کرپشن اور اقرباء پروری کے جن خطرات کی نشان دہی بانیٔ پاکستان قائد اعظم نے کی تھی، گزرتے وقت کے ساتھ نہ صرف ان کا تسلسل برقرار رہا بلکہ ان کے مختلف حربوں کو قانونی تحفظ اور جواز بھی فراہم کردیے گئے۔ آج ہر کوئی بظاہر اس بات کا قائل نظر آتا ہے کہ کوئی بھی اپنے عہدے سے فوائد حاصل کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
جوابدہی کے غیرمؤثر نظام نے حکومتی اداروں اور کاروباری حلقوں میں ایسے طرز فکر کو فروغ دیا ہے جس کے مطابق کرپشن کو معمول کی بات تصور کیا جاتا ہے بلکہ اس کے لیے مزید آزادی کا مطالبہ بھی ہوتا ہے۔ موجودہ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث یہ اس قدر بے توقیر ہوچکے ہیں کہ ان کا نفاذ ناممکن دکھائی دیتا ہے کیوں کہ جن کے ہاتھوں ان قوانین کا نفاذ ہونا تھا ان کے شیطانی دماغ ان قوانین ہی کو مال بنانے کا سب سے بڑا آلہ بنا چکے ہیں۔ کم ٹیکس وصولیوں ہی کا مسئلہ دیکھیے جس کی وجہ سے پاکستانی ریاست اپنے اخراجات پورے نہ ہونے کے باعث قرضے یا امداد طلب کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔
کرپشن کا زہر اس شدت سے سرائیت کرچکا ہے کہ ریاست کی بقا کا سوال پیدا ہوچکا ہے اور اب یہ قومی سلامتی کا معاملہ بن چکی ہے۔ گزشتہ بیس برسوں کے دوران احتساب کی کئی کوششیں ہوئیں۔ عمران خان کی حکومت نے پہلی بار اس سلسلے میں قابل اعتماد اقدامات کیے ہیں۔ معیشت سست روی کا شکار ہوچکی ہے۔ معیشت کے گرد جکڑے بدنظمی، کرپشن اور بلیک میلنگ کے شکنجے کو توڑ کر ہی حالات میں کوئی بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔
دنیا کی اکثریت خوشی خوشی ٹیکس نہیں دیتی لیکن وہاں اس بات کی اہمیت کا بھی ادراک ہے کہ ملک و معاشرہ ٹیکس ادائیگی کے بغیر جسم و جان کا رشتہ کیسے برقرار رکھ سکتا ہے؟ اسی لیے دنیا کے اکثر ممالک کے عوام صحت عامہ، تعلیم، سماجی تحفظ اور روزگار کے مواقع کے لیے ٹیکس دیتے ہیں، مختصر یہ کہ وہ اپنا ملک چلانے کے لیے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں ایسا نہیں! ناکافی ٹیکس وصولیوں کی وجہ سے ریاستی امور چلانے کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے جی ڈی پی کا نصف اور کبھی اس سے بھی زائد قرض کی ادائیگیوں میں چلا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے امیر کبیر بھی ہیں جو دولت کے انبار رکھتے ہیں لیکن چند سو یا ہزار سے زائد ٹیکس ادا کرنے کے روادار نہیں۔
ایک جج کی ویڈیوز منظر عام پر لاکر اسے بدنام کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ بلیک میل کرنے کے یہ حربے کرپشن اور منی لانڈرنگ کی طرح جرم ہے ایسا کرنے والے اس کی سزا بھگت رہے ہیں لیکن کسی نے اس پر سوال نہیں اٹھایا۔ یہ کیسی " مشترکہ کھاتے کی قومی قیادت" ہے جو ملکی عدالتوں کو بدنام اور بے آبرو کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی؟
ہر شخص اپنے خلاف شواہد کو مسترد کرنے کا پورا حق رکھتا ہے لیکن ملکی عدالتوں کے وقار کو مجروح کرنے اور انھیں غیر مؤثر بنانے کے لیے بلیک میل کرکے یا اس کی کوشش کرکے کیسی مثال قائم کی گئی ہے؟ کیا بلیک میلنگ کے لیے ویڈیوز بنانا قانونی کام ہے؟ کیا اس طرح ماتحت عدالتوں کو تابعِ فرمان بنانے کی کوشش کی گئی؟ حال ہی میں وزیر اعظم نے کہا ہے کہ چور لٹیرے اپنے اربوں کی دولت کو محفوظ بنانے کے لیے ایسے ہی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔
جھوٹی گواہی یا عدالتوں میں غلط بیانی کاجرم پاکستان میں بہت عام ہے۔ یہ جرم اس لیے بہت سنگین ہے کہ یہ عدالت اور ملکی قوانین کے حقیقی مقصد یعنی عوام اور سماج کو انصاف کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب آصف سعید کھوسہ کے پورے دور میں جھوٹی گواہی کے خلاف سزائیں اور قوانین ان کی کوششوں کا مرکزی نقطہ رہا۔ انھوں نے اس سنگین جرم کے خلاف برسوں سے موجود غیر مؤثر قوانین کا احیا کیا۔
بجلی کے کھمبوں پر انٹرنیٹ کی کیبلز کا معاملہ بھی اس کی ایک مثال ہے۔ دنیا میں کہیں بجلی کے کھمبوں پر انٹر نیٹ کے تاروں کی اجازت نہیں دی جاتی۔ یہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔ برسات کے دوران جب ان تاروں کی وجہ سے کرنٹ لگنے کے حادثات پیش آتے ہیں اور حکام بجلی کے کھمبوں سے انھیں اتارنے کی کوشش کرتے ہیں تو پورے ملک میں ٹی وی اور انٹرنیٹ بند کرنے کی دھمکیاں ملتی ہیں۔
انتظامیہ ان دھمکیوں کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ پاکستان میں کئی قسم کے مافیا ہیں جن میں بجری مافیا، پانی مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا، انٹرنیٹ کیبل مافیا، کنڈا مافیا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب رشوت ستانی، دھمکیوں، بلیک میلنگ اور عدلیہ و ریاستی اداروں پر دباؤ ڈالنے جیسے حربے استعمال کرتے ہیں۔ یاد کیجیے جب نیب نے احد چیمہ پر ہاتھ ڈالا تو کس طرح بیوروکریسی میں بغاوت کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی؟ اور موجودہ صورت حال میں بیوروکریسی کی سست روی کو بھی کیا ایسا ہی حربہ نہیں کہا جاسکتا؟
قوانین و ضوابط سے متعلق عمومی طور پر برتے جانے والے غیر ذمے دارانہ اور مجرمانہ طرزِ عمل کی کئی اور مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ بعض مرتبہ یہ مجرمانہ غفلت بین الاقوامی سطح پر بھی اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔ کراچی کی تاجر برادری سے اپنی ایک حالیہ ملاقات میں چینی سفیر نے اس بات کی نشان دہی کی کہ کس طرح پاکستانی تاجروں کی انڈر انوائسنگ کی عادت کے باعث پاکستان اور چین کے تجارتی ڈیٹا میں تفاوت پایا گیا اور تجارت کی گئی اشیا کی قیمتوں سے متعلق دونوں ممالک میں الگ الگ ریکارڈ سامنے آیا۔ ایسے حقائق دونوں ممالک کے کاروباری اور انسانی سطح کے تعلقات میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اپنے واجب الادا ٹیکسوں کی ادائیگی انڈر انوائسنگ کرنے والوں کے پیش نظر نہیں رہی ہوگی۔
اپنے ملک کی بڑی کاروباری شخصیات ہی کی مثال لیجیے جو ٹیکس چوری اور قرضوں کی عدم ادائیگی کے خلاف نیب کی تحقیقات کی شکایت لگانے آرمی چیف کے پاس پہنچ گئے۔ نیب کا ادارہ جب سے قائم ہوا اس نے سب سے زیادہ پیسہ بزنس مین، صنعت کاروں اور سیاست دانوں وغیرہ سے بازیاب کروایا ہے۔
ان میں سے زیادہ تر قرضے واپس کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور یہ قرضے مالیاتی اداروں سے جعلی دستاویزات کی بنیاد پر حاصل کیے گئے تھے۔ اس کے بعد سب سے زیادہ بازیابی کمرشل اشرافیہ کے نادہندگان سے ہوئی۔ کیا ہم دوبارہ پچھلے وقتوں میں جانا چاہتے ہیں؟ نیب کے سربراہ بیان دے چکے ہیں کہ اب ادارہ بزنس کمیونٹی کا تعاقب نہیں کرے گا۔ کیا ہمارا موجودہ نظام وائٹ کالر جرائم کا مقابلہ کرنے میں مؤثر ثابت ہوا ہے اور کیوں یہ لوگ احتساب کے عمل پر اثرانداز ہوکر ریاستی وسائل کو لوٹنے کی کھلی چھٹی چاہتے ہیں؟
اس بلیک میلنگ سے ریاست اپنی آمدن سے محروم ہورہی ہے اور یہ طرزِ عمل پاکستان کے اقتصادی، سیاسی اور اخلاقی عدم استحکام کو تیز تر کررہا ہے۔ ملک، اس کی معیشت، معاشرتی اخلاقیات اور ہماری آیندہ نسلیں اس بلیک میلنگ کی زد پر ہیں۔ بجلی اور انٹرنیٹ کی بندش سے قومی سلامتی کے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ بااختیار عہدے داروں، حکام، تاجروں اور ملازمین کے انفرادی رویوں میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ آئین کی شق 62اور 63 کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے والے کے لیے لازم کرتی ہے کہ اسے صادق اور امین ہونا چاہیے۔ کیا ہم سب کے لیے بھی یہی معیار نہیں ہونا چاہیے؟
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں )