صدر ٹرمپ، صدر اشرف غنی اور طالبان نمائندگان کے کیمپ ڈیوڈ میں اتوار کو طے شدہ خفیہ مذاکرات کو ایک روز پہلے ہی منسوخ کردیا گیا۔ اس ملاقات کا مقصد، امریکا کے نمایندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اور طالبان کے مابین دوحہ میں تقریبا سال بھر جاری رہنے والے مذاکرات کے نتیجے میں سامنے آنے والے، امن معاہدے کے مسودے پر افغان صدر اور امریکی قیادت کے تحفظات دور کرنا تھا۔
اگرچہ امریکا کی قومی سلامتی کونسل، دفتر خارجہ اور پینٹاگون کے مابین ان مذاکرات پر اتفاق رائے نہیں پایا جاتا تھا، اس کے باوجود یہ سلسلہ جاری رہا۔ صدر ٹرمپ کی افغانستان سے امریکی انخلا کا وعدہ پورا کرنے کی شدید خواہش اس کا بنیادی محرک ہے۔ حکومتی عناصر کی بے دلی اور مزاحمت کے باوجود وہ بیس برس سے جاری اس جنگ کو ہر قیمت پر ختم کرنے کا تہیہ کرچکے ہیں۔ خلیل زاد اور طالبان کے مابین گفتگو کے نو دور ہوئے اور ہر مرحلے پر آگے بڑھنے سے قبل امریکی حکومت سے مشاورت کی گئی۔
اگلے برس ٹرمپ کو انتخابات کا سامنا ہوگا اور اس سے پہلے وہ طالبان کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں افغانستان سے امریکی فوج کا مکمل یا زیادہ سے زیادہ فوجیوں کا انخلا ممکن ہوجائے۔ ٹرمپ نے تنہا یہ اقدام کیا، ان کے نیٹو اتحادی، افغان حکومت یا حال ہی میں قریبی اتحادی بننے والا بھارت ان مذاکرات کا حصہ نہیں اگرچہ ان سب کو ہر پیش رفت سے آگاہ رکھا گیا۔ حال ہی میں جب افغان صدر اشرف غنی کو ممکنہ امن معاہدے کا ابتدائی مسودہ دکھایا گیا تو انھیں اس کی نقل اپنے پاس رکھنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جنھیں فیصلہ سازی کے عمل سے باہر رکھا گیا ان میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ جرمنی، جس کے افغانستان میں صرف دوسو پولیس اہلکار اور فوجی ہیں، افغانستان میں اپنے تمام منصوبوں پر کام روکنے کا فیصلہ کرچکا ہے اور اپنے اہل کاروں کی سلامتی کو درپیش خطرات کے پیش نظر ان کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو واپس بلا چکا ہے جب کہ اس کے زیادہ تر سپاہی شمالی افغانستان کے قدرے محفوظ علاقوں میں تعینات ہیں۔ دیگر نیٹو ارکان بھی شاید یہی طرز عمل اختیار کریں گے۔
مذاکرات میں اپنی سیاسی پوزیشن کو مزید مستحکم کرنے کی خاطر طالبان نے افغان حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے سرکاری عمارتوں پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں متعدد افغانوں اور غیر ملکیوں کا جانی نقصان ہوا۔ اسی دباؤ کے بل پر طالبان امن معاہدے کے مسودے میں اپنے کئی مطالبات شامل کروانے میں کام یاب رہے تاکہ اس سے یہ تاثر بھی پختہ ہو کہ امن کتنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ طالبان حالیہ حملوں سے دباؤکو شاید اس سطح پر لے گئے کہ امن مذاکرات ہی خطرے میں پڑ گئے۔
عارضی طور پر وہ قوتیں کام یاب ہوئی ہیں جو امن معاہدے سے ناخوش تھیں اور اس کے لیے ہونے والی کاوشوں کو بھی ناپسند کرتی تھیں۔ اشرف غنی اور ان کی حکومت کے بعد ایسی سب سے اہم قوت بھارت ہے۔ پاکستان سے اپنی شدید نفرت کے ساتھ بھارت گزشتہ دو دہائیوں سے افغان سرزمین کو پاکستان کے لیے "دوسرا محاذ" بنائے ہوئے ہے اور وقت آنے پر ہمیں دو طرفہ جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے۔ پاک افغان سرحد کے طور پر ڈیورنڈ لائن تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے پہلے ہی افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات پائے جاتے ہیں اور ایسے حالات میں بھارتی چالوں کے لیے فضا ہموار رہی۔
کئی برسوںسے بھارت کثیر تعداد میں سفارتی عملے اور انفرااسٹرکچر کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرکے افغانستان سے دوستی بڑھا رہا ہے۔ 1980کی دہائی میں افغانستان پر روسی قبضے کے دوران بھارت کو روس سے قربت کی بنا پر وہاں اپنا رسوخ پیدا کرنے کا موقعہ ملا۔ افغانستان میں بھارتی رسوخ کی قیمت سوویت یونین نے بخوشی اپنے فوجیوں کی جانوں اور اپنے وسائل سے چکائی۔ روسیوں کے انخلا کے بعد جب خانہ جنگی شروع ہوئی تو طالبان سے اچھے تعلقات اور قربت کی وجہ سے افغانستان میں پاکستان کا اثر بڑھتا گیا اور بھارت کے پاس سوائے کڑھنے کے اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
حالیہ دور میں اکتوبر 2001 میں جب پاکستان نے طالبان کی حمایت سے ہاتھ اٹھا کر اپنا وزن امریکا کے پلڑے میں ڈال دیا تو بھارت کے ہاتھ ایک اور موقع آگیا۔ ایک بار پھر وہی داستان دہرائی گئی، امریکا اور نیٹو نے افغانستان میں اپنی جانیں اور وسائل جھونک دیے اور بھارت نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ افغانستان میں بھارتی فوج کی براہ راست موجودگی کبھی نہیں رہی لیکن بھارتی فوج نے افغان فوج، پولیس اور سب سے بڑھ کر جاسوسی کے ادارے کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا اور افغان انٹیلی جینس تو درحقیقت بھارت کی آلہ کار ہے۔
افغانستان کی خفیہ ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی انٹیلی جینس عملاً "را" کا ذیلی ادارہ ہے۔ اشرف غنی کے مقابل امیدوار اور این ڈی ایس آئی کا سابق سربراہ امراﷲ صالح "بھارت" کا امیدوار ہے۔ ہزاروں بھارتی شہری افغانستان میں تعمیراتی کمپنیوں، بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے لیے کام کررہے ہیں اور اسی طرح سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں بھارتی سرکاری ملازمین کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے، یہ سب مل کر افغانستان میں بھارتی رسوخ کا دائرہ وسیع کررہے ہیں۔ افغانستان میں بھارت کے چاروں قونصل خانے جاسوسی کے اڈے ہیں جہاں سے بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو معاونت فراہم کی جاتی ہے۔
بھارت شعبۂ تعلیم کو بھی افغانستان میں قدم مضبوط کرنے کے لیے استعمال کررہا ہے۔ ہر سال بھارتی حکومت ایک ہزار افغان طلبا کو وظائف دیتی ہے، فن کار اور مصنفین کے لیے انڈیا افغانستان فاؤنڈیشن ایکسچینج پروگرام مرتب کرتی ہے اور چھوٹی موٹی گرانٹ بھی دیتی ہے۔ ایسے دیگر تعلیمی پروگرام افغانستان کی مختلف قومیتوں کی اشرافیہ میں بھارتی اثر و رسوخ پیدا کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ افغان سرکاری ملازمین کو بھارت کے سرکاری تربیتی اداروں میں ہفتوں اور مہینوں تربیت دی جاتی ہے۔ اس حکمت عملی کی کامیابی کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ "فارن پالیسی" جرنل کے مطابق کابل سے قندھار تک بالخصوص پشتونوں میں انڈیا سے متعلق پائے جانے والا تاثر جاننے کی کوشش کی گئی تو یہ بات سامنے آئی کہ "پختون اپنی سرزمین پر افغان معیشت و معاشرت کی تعمیر نو میں بھارت کے غیر معمولی کردار کے حامی ہیں۔ " یہ ایک تشویش ناک بات ہے۔
امریکا نے جب امن مذاکرات کا آغاز کیا تو بھارت نے بھی غور و فکر شروع کردیا تھا کہ امن معاہدہ ہونے اور مستقبل کی افغان حکومت میں طالبان کو بڑا حصہ ملنے کی صورت میں افغانستان میں ان کا مستقبل کیا ہوگا۔ کیوں کہ نہ تو بھارت کا طالبان سے کبھی کوئی رابطہ رہا اور نہ ہی طالبان بھارتیوں کو پسند کرتے ہیں۔
اسی لیے بھارت نے تیزی سے آپشن تلاش کرنا شروع کیا اور افغانوں کے زیر اثر پشتون علاقوں میں قوم پرستوں سے بات چیت کا آغاز کیا۔ بعض تجزیہ کار اس کی تعبیر یہ کرتے ہیں کہ بھارت نے طالبان سے گفتگو کے دروازے بند رکھنے کی پالیسی میں تبدیلی کے لیے یہ راہ نکالی۔ جنوری 2010میں ہونے والی لندن کانفرنس میں امریکا اور نیٹو افغانستان کے سیاسی حل میں طالبان کو شامل کرنے کے لیے آمادہ ہوئے تو بھارت نے بھی اپنی رفتار بڑھا دی۔ امریکا اور طالبان کے مابین جاری مذاکرات میں آنے والے تعطل سے بھارت کو وقتی فائدہ تو ہوسکتا ہے لیکن امریکی انتظامیہ، دفتر خارجہ، قومی سلامتی کونسل اور پینٹا گون کے مابین پایا جانے والا عدم اتفاق امن عمل کی راہ میں اصل رکاوٹ ہے۔
جوہن بولٹن ایسے کسی بھی معاہدے کے شدید ترین مخالف تھے۔ انھوں نے ہر معاملے میں پاکستان کی کھلی مخالفت کی لیکن امریکا کے کہنہ مشق سفارت کار ان سے محتاط رہے۔ قومی سلامتی کونسل کے لیے بولٹن کی چنیدہ لیزا کرٹس پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی میں ہم آواز رہیں۔ مذاکرات مؤخر کروا کر بولٹن نے وقتی طور پر تو ٹرمپ کو دام میں لے لیا لیکن بولٹن کا مستعفیٰ ہونے سے امن معاہدے کے شدت کے ساتھ خواہش مند ٹرمپ کے ردعمل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یقیناً امریکی صدر مذاکرات کے التوا کے اگلی صبح بہت غصے میں ہوں گے۔ مذاکرات کے ازسر نو آغاز کا انحصار اب ٹرمپ پر ہے لیکن بھارت کا اضطراب دیدنی ہے کہ کہیں مزید تاخیر کے بجائے معاملہ جلد ہی نہ نمٹا دیا جائے۔
(کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)