امر واقعہ یہ ہے کہ اس ملک کے سیاستدانوں، سیاسی جماعتوں اور ان کے ہمدردوں کی اکثریت نے ماضی سے سبق سیکھنے کی زحمت کی نہ عصری شعوری کے ساتھ اپنے مخالفین کے فکری رجحان پر گفتگو کرنے کا سلیقہ سیکھا۔
ہر دو خرابیوں کے نتائج ملکی سیاست اور نظام کی تاریخ میں درج ہیں ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ سیاسی قائدین منہ کھولنے سےقبل ان نتائج سے کاملاً آگاہی حاصل کرلیا کریں۔ سیاسی عمل کے حالیہ ماہ و سال میں سابق وزیراعظم عمران خان پر اکثر یہ تنقید ہوتی رہتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے مذہبی اصطلاحات کا سہارا لیتے ہیں اور ان کے ہمدرد ان کی باتوں کو "الہام" کا درجہ دے کر مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔
عمران خان کے رجحان، انداز تکلم، مذہبی اصطلاحات کے موقع بے موقع استعمال سے یقیناً مسائل جنم لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک بڑا حلقہ انہیں اس امر پر متوجہ کرتا رہتاہے کہ وہ تاریخ، ادیان، تاریخ اسلام اور مسلم سماج کی اسلامی اصطلاحات پر بات کرنے سے قبل خود بھی ان موضوعات یا کم از کم جو بات کہنی ہے اس کا سیاق و سباق جان لیا کریں۔
بدقسمتی سے غیرضروری گفتگو فقط عمران خان کا خاصہ نہیں بلکہ سیاسی عمل میں شریک ہر کس و ناکس بات کرنے کا موقع ملتے ہی ایسی غیرضروری گفتگو کرنے لگ جاتا ہے جس سے سماجی بگاڑ پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ لوگوں اور طبقات کے سماجی معمولات خطرے میں پڑجاتے ہیں۔
گزشتہ سے پیوستہ روز مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر بے محکمہ میاں جاوید لطیف نے سرکاری ٹی وی (پی ٹی وی) پر اہتمام کے ساتھ نشر کی جانے والی اپنی پریس کانفرنس میں عمران خان اور ان کے پونے چار برسوں پر محیط دور اقتدار کو آڑے ہاتھوں لیا۔
اگر معاملہ یہیں تک رہتا تو کوئی بات نہیں تھی ویسے بھی سیاستدان سوچے سمجھے بنا اپنے مخالفین کی درگت بنانے کا شوق پورا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھتے۔ بدقسمتی سے میاں جاوید لطیف نے اپنی پریس کانفرنس میں چند نامناسب بلکہ حقائق کے برعکس باتیں کرکے لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکانے کی کوشش کی۔
گو یہ پہلا موقع نہیں قبل ازیں (ن) لیگ اپنے پچھلے دور اقتدار کے آخری مہینوں کے دوران عمران خان کے خلاف مذہبی کارڈ کھیلتی دیکھائی دی تب بھی سنجیدہ فہم حلقوں کی رائے یہی تھی کہ یہ مہم غیرضروری ہے۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کے ذمہ داران عمران خان اور پی ٹی آئی کی جانب سے اپنی قیادت اور جماعت کے خلاف ختم نبوت کارڈ کھیلے جانے کو بطور حوالہ پیش کرکے اپنی مہم کے درست ہونے کا جواز پیش کرتے تھے۔
البتہ گزشتہ روز لیگی ایم این اے اور وفاقی وزیر نے جن خیالات کااظہار کیا ان پر حیرانی یا افسوس کے اظہار سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس رجحان کی سختی کے ساتھ مذمت کی جائے۔ لیگی وزیر نے عمران خان اور ان کی جماعت کے ساتھ ان کے دور اقتدار کو ایک خاص مذہبی طبقے کے سہولت کار کے طور پر پیش کرکے ایک ایسی آگ لگانے کی کوشش کی جو اگر خاکم بدہن بھڑک اٹھی تو کسی کا دامن اور گھر محفوظ نہیں رہے گا۔
یہ عرض کرنے میں امر مانع نہیں کہ لیگی وزیر کے خیالات سیاسی اختلاف سے عبارت نہیں بلکہ ذاتی نفرت میں گندھے ہوئے تھے۔ لایعنی باتوں سستی الزام تراشی اور مذہبی کارڈ کھیل کر انہوں نے نہ صرف عمران خان کی زندگی کے حوالے سے خطرات پیدا کئے بلکہ ایک مخصوص مذہبی طبقے کے لئے بھی سماجی عدم تحفظ میں خطرناک اضافے کا دروازہ کھول دیا ہے۔ یہ کہنا صریحاً غلط ہوگا کہ چونکہ عمران خان اپنی تقاریر اور بیانات میں مذہبی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں اس لئے انہیں جواب بھی ان کی زبان میں دیا جانا بنتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان مذہبی اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے اپنے مخالفین کی زندگیوں کو دائو پر لگاتے ہیں؟ جیسا کہ لیگی وزیر نے کیا۔
ہماری دانست میں ایسا ہرگز نہیں عمران خان مذہبی اصطلاحات کا استعمال اپنے دور اقتدار کی ناکامیوں اور پاکستان کے لئے مسائل پیدا کرنے والے اپنے اقدامات کی پردہ پوشی کے لئے کرتے ہیں۔ اس طور ہونا یہ چاہیے کہ ان کے مخالفین خصوصاً (ن) لیگ ان ناکامیوں اور ملک اور عوام پر بوجھ بننے والے اقدامات کی حقیقت سے عوام کو آگاہ کرے مگر ہو اس کے برعکس رہا ہے اس کا تازہ ثبوت لیگی وزیر میاں جاوید لطیف کی بدھ کے روز کی گئی پریس کانفرنس ہے جس میں انہوں نے نہ صرف عمران خان کے ایمان پر رکیک حملے کئے بلکہ اپنے تئیں یہ ثابت کرنے کی بھی پوری کوشش کی کہ دوسری آئینی ترمیم کے ذریعے مسلم سماج سے نکالے گئے ایک مذہبی گروپ کے لئے ان کی حکومت نے ایسے اقدامات کئے جو قانونی طور پر اس گروہ کا حق نہیں تھا۔
لیگی وزیر نے اپنی گفتگو کے ذریعے ملک میں بدامنی کو ہوا دینے اور عمران خان کے علاوہ ایک مذہبی گروہ کے لوگوں کے لئے عدم تحفظ کے خطرات بڑھانے کی کوشش کی۔ یہ کوشش غیرشعوری نہیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ لگتی ہے۔ اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ عمران خان کی کسی تقریر یا بیان کے جواب میں گھنٹہ بھر کے اندر 8، 8 پریس کانفرنسیں کرنے والے وفاقی حکومت کے ذمہ داران اپنے ساتھی وزیر کی غیرذمہ دارانہ گفتگو اور بھونڈی الزام تراشی پر خاموش ہیں۔
کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ عمران خان اور ایک مخصوص مذہبی گروہ کے لوگوں کی جان و مال کے لئے خطرات پیدا کرنے والی لایعنی گفتگو کسی حکومتی (وفاقی) منصوبے کا حصہ ہے؟ یقیناً ایسا نہیں ہوگا بلکہ یہ درفطنی وزیر موصوف نے خود چھوڑی اور یہ ان کے ساتھ ماضی میں پیش آئے ایک افسوسناک واقعہ کا ردعمل بھی ہوسکتا ہے۔
اس واقعہ کے حوالے سے وہ تحریک انصاف اور ایک مذہبی تنظیم کے کارکنوں کو مورد الزام ٹھہراتے رہے ہیں۔
بہرطور معاملہ کچھ بھی رہا ہو، تلخ ترین حقیقت یہی ہے کہ لیگی وزیر نے پریس کانفرنس میں جو گفتگو کی وہ شرمناک حد تک قابل مذمت ہے محض یہی نہیں بلکہ اس غیرذمہ دارانہ گفتگو کو نشر کرنے کے لئے پی ٹی وی کو استعمال کرنا بھی قابل مذمت ہے۔ پی ٹی وی کسی جماعت کا نہیں بلکہ عوام کے ادا کردہ ٹیکس پر چلنے والا چینل ہے۔
ہماری رائے میں مناسب ترین بات یہ ہوگی کہ وفاقی حکومت لیگی وزیر کی عمران خان اور ایک مذہبی گروہ کے خلاف غیرذمہ دارانہ گفتگو سے برات کا اظہار کرے صرف یہی نہیں بلکہ میاں جاوید لطیف کو وزیر کے عہدے سے فوری طور پر برطرف کیا جائے اور حکمران اتحاد اس سارے معاملے میں اپنی پوزیشن بھی واضح کرے۔
اس سارے معاملے میں پیپلزپارٹی کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اتحادی جماعت سے وضاحت طلب کرنے کے ساتھ عوام کے سامنے اپنا موقف رکھے۔ عوام کا ایک بڑا طبقہ چند تحفظات کے باوجود پپلزپارٹی کو ایک سنٹرل لبرل جماعت سمجھتا ہے اسی لئے پیپلزپارٹی سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کو مخالفین کے خلاف مذہبی جذبات بھڑکانے سے روکے۔
ہم مکرر وزیراعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے درخواست کریں گے کہ وہ میاں جاوید لطیف کی غیرذمہ دارانہ پریس کانفرنس کا نوٹس لیں اور ان سے دریافت کریں کہ انہوں نے دستور پاکستان میں دی گئی مذہبی و شہری آزادیوں کے برعکس گفتگو کرکے بدامنی کو ہوا دینے کی کوشش کیوں کی۔
ہم اس امر کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی غیرذمہ دارانہ پریس کانفرنس کے نتیجے میں ملک میں کوئی افسوسناک واقعہ رونما ہوگیا تو اس کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر ہی عائد ہوگی۔