ایک طویل عدالتی کارروائی کے بعد 17دسمبر کو سابق فوجی حکمران ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو "غداری کا مجرم قرار دے کر سزائے موت" کا فیصلہ سنایا گیا۔ تین رکنی بینچ کا یہ فیصلہ دو کے مقابلے میں ایک کی منقسم رائے پر مشتمل ہے۔ مشرف کے خلاف یہ مقدمہ آئین پاکستان کی منسوخی اور بطور صدر 7نومبر 2007کو ایمرجنسی نافذ کرنے کی بنیاد پر چلایا گیا۔ اس اقدام کے بعد اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں میں کئی اہم ججوں کو گھروں میں نظر بند کیا گیا تھا۔
فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 6کو بنیاد بنایا گیا ہے جس کے مطابق:"کوئی بھی شخص جو طاقت کے استعمال یا طاقت سے یا دیگر غیر آئینی ذریعے سے دستور کی تنسیخ، تخریب کرے یا معطل کرے یا التواء میں رکھے یا اقدام کرے یا تنسیخ کی سازش کرے یا تخریب کرے یا معطل یا التوا میں رکھے سنگین غداری کا مجرم ہوگا۔" 1973کے غداری(سزا) ایکٹ کے مطابق اس جرم کی سزا موت یا عمر قید رکھی گئی ہے۔
مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کا آغاز 2013 میں نواز شریف کے دورِ اقتدار میں ہوا۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مشرف حکومت کی جانب سے نواز شریف اور ان کے خاندان کی کرپشن کے خلاف قانونی کارروائی کی کوششوں کا انتقام تھا۔ شریف خاندان معافی طلب کرکے کئی برسوں تک ملک سے باہر رہا۔ مشرف پر 2014میں فردِ جرم عائد کی گئی اور وہ 2016 میں علاج معالجے کے لیے بیرون ملک چلے گئے۔ وہ آج بھی ملک سے باہر ہیں۔
اس مقدمے کی کارروائی معمول کے مطابق بہت سست روی سے جاری رہی اور جو لوگ سزا دلوانے کے متمنی تھی انھوں نے مشرف کو ملک واپس لانے کی کوشش بھی کی لیکن مشرف کو آئین کی دفعہ 342کے تحت عدالت کے روبرو بیان دینے یا گواہ پیش کرنے کا موقع نہیں ملا۔ مشرف کے وکلائے صفائی نے ویڈیو کے ذریعے ملزم کا بیان لینے کی درخواست کی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ انھیں پاکستان واپس لایا جائے بصورت دیگر ان کا بیان نہیں لیا جائے گا۔ یہ فیصلہ نومبر 2019سے زیر التوا تھا۔
سزائے موت کے اس فیصلے سے متعلق عام طور پر دو طرح کے مؤقف سامنے آئے۔ ایک حمایت اور دوسرا مخالفت۔ حمایت کرنے والوں میں اپوزیشن اور سب سے زیادہ مسلم لیگ ن اور مذہبی جماعتیں پیش پیش ہیں۔ فوج اور تحریک انصاف نے اس کی مخالفت کی۔ اس فیصلے کی حمایت اور مخالفت میں پیش کیے گئے دلائل کیا ہیں؟ مسلم لیگ ن کے نزدیک سزا کا یہ فیصلہ ایک طرح سے نواز شریف اور ان کے خاندان کے ساتھ ہونے والی "ناانصافی" کا ازالہ کرتا ہے۔ مسلح افواج کے ایک رکن کو، جو ریٹائرڈ بھی ہوچکا ہے۔
وہ اپنی خوشی پر اس دلیل کا پردہ ڈال رہے ہیں کہ ملک میں کسی آمر کو توسزا ہوئی اور اس فیصلے سے مستقبل میں آئین کی معطلی اور مداخلت کا راستہ بند ہوجائے گا۔ مذہبی جماعتوں کی دلیل یہ ہے کہ "کوئی قانون سے بالاتر نہیں " یہ بات اسی وقت درست تسلیم کی جائے گی جب قانون کا نفاذ بھی منصفانہ انداز میں ہورہا ہو۔
کہا جاتا ہے کہ ملزم کے بیان کے بغیر قانونی کارروائی نامکمل ہوتی ہے۔ ماضی میں کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ عدالت کی پوری پوری سماعتیں ویڈیو لنک کے ذریعے ہوئیں اور کئی لوگوں نے بیرون ملک رہتے ہوئے ویڈیو کے ذریعے عدالت میں بیان دیے لیکن اس مقدمے میں اس کا امکان ہی مسترد کردیا گیا۔ ملزم کے بیان کی عدم دست یابی اس عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہوتی ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ نومبر 2007کے تباہ کُن اقدام میں شریک سبھی لوگوں کو کٹہرے میں لایا جاتا۔ لیکن ان کو اس مقدمے کے دائرے میں لانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی، ان پر بھی انصاف کے تقاضے لاگو ہونے چاہییے تھے۔ ان لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ خود ہی مشرف کے ساتھ آکر کیوں کھڑے نہیں ہوئے۔ اس میں دیگر لوگوں کے ملوث ہونے کی تحقیقات بھی ہونی چاہیے تھی۔
یہ دلیل بھی پیش کی جارہی ہے کہ دہائیوں سے ملکی سیاست پر فوج کو بالادستی حاصل ہے اور اس فیصلے سے صورت حال تبدیل ہوجائے گی۔ ایک معروف کالم نگار کی پیش کی گئی یہ دلیل نہ صرف غلط ہے بلکہ محض قصہ کہانی ہی ہے۔ اس بات کی واضح نشانیاں ہیں کہ فوج سویلین سیاست میں "آگے بڑھ کر قیادت کرنے" سے گریز کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے اور اس بات کے امکانات روشن ہیں کہ مشرف کو سزائے موت نہ بھی دی جائے تو اب ملک میں کبھی فوج اقتدار پر قبضہ نہیں کرے گی۔
ہمارے پڑوس میں بڑھتے خطرات اور سلامتی کی صورت حال کے باعث فوج اندرونی و بیرونی محاذ پر مصروف ہے۔ آصف زرداری اور نواز شریف کے ادوار میں کرپشن کو باقاعدہ ادارتی حیثیت حاصل ہوئی اور اسی کے باعث پھیلنے والی بدانتظامی اور بد نظمی سے پیدا ہونے والے خلا کو فوج کسی حد تک پُر کررہی ہے۔
اس فیصلے پر فوج اور تحریک انصاف کی ناراضگی بلا جواز نہیں۔ اٹارنی جنرل کے مطابق عدالتی کارروائی میں ملزم کو دفعہ 10اے کے تحت شفاف عدالتی کارروائی کو یقینی بنانا ضروری ہوتا ہے، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اپیل میں یہ فیصلہ منسوخ کردیا جائے گا۔ فوج اس لیے ناخوش ہے کہ ان کے اپنے ادارے سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کو مجرم قرار دیا جارہا ہے اور اسی لیے اس کی جانب سے دکھ اور اضطراب کا اظہار کیا گیا۔
میں آج بھی یہی سمجھتا ہوں کہ لیفٹیننٹ جنرل علی قلی خان خٹک کو آرمی چیف ہونا چاہیے تھا، انھیں میرٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان کے حق سے محروم رکھا گیا۔ اس فیصلے نے پاکستان کی تقدیر کا رُخ کسی اور ہی جانب موڑ دیا۔ مشرف کو بے وجہ علی کلی خان پر ترجیح دی گئی لیکن منصب سنبھالنے کے بعد بھی وہ ایک اچھے سپاہی اور اچھے انسان ہی رہے۔ اپنے پہلے تین برسوں میں انھوں نے کئی مثبت کام کیے جن میں نیب کا قیام اور میڈیاکو مکمل آزادی دی اور کسی حد تک اسے ایسی "کھلی چھٹی" دی جو دنیا میں میڈیا کوکہیں اور حاصل نہیں۔ جرمنی کے "کمانڈو ایکسٹرا اورڈنری" کرنل اوٹو وان اسکورزنی نے کہا تھا "سیاست فوجیوں کے لیے منحوس ہے" جب مشرف نے اقتدار میں رہنے کے لیے سیاست کرنا شروع کی تو بڑی غلطیاں کیں۔
اب اس کا تفصیلی فیصلہ بھی سامنے آچکا ہے اور ایک مرتبہ اسے مکمل پڑھ لینے کے بعد ہی اس پر قانونی اور معروضی رائے دینا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ تاہم سر دست تو فیصلے کے پیرا 66 میں لکھا گیا ہے:"ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ ہدایت جاری کرتے ہیں کہ سزا کو قانون کے مطابق یقینی بنانے کے لیے مفرور/ملزم کو گرفتار کرنے کی ہرممکن کوشش کی جائے اور اگر وہ مر جائے تو اس کی لاش گھسیٹ کر ڈی چوک، اسلام آباد پاکستان پر تین دن کے لیے لٹکا دی جائے۔"
مشرف کے خلاف مقدمے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیاہے جب پاکستان معیشت اور سیاسی استحکام کی راہ پر آچکا ہے۔ اس فیصلے سے فوج اور سویلین حکومت کے مابین توازن بگڑے گا۔ ملک کی سلامتی اسی توازن سے وابستہ ہے۔ کسی کو بھی مشرف اور ان کے اقدامات نا پسند ہوسکتے ہیں لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ پورا نظام ہی تلپٹ کردیا جائے۔ قانونی تقاضے پورے ہونے چاہیے۔ کسی بھی شخص کے مقدمے میں ناانصافی بے چینی اور بے اطمینانی اور ردّعمل کو ہوا دیتی ہے۔ بعض حلقوں کی رائے ہے کہ اس کے وہ نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں پاکستان جن کا متحمل نہیں اس فیصلے پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔ اب یہ عدلیہ کا کام ہے کہ وہ کیا کرتی ہے، چونکہ یہ عدلیہ کا معاملہ ہے اس لیے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں )