سی پیک پاکستان کے لیے مختلف انفرا اسٹرکچرز پر مشتمل ایک میگاپراجیکٹ ہیں، جس کا موجودہ تخمینہ 45 بلین ڈالر اور حتمی تخمینہ 62 بلین ڈالر ہے۔ تمام منصوبوں کو باہم جوڑنے کے لیے گوادر پورٹ کومرکزی حب ٹھہرایا گیا۔ 2016 میں شروع ہونے والے اس منصوبے میں چینی سامان تجارت افریقہ اور مغربی ایشیا بھیجا گیا۔ 11 بلین ڈالرز کے پراجیکٹس گوادر پورٹ کو کاشغر کی بندرگاہ اور بعد ازاں وسطی ایشیا اور مشرق میں چین کی دیگر بندرگاہوں سے جوڑ دیتے ہیں۔
مشرقی روٹ میں کراچی اور لاہور کے مابین موجود 1152کلومیٹر طویل ہائی وے کو اپ گریڈکرنے اور اسے شاہراہ قراقرم سے جوڑنے کا منصوبہ شامل ہے، جو بعد ازاں درہ خنجراب کے مقام پر چین سے جڑ جاتی ہے۔ جب کہ مغربی روٹ گوادر کوڈی ای خان، حسن ابدال اور پھر شاہراہ قراقرم سے ملادیتا ہے۔
توانائی کے منصوبوں اورانفرااسٹرکچر میں 33 بلین ڈالر کے بجلی کے پلانٹس اور ٹرانسمیشن لائنز شامل ہیں۔ یہ بجلی فوسل فیول سے پیدا کی جائے گی، مگر اس کے لیے ہائیڈرو، سولر اور ونڈ انرجی کو بھی استعمال کیا جائے گا۔ ابتدائی منصوبے چار ہزار میگا واٹ کے تھے، جن میں چھ ہزار میگا واٹ کے منصوبوں کا 2018-19 میں اضافہ کیا گیا۔ ملک کے مختلف حصوں میں خصوصی اکانومک زونز(SEZ)قائم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی، جن میں سے تین کی پہلے مرحلے میں فیصل آباد، دھابے جی اور حطار میں شناخت ہوئی۔ ان SEZ میں چینی سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کے لیے ٹیکس اور دیگر حوالوں سے رعایتیں دی جائیں گی۔
اپنی تقریر میں ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ چین کے پیش نظر بی آر آئی اور سی پیک سے متعلق مندرجہ ذیل مقاصد ہیں۔ ۱ـ: چین کی برآمدات کو بڑھاتے ہوئے ایشیا اور یورپ کے مختلف حصوں تک رسائی حاصل کرنا۔ ۲: مغربی چین کی ترقی، مرکزی چین سے اس کی معیشت کو ہم آہنگ کرنا، سنکیانگ، تبت اور شنگھائی کے لیے مغربی ڈیویلپمنٹ پلان مکمل کرنا۔ ۳:چین کے موجودہ بحری تجارتی راستے کا متبادل پیش کرنا۔ چین کے زیر استعمال 60فی صد آئل مڈل ایسٹ، بالخصوص شنگھائی اور تیانجن کی مشرقی بندرگاہوں کے ذریعے آتا ہے۔ اس سڑک کی موجودہ طوالت گیارہ ہزار کلومیٹر ہے۔ گوادر سے کاشغر تک کا فاصلہ تین ہزار کلومیٹر ہے۔
وہاں سے تیانجن تک مزید چار ہزار کلومیٹر بنتا ہے۔ انھیں ملا لیا جائے، تب بھی فاصلہ موجودہ طوالت سے کم ہے۔ اس سے تجارتی لاگت خاصی گھٹ جاتی ہے۔ سی پیک سے حاصل ہونے والی مراعات کی منصفانہ تقسیم پر ایک بحث جاری ہے اور پر اس خدشات کچھ حد تک جائز ہیں۔ سی پیک سے اضافی آمدنی ہوگی۔ ایسے میں فلاحی معاشیات، قومی ہم آہنگی سے متعلق چند سوالات بڑے متعلقہ معلوم ہوتے ہیں۔ اس کی آمدنی اور افادیت کو کس طرح خطے اور عوام میں تقسیم کیا جائے۔
نئی ملازمتیں کسے ملیں گی؟ نئے انفرا اسٹرکچر کا پیسہ کہاں جائے گا؟ مختصراً اصل فائدہ کسے ہوگا۔ مثلاً، وہ ہزاروں ٹرک جو اشیاء کی ترسیل کریں گے، انھیں کون تیار کرے گا؟ کاروبار کو کیسے اور کس طرح مختص کیا جائے گا؟ ان ٹرکوں کا مالک کون ہوگا؟ ٹرک مالکان سے پیسہ معیشت کے باقی حصوں تک کیسے پہنچے گا؟ اور پھرکیا ہوگا، اگر تمام تر ٹرکوں کا تعلق ایک ریجن سے ہو؟ یا پھر فقط دو اداروں سے یا تین خاندانوں سے، یا چار وزیراعلیٰ سے؟ سی پیک کی طویل المدتی کامیابی کے لیے ملازمتیں، منافع، کاروباری معاہدے اور محصولات ضروری ہیں۔
ڈاکٹر شیخ نے اس موقع پر 60 کی دہائی میں پاکستان کی انکم گروتھ اور اس میں آنے والی گراوٹ کے ملک اور حکومت پر اثرات کا ذکر کیا۔ سی پیک کے لیے لیا جانے والا قرضہ انٹرسٹ کے ساتھ واپس کیا جائے گا۔ چین کی جانب سے عائد کیا جانے والا انٹرسٹ پراجیکٹس کی مناسبت سے ہے۔ گوادر پورٹ اور شہر کے لیے دیے جانے والے لون پرانٹرسٹ ریٹ صفر ہے۔ کئی انفرااسٹرکچرز کے لیے یہ ریٹ 1.4 سے 2.4 کے درمیان ہے۔
توانائی کے منصوبے، جن کی کمرشل اہمیت ہے، ان پر لون کا ریٹ پانچ سے چھ فی صد ہے۔ یہ قرضہ سو بلین ڈالر انٹرسٹ کے ساتھ 20 سال میں لوٹایا جائے گا۔ یعنی ہر سال چار سے پانچ بلین مختص کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس سے پاکستان کے بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوگا اورمجموعی طور پر مائیکرو معیشت پر زیادہ وزن پڑے گا۔ تنہائی کی شکار پاکستانی معیشت کے لیے برآمدات اور ایف ڈی آئی کی غیرمتاثر کن کارکردگی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ پراجیکٹ کا ڈیزائن، اس پر عمل درآمد اور خریداری اور ان کی ادائیگی کے لیے حکومتی انتظام موزوں ترین ہو۔ ڈاکٹر شیخ نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ہر کسی کو سی پیک نے یکساں طور پر متاثر نہیں کیا۔ لگ بھگ سوا برس قبل آئی بی اے کے تازہ تازہ تعینات سربراہ نے بھی سی پیک کو "تخیل کی اختراع" قرار دیا تھا۔ چند ممالک اپنے قومی، علاقائی اور عالمی مفادات کے لیے سی پیک کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ داخلی سطح پر ہونے والی مخالفت کا محرک سیاست، نظریہ، شکایات یا پھر پیسہ ہے۔
کچھ شہریوں کو قرضوں کی لاگت، فوائد کی یکساں تقسیم اور کسی ملک پر بہت زیادہ انحصارپر کافی خدشات ہیں۔ پاکستان جلسوں اور دھرنوں کا ملک ہے، جہاں رائے اخبارات اور ٹی وی پر آزادی سے دی جاتی ہے۔ الغرض پاکستان اور چین کے درمیان غلط فہمی پیدا ہونے کا وسیع امکان موجود ہے۔ ڈاکٹر شیخ کا کہنا تھا کہ چین کی غیرمعمولی کارکردگی کے باوجود، ہماری اس سے قربت، چینی قیادت کی خیرخواہی اور واضح خواہش کے باوجود ہم چین سے پوری طرح استفادہ نہیں کرسکے۔
ہمیں چین سے فقط سرمائے کی نہیں، بلکہ ان کے تجربے اور باقی کامیابیوں سے بھی سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایسے تیرہ ممالک ہیں، جنھوں نے جنگ کے بعد، پچیس برسوں میں سات فیصد سے زائد کی شرح نمو کاتجربہ کیا۔ ہم کامیابی کی ان کہانیوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ مماثلت کے پانچ نکات، پانچ عمومی خصوصیات کچھ یوں ہیں :ان ممالک نے عالمی معیشت سے مکمل استفادہ کیا، اپنے معاشی استحکام کو برقرار رکھا، بچت اور سرمایہ کاری کی شرح میں اضافہ کیا، مارکیٹوں کو وسائل مختص کرنے دیے گئے اور پرعزم اور قابل حکومتوں نے کارکردگی دکھائی۔
پھر عوام میں سی پیک کے فوائد کو جہاں بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاسکتا ہے، وہیں اُن کی بابت شک بھی پیدا کیا جاسکتا ہے۔ کیا سی پیک لین دین اور تبدیلی کا بڑا پلیٹ فورم ثابت ہوگا؟ اس بابت ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ اس کا انحصار ہمارے انتخاب پر ہے۔ خالصتاً ہمارے انتخاب پر۔
(یہ حصہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کی ڈیووس میں 21جنوری 2020کو، بروز منگلSchatzalp ریسٹورنٹ میں عشائیہ پر منعقدہ پینل ڈسکشن کے اقتباسات پر مشتمل تھا۔ فاضل مصنف سیکیورٹی امور کے ماہر اور دفاعی تجزیہ کار ہیں )