔ بہتر سفارتکاری کی حمایت کی۔اب بھی یہی رائے ہے کہ پڑوسی نہیں بدلے جاسکتے۔ پاک بھارت پالیسی پر بات کرنے سے گریز اس لئے کرتا ہوں کہ دونوں طرف شدت پسند احمقوں کے غول دندناتے پھرتے ہیں۔ دونوں ریاستوں کا رزق ہی نفرت کے دھندے سے بندھا ہے۔
مٹھی بھر وہ لوگ جو دونوں اور کے لوگوں اور ریاستوں میں بہتر تعلقات کی آرزو رکھتے ہیں بدقسمتی سے دونوں طرف ان کی حب الوطنی مشکوک سمجھی جاتی ہے۔باقی کے تین پڑوسیوں چین، افغانستان اور ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات کیسے ہیں یہ درون سینہ راز نہیں۔ہمارے ایک فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں ان کے رفیق "خاص" جنرل حمید گل نے افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانے کی تحریری تجویز دی تھی تب بھی عرض کیا تھا کہ"محمود غزنوی بننے کی ضرورت نہیں، اعتدال پر مبنی تعلقات کی پالیسی اپنائیں۔ کسی ایک افغان گروپ کی محبت میں دوسرے گروپوں کو ناراض نہ کریں "۔
لیکن ہمارے "اصلی پالیسی سازوں " کو یہ زعم ہے کہ ان سے بڑا عقل مند روئے زمین پر کبھی پیدا نہیں ہوا اس لئے لازم ہے کہ ان کی ہر ہر بات کو آسمانی ہدایت کے طور پر لیا دیکھا سمجھا جائے۔نتیجہ کیا نکلا؟ اس سے سبھی واقف ہیں۔ اب بھی جب ہم طالبان کی عبوری حکومت کے لئے مرے جارہے ہیں اور آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں کہ افغان بھوک سے مررہے ہیں دنیا والو کچھ کرو تو، ادھر حالت یہ ہے کہ ہمارے لئے خیر کا کلمہ کہنے والا کوئی نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ عبوری افغان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد اب تک دوحا معاہدے سے انحراف کرتے ہوئے دیگر افغان گروپوں، خواتین، بچیوں کی تعلیم اور انسانی حقوق کے حوالے سے ناپسندیدہ اقدامات اٹھائے۔ اب تک لگ بھگ 21اہل دانش مردوخواتین اور 7 فنکاروں کا سفاکانہ طور پر قتل ہوا اور ان قتلوں میں عبوری حکومت کے کارندے شامل تھے مگر ہمارے ہاں سے سرکاری طور پر ایک آواز بھی مقتولین کے لئے نہیں اٹھائی گئی۔
اب تازہ ترین دو اطلاعات ہیں پہلی یہ کہ افغانستان کی عبوری حکومت نے پاکستان کو یقین دلایا تھا کہ افغان سرزمین سے شدت پسندوں کی پاکستان کی طرف نقل مکانی اور دراندازی دونوں کی حوصلہ شکنی کی جائے گی مگر عملی طور پر پچھلے چند ماہ کے دوران 10ہزار کے قریب عسکریت پسندوں کو مختلف اوقات میں سرحد پار کروایا گیا۔حال ہی میں افغان صوبے ننگرہار میں ولایت افغانستان کی انٹیلی جنس کے صوبائی سربراہ نے اپنی نگرانی میں پاک افغان سرحد پر لگی خاردار باڑ کو کٹوایا اور کالعدم ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی حوصلہ افزائی کی۔
دوسرا واقعہ مہمند ایجنسی کے علاقے میں ہوا جہاں در اندازی ہوئی اور اس دراندازی کو اپنا حق قرار دیتے ہوئے کہا گیا یہ تو ہماری سرزمین ہے۔ یہی نہیں بلکہ "اٹک تک ہمارا علاقہ ہے" والی بڑھک بھی ماری گئی۔ولایت افغانستان صوبہ ننگرہار کے انٹیلی جنس چیف نے سرحد سے باڑ اتروانے کے عمل کی نگرانی کی اور پھر موقع پر خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے نظام، ریاست اور ذمہ داروں کے بارے میں جو زبان استعمال کی وہ ویسی ہی ہے جیسی مودی سرکار کے ٹوڈی استعمال کرتے ہیں۔
سرحدی واقعات کا دفاع کرتے ہوئے افغان وزارت دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی کا کہنا ہے کہ "ہم نے پاکستان کو سرحد پر غیرقانونی باڑ لگانے سے روک دیا ہے اور یہ کہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے پاکستان ہمیں مجبور نہ کرے"۔لیجئے مزے کیجئے۔ مرے تھے جن کے لئے وہ وضو کرکے آگئے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر ہماری ایسی کون سی مجبوری ہے کہ ہم عبوری حکومت کو پال بھی رہے ہیں اور اس کی پاکستان دشمن پالیسیوں اور بعض حالیہ اقدامات پر خاموش بھی ہیں؟بجا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں مسائل ہیں۔ ہیں تو ہم کیا کریں۔ کیا عبوری حکومت کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ انخلاء کے لئے ہونے والے معاہدہ کی پاسداری کرتی اور اس کی شقوں پر عمل بھی؟
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم صاحب نے اسلامی وزرائے خارجہ کارنفرنس میں کئے گئے خطاب میں پشتون روایات کے برعکس بعض باتیں کہہ دیں کسی نے انہیں نہیں بتایا کہ تعلیم دشمنی پشتون روایت نہیں طالبان کی روایت ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پشتون روایات میں کبھی بھی بچیوں کی تعلیم کو غلط نہیں سمجھا گیا۔ہاں یہ ایک سوچ ضرور ہے اور وہ تو برصغیر کے غیرپشتونوں میں بھی کثرت سے پائی جاتی ہے۔
پاکستانی پشتونوں کے ایک عظیم رہنما خان عبدالغفار خان نے تو بچیوں کی تعلیم کے لئے باقاعدہ تحریک چلائی تھی۔ خیبر پختونخوا میں بچیوں کی تعلیم کے سکول اور کالجز اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ پشتون علم دوست ہیں۔خیر اس جملہ معترضہ کو اٹھارکھئے ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔
مہمند اور شمالی افغانستان کے صوبے ننگرہار کی طرف سے ہوئی طالبان گردی پر ہماری خاموشی کی وجہ کیا ہے؟ اصولی طور پر ہمیں اپنے ریاستی موقف اور پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔پچھلے چالیس برسوں کی ہر افغان حکومت نے مراعات اور سہولتیں حاصل کیں، آنکھیں دیکھائیں اور بدزبانی بھی کی۔
اس روش پر اب طالبان کی عبوری حکومت گامزن ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو اب تو لشکر پالنے کی پالیسی ترک کر کے اپنے ملکی اور قومی مفادات کو سامنے رکھنا چاہیے۔ آخر کب تک ہم اپنی غیرحقیقت پسندانہ افغان پالیسی کا دفاع کرتے رہیں گے؟