امیر تیمور کو اسکندر اعظم کی طرح دنیا فتح کرنے کا شوق تھا۔ وہ آج کے ازبکستان سے اُٹھا اور مصر، شام، عراق اور ایران کو فتح کرتا ہوا ہندوستان تک آ پہنچا۔ جب تیمور نے ایران فتح کیا تو اُس نے فارسی کے مشہور شاعر حافظ شیرازی کو بلایا اور اُن کا ایک شعر دہرا کر پوچھا کہ کیا یہ آپ ہی نے کہا تھا کہ میں اپنے محبوب کے رخسار پر خوبصورت تل کے عوض ثمرقند اور بخارا کو قربان کر دوں گا؟ جواب میں حافظ شیرازی نے کہا "ہاں اے شاہِ شاہاں! یہ شعر میرا ہی ہے"۔ امیر تیمور نے فارسی کے اس عظیم شاعر کو کہا کہ میں نے تو تلوار کے زور پر بڑی مشکل سے ثمرقند کو فتح کیا تھا اور اُس کے بعد شہر پر شہر فتح کر رہا ہوں مگر تم تو اس ثمرقند کو شیراز کی کسی معمولی چھوکری کے رُخسار پر تل کی خاطر قربان کرنے کیلئے تیار ہو؟ حافظ چند لمحے خاموش رہے پھر مسکرا کر بولے "اے امیر! ایسی ہی غلطیوں کی وجہ سے آج افلاس کا شکار ہوں"۔ حافظ کی حاضر جوابی پر تیمور ہنس دیا اور شاعر کو انعام و اکرام دے کر رخصت کر دیا۔ تیمور صرف ایک جنگجو نہیں تھا بلکہ علم و ادب سے گہرا شغف رکھنے والا انسان تھا۔
ایران کو فتح کرنے سے قبل اُسے ایران کے شاعر حافظ شیرازی کے بہت سے اشعار یاد تھے۔ وہ خوشامدیوں کے ساتھ وقت ضائع کرنے کے بجائے اکثر اوقات ابنِ خلدون کے ساتھ بحث مباحثہ کرتا تھا۔ امیر تیمور چین فتح کرنے کی کوشش میں بیمار پڑا اور زندگی کی بازی ہار گیا لیکن مرنے سے پہلے اُس نے اپنی خود نوشت قلم بند کر لی جو "تزکِ تیموری" کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کتاب میں تیمور نے یہ دعویٰ کیا کہ اُس کی جنگ و جدل کا مقصد اللہ تعالیٰ کے دین اور شریعت محمدیؐ کو فروغ دینا تھا۔ اس دعوے سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے کیونکہ تیمور نے بہت سی جنگیں مسلمانوں کے خلاف لڑیں اور ہزاروں نہیں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا لیکن اس کتاب کے اندر تیمور نے اپنے تجربے کی روشنی میں حکمرانی کے کچھ اصول اور آداب بیان کئے ہیں، جو آج کے حکمرانوں کیلئے قابلِ غور ہیں۔
"تزکِ تیموری" میں کہا گیا ہے کہ اچھے حکمران کو ہمیشہ مشاورت اور دور اندیشی سے کام لینا چاہئے۔ دوستوں اور دشمنوں، دونوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہئے۔ نرمی، درگزر اور صبر و تحمل کو شعار بنانا چاہئے۔ تیمور نے لکھا کہ جو لوگ میرے وفادار رہے اور مشکل وقت میں میرے ساتھ کھڑے رہے میں نے ہمیشہ اُن کی خواہشات کا احترام کیا۔ میں نے عوام کو عدل و انصاف دیا۔ نہ تو عوام کے ساتھ زیادہ سختی کی کہ وہ مجھ سے ناراض ہو جائیں نہ اُنہیں اتنی آزادی دی کہ وہ بے قابو ہو جائیں۔ تیمور نے لکھا کہ میں نے ہمیشہ مظلوم کی مدد کی اور ظالم کو سزا دی۔ تیمور نے اُن لوگوں کو بھی معاف کر دیا جنہوں نے ہمیشہ اُس کے ساتھ بدعہدیاں کیں۔ تیمور لکھتا ہے کہ میں نے ہمیشہ علماء اور مشائخ کو اپنے قریب رکھا۔ میں شریر اور بدنفس لوگوں سے دور رہنے کی کوشش کرتا تھا۔ اپنی رعایا کے حالات سے باخبر رہنے کی کوشش کرتا تھا۔ تیمور نے بار بار لکھا کہ جس نے میرے ساتھ احسان کیا میں نے اُس کا بدلہ ضرور چکایا۔ تیمور نے ایک اہم بات لکھی کہ میں دشمن کی فوج کے ایسے سپاہیوں کی بڑی قدر کرتا تھا جو اپنے آقا کے ساتھ وفادار رہتے۔ اس کے برعکس جو سپاہی اپنے آقا کو دھوکہ دے کر میرے پاس آ جاتے تو میں اُنہیں اپنا بدترین دشمن سمجھتا تھا۔ تیمور نے لکھا ہے کہ ایک اچھے حکمران کا قول اُس کے فعل کے مطابق ہونا چاہئے، وہ جو قانون دوسروں پر نافذ کرے اُس کا خود بھی احترام کرے۔ اچھے حکمران کو مستقل مزاج ہونا چاہئے۔ وہ اپنے وزیروں کی کہی ہوئی باتوں کو آنکھیں بند کر کے تسلیم نہ کرے بلکہ اُن کی تفتیش کرے۔ اچھے حکمران کو کانوں کا کچا نہیں ہونا چاہئے۔
"تزکِ تیموری" میں امیر تیمور کہتا ہے کہ اچھے حکمران کو ایسے افراد کو وزیر بنانا چاہئے جو امورِ حکومت نیکی اور حسنِ سلوک سے چلائیں، نفاق کی باتیں نہ کریں، نہ کسی کو بُرا کہیں نہ کسی کی بُرائی سنیں۔ امیر تیمور ایسے وزیروں کو فارغ کر دیتا تھا جو زیادہ وقت دوسروں کی برائی کرتے تھے۔ وہ لکھتا ہے کہ کینہ پرور، حاسد اور غصیلا آدمی اگر وزیر ہو گا تو وہ کسی بھی وقت دشمن سے سازباز کر سکتا ہے لہٰذا نیک لوگوں کو وزیر بنانا چاہئے تاکہ خلقِ خدا کو فائدہ ہو۔ "تزکِ تیموری" پڑھتے پڑھتے میں سوچنے لگا کہ امیر تیمور نے اچھے حکمران اور اچھے وزیروں کی جو خصوصیات بیان کی ہیں یہ تو آج کل کے اندازِ حکمرانی کی مکمل ضد ہیں۔ ہمارے اکثر حکمران تو اہلِ علم کے بجائے اہلِ ستم میں گھرے رہتے ہیں۔ آج کے حکمرانوں کو وفادار نہیں بلکہ بے وفا لوگ پسند ہیں جنہیں پبلک لوٹا بھی کہتی ہے۔ ہمارے حکمران لوٹے کو اس کی اصل جگہ پر رکھنے کے بجائے سر پر رکھ لیتے ہیں اور اسی لئے لوٹوں والی سرکار کہلاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے کئی وزیر شکل سے ہی کینہ پرور نظر آتے ہیں۔ ہر وقت بُری بُری باتیں کہتے ہیں اور پھر اپوزیشن سے بُری بُری باتیں سنتے رہتے ہیں۔ امیر تیمور نے اچھے، نیک خصلت، بہادر اور وفادار لوگوں کو وزیر بنا کر اپنی سلطنت کو وسیع کیا۔ ہمارے حکمرانوں کی سلطنت اور اختیار روز بروز محدود ہو رہا ہے۔ بظاہر وہ پورے ملک کے وزیراعظم یا صدر کہلاتے ہیں لیکن اُن کا اختیار یا تو دارالحکومت میں ہوتا ہے یا ڈیڑھ دو صوبوں میں ہوتا ہے۔ باقی صوبوں میں کسی اور کی حکومت بن جاتی ہے اور وہاں کے حکمران بھی مرکز کے حکمرانوں سے مختلف نہیں ہوتے۔ سیاست کے تضادات اور محاذ آرائی کے باعث پھیلنے والی مایوسی نے نظام تبدیل کرنے کی تجویز کو پھر سے ابھارا ہے۔ یعنی ایک دفعہ پھر پارلیمانی نظام چھوڑ کر واپس صدارتی نظام کی طرف چلے جائو تاکہ مرکز کا حکمران آسانی کے ساتھ پورے ملک کا حکمران بن جائے۔ یہ تجویز دینے والوں کو سمجھنا چاہئے کہ محاذ آرائی اور مایوسی کی وجہ نظام نہیں بلکہ کچھ افراد ہیں جو آدابِ حکمرانی سے واقف نہیں لیکن حکمران بن بیٹھے ہیں۔ حافظ شیرازی تو اپنی محبوبہ کے تل کی خاطر ثمرقند اور بخارا قربان کرنے کیلئے تیار تھے لیکن ہمارے حکمران اپنی ذاتی اَنا کیلئے آئین کو قربان کرنے پر بھی تیار ہیں۔ امیر تیمور نے لکھا ہے کہ ذاتی اَنا کے اسیر حکمران کا انجام بہت بُرا ہوتا ہے۔