Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Kuch Mazeed Talk O Sheeren Yaadein (4)

Kuch Mazeed Talk O Sheeren Yaadein (4)

عبدالواحد یوسفی صاحب مرحوم، روزنامہ "آج" پشاور کے بانی چیف ایڈیٹر تھے۔ "آج" کی اشاعت کے آغاز سے قبل وہ این پی ٹی کے زیراہتمام شائع ہونے والے روزنامہ "مشرق" پشاور میں مختلف منصبوں پر طویل عرصے تک فرائض ادا کرتے رہے۔ انہوں نے این پی ٹی کی گولڈن شیک ہینڈ سکیم کے تحت مشرق سے رخصت لی اور پھر روزنامہ "آج" کی باضابطہ اشاعت کا آغاز کیا۔

"مشرق" کے این پی ٹی والے برسوں میں ہم اکٹھے کام کرچکے تھے اس لئے جب میں لاہور سے ٹرانسفر ہوکر پشاور گیا تو غالباً دوسرے یا تیسرے دن ان کا ٹیلیفون آیا خیروعافیت دریافت کرنے کے بعد کہنے لگے شاہ جی پشاور میں پریشان نہیں ہونا کوئی مسئلہ ہو میں حاضر ہوں

اس پر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ روزنامہ "مشرق" پشاور سے منسلک رہنے کے ان ماہ و سال پر الگ سے لکھوں گا جو لاہور میں بیورو آفس یا پھر پشاور میں بیتائے فی الوقت اس کالم میں روزنامہ "آج" سے منسلک رہنے کے عرصے اور پھر لاہور دفتر تبادلے بارے میں یادیں تازہ کرتے ہیں۔

"میدان" سے الگ ہوکر "آج" سے منسلک ہوتے ہی ایک ماہ کی رخصت مل گئی تو اگلے ایک دو دنوں میں واپس گھر آگیا۔ جولائی 2000ء کے پہلے دن پشاور پہنچ کر اپنے فرائ، ض سنبھال لئے۔ رہائش کے لئے برادرم آصف قیوم کے ہاں انتظام ہوگیا۔

آصف قیوم خیبر بازار میں پبلک آرٹ پریس کی بالائی منزل کے فلیٹ میں مقیم تھے غالباً اب بھی وہیں مقیم ہیں وہ بھی ہمارے این پی ٹی کے زمانے کے ساتھیوں میں سے ہیں ان سے تعارف گو پہلے سے تھا۔

بڑے ہنس مکھ، یار باش، دریادل اور مہمان نواز ہیں۔ صوبہ سرحد (تب۔ اب خیبر پختونخوا) کے دو سابق وزرائے اعلیٰ مرحوم نصراللہ خٹک اور میجر (ر) آفتاب احمد شیرپائو کے سیکرٹری کے طور پر فرائض ادا کرتے رہے۔

بعدازاں انہوں نے این پی ٹی (نیشنل پریس ٹرسٹ) کے انتظامی عملے میں شمولیت اختیار کرلی۔ این پی ٹی کے دور اور نجکاری کے بعد بھی طویل عرصے تک "مشرق" پشاور کے جنرل منیجر رہے۔ "مشرق" میں این پی ٹی اور نجکاری کے بعد کے دور میں ہم نے کئی برس تک اکٹھے کام کیا۔

میں جب "آج" سے منسلک ہوا تو برادرم آصف قیوم روزنامہ "آج" میں جنرل منیجر کے طور پر فرائض سنبھالے ہوئے تھے ان کی سب سے اعلیٰ خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے فرائض منصبی میں ایسے فنا ہوتے کہ لگتا تھا "جہاد" کررہے ہیں۔

ہم بے تکلف دوست انہیں گورکھا رجمنٹ کا گمشدہ بریگیڈیئر کہا کرتے تھے۔

"مشرق" پشاور اور پھر "آج" سے منسلک رہنے کے عرصے میں ہم دونوں تقریباً ہر ویک اینڈ پر اپنے مشترکہ دوست سابق وزیراعلیٰ نصراللہ خٹک (مرحوم) کے پاس چلے جاتے۔ نصراللہ خٹک نے نوشہرہ شہر سے دو تین کلومیٹر باہر مانکی شریف روڈ پر پہاڑوں میں خوبصورت گھر بنواکر جنگل میں منگل کا سماں بنارکھا تھا۔ نصراللہ خٹک، ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں صوبے کے وزیراعلیٰ رہ چکے تھے۔

وہ بھٹو صاحب کے ایک بڑے بھائی سکندر علی بھٹو (مرحوم) کے کلاس فیلو تھے اس ناطے ان کے بھٹو صاحب سے ذاتی مراسم بھی تھے۔

ویک اینڈ پر جب ہم ان کے پہاڑی گھر پر جاتے تو خوب مجلس جمتی تھی۔

نصراللہ خٹک پاکستانی سیاست کی زندہ تاریخ تھے۔ مجھ ایسے طالب علم نے ان کی یادوں سے خوب استفادہ کیا۔

"آج" میں دفتری فرائض (اداریہ نویسی اور کالم لکھنے) کی ادائیگی کے بعد پشاور کی سیاسی سماجی اور ادبی مجلسوں میں شرکت اور دوستوں سے ملاقاتوں کے سلسلے کا دوبارہ سے آغاز ہوگیا۔

میں نے یکم جولائی کو "آج" میں فرائض کی ادائیگی کا آغاز کیا تھا اس کے دو تین دن بعد میں معروف صحافی ایم ریاض کے دفتر (وہ اس وقت رونامہ "نوائے وقت" کے پشاور میں بیوروچیف تھے) واقع صدر میں موجود تھا جب رحمت شاہ آفریدی کا لاہور سے ٹیلیفون موصول ہوا۔

وہ غالباً اس دن عدالتی پیشی کے لئے جیل سے کچہری آئے ہوئے تھے۔ انہیں ملال تھا کہ میں"میدان" سے الگ ہوکر "آج" سے منسلک ہوگیا ہوں۔ اصرار یہ تھا کہ فوراً بلکہ ابھی "آج" سے مستعفی ہوکر واپس "میدان" سے منسلک ہوجائوں۔

عرض کیا کہ حالات و واقعات اور آپ کے فرزندان کا حسن سلوک، ان میں سے کس بات سے آپ لاعلم ہیں پھر یہ کہ بالفرض واپسی ہو بھی جاتی ہے تو زندگی کیسے گزرے گی۔ ہم پہلے ہی بہت ذلت اٹھاچکے ہیں۔ بہرطور پندرہ بیس منٹ کے ٹیلیفونک مکالمے کا اختتام ہوگیا۔

اس مرحلے پر ایم ریاض جو ساری گفتگو سن رہے تھے بولے

" شاہ جی شکر ہے تم جذباتی نہیں ہوئے ورنہ تو میں ڈر گیا تھا کہ رحمت شاہ آفریدی جس طرح کربلا اور سادات کا ذکر کررہا تھا تم یہاں سے اٹھو گے اور "میدان" کے دفتر پہنچ کر سانس لو گے "۔ ایم ریاض کی اس بات پر ہم دونوں ہنس پڑے۔

میں نے کہا یار اس طرح کی جذباتی گفتگو اور مجاہدانہ ترغیب کے نتائج پہلے بھگت چکا ہوں اب خدائی فوجداری سے توبہ کرلی ہے۔

اس پر ایم ریاض نے کہ شاہ جی پہلے اوراب میں فرق ہے اب آپ ایک بیٹی کے باپ ہیں دوستیاں نبھائیں ضرور لیکن اپنے رزق کی قیمت پر بالکل نہیں۔

(میری نورالعین سیدہ فاطمہ حیدر اس وقت مشکل سے سات آٹھ ماہ کی تھی)۔

"آج" میں گزرے ایام جو کہ لگ بھگ سترہ اٹھارہ ماہ بنتے ہیں پہلے پشاور دفتر میں فرائض ادا کئے بعد میں لاہور ٹرانسفر کرالیا تھا۔ برادرم آصف قیوم نے ایسے خیال رکھا جیسے والدین اکلوتی اولاد کا خیال رکھتے ہیں۔

یوسفی صاحب (مرحوم) کے ساتھ چونکہ قبل ازیں"مشرق" میں کام کرچکا تھا اس لئے کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ ادارتی پالیسی میں آزادی روی تھی کالم ظاہر ہے تحریر نویس کے خیالات اور سیاسی پسندوناپسند سے عبارت ہوتے ہیں

ان دنوں ایک لطیفہ یہ ہوا کہ کسی کالم میں آفتاب شیرپائو کا نام میجر (ر) آفتاب احمد خان شیرپائو لکھ دیا تو وہ شاکی ہوگئے۔ اس میں شکوے والی بات تو نہیں تھی مگر ان کے دل میں برسوں سے گرہ پڑی ہوئی تھی

وہ اس امر کے خواہش مند تھے کہ میں ان کا انٹرویو کروں پتہ نہیں میں ان کی خواہش ٹال کیوں دیتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ چونکہ میری نصراللہ خٹک اور آصف قیوم سے دوستی ہے اس لئے میں انہیں نظرانداز کرتا ہوں۔

حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی بس مجھے ان کا متکبرانہ انداز کبھی پسند نہیں آیا۔ مجھے یاد ہے کہ "مشرق" پشاور کے دنوں میں، میں نے سابق وزیراعلیٰ نصراللہ خٹک کا انٹرویو سیاسی ایڈیشن میں شائع کیا تو آفتاب شیرپائو نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا

"حیدر نے محض ذاتی دوستی میں ایک مردہ سیاسی گھوڑے میں جان ڈال دی ہے"۔ مجھے آج بھی لگتا ہے کہ اپنے دوست کے لئے ان کے اس سطحی تبصرے نے میرے دل میں ان کے لئے گرہ ڈال دی تھی جو پھر کھل نہیں پائی۔

ان برسوں میں پشاور صدر میں واقع "کیفے خیبر" میں شہر کے معروف شاعروادیب اور اہل دانش کی نشستیں جمتی تھیں ایک آدھ دن کے وقفے سے ہم بھی طالب علم کے طور پر ان میں شرکت کرتے۔ مرحوم پروفیسر طحہ خان، پروفیسر ناصر علی سید، محترم سجاد بابر، اکمل نعیم، انور خان، بردارم سید منظر نقوی، خاطر غزنوی پروفیسر محسن احسان اور دیگر ادیبوں شاعروں اور اہل دانش سے "کیفے خیبر" میں خوب مجلسیں رہیں۔

مرحوم خاطر غزنوی اپنی قیام گاہ پر جو ادبی نشستیں منعقد کرواتے تھے ان میں شرکت کے لئے اصرار کے ساتھ دعوت دیتے۔ سجاد بابر اور نذیر تبسم بھی ہماری پشاوری یادوں کا روشن حصہ ہیں ہمارے یہ دونوں دوست بڑے وسیع مطالعہ او ادب نواز ہیں۔

پروفیسر ناصر علی سید کے فلیٹ پر جب دل چاہا طعام کے ساتھ بھرپور علمی و ادبی نشست رہی۔

یہ سطور لکھتے ہوئے "میدان" کے دنوں کا ایک دلچسپ تنازع یاد آگیا۔

ہوا یہ کہ ہم نے بینک اکائونٹس سے متعلق ایک سٹوری شائع کی اس پر خوب ہنگامہ برپا ہوا۔ اے این پی والے فرید طوفان تو سنبھالے نہیں جارہے تھے لگتا تھا کہ ابھی لشکر لے کر آئیں گے "میدان" کے دفتر کو فتح کرکے ہمیں جنگی قیدی بنالیں گے۔

اے این پی کی جانب سے ایک ارب روپے زرتلافی کا قانونی نوٹس بھی بھجوادیا گیا۔

اس پر میں نے اے این پی کے دوستوں سے کہا "میرے پاس تو ایک ارب افغانی روپیہ بھی نہیں پاکستانی کہاں سے لائوں"۔ خیر قبل اس کے کہ یہ تنازع مزید بڑھتا ہمارے لائق احترام بزرگ دوست حاجی غلام احمد بلور بیچ میں پڑے اور معاملہ رفع دفعہ ہونے کے ساتھ ایک ارب روپے زرتلافی والا نوٹس بھی واپس لے لیا گیا۔

تنازع کے ان دنوں میں ماسوائے فرید طوفان کے اے این پی کے کسی رہنما نے کوئی سطحی بات نہیں کی بلکہ سبھی نے روایتی پشتون وضعداری کا مظاہرہ کیا سکون کے ساتھ ہمارا موقف سنا اور تحمل کے ساتھ اپنی رائے دی۔ (جاری ہے)