عالمی اقتصادی فورم ایک آزاد اور غیر جانب دار بین الاقوامی تنظیم ہے جو دنیا کے حالات میں بہتری کے لیے نجی و سرکاری شعبے کے باہمی تعاون کو فروغ دیتی ہے۔ یہ شاید اپنی نوعیت کی واحد تنظیم ہے جو کسی بھی قسم کے سیاسی، کاروباری یا ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر کام کرتی ہے دیگر تنظمیوں کی طرح اپنے شرکاء کے ناموں کو تشہیر کے لیے استعمال نہیں کرتی۔
عالمی اقتصادی فورم (ڈبلیو ای ایف) کا صدردفتر جینیوا میں ہے اور غیر جانبداری کے ساتھ کسی خاص مفاد سے وابستگی کے بغیر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ ترقی کا سفر جاری رکھنے اور مثبت تبدیلیوں کے لیے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بااثر افراد کا مل بیٹھنا بہت ضروری ہے۔ دنیا کے حالات میں بہتری کا عزم رکھنے والی یہ بین الاقوامی تنظیم بہت محتاط اور متوازن انداز میں عالمی، علاقائی اور صنعتی ایجنڈا متعین کرنے کے لیے سیاسی، کاروباری اور دیگر شعبے سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات کا امتزاج بناتی ہے۔
1970میں اپنے قیام کے بعد سے عالمی اقتصادی فورم کا سالانہ اجلاس ہر سال کے آغاز میں ڈیووس کے برف زار میں منعقد ہوتا ہے۔ اس اجلاس میں حکومت، معیشت، ٹیکنالوجی، سیاست، میڈیا، اور کلچر سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات ان عالمی مسائل پر گفتگو کرتی ہیں جو قومی حکومتوں کی استعداد سے بڑھ چکے ہیں۔
اس اجلاس میں دنیا بھر سے مختلف شعبوں کے 3000سے 3500نمایاں افراد شریک ہوتے ہیں۔ اس برس کے عالمی اجلاس میں اس فورم کی پچاسویں سالگرہ بھی ہے اور یہ اجلاس 21سے 24جنوری 2020تک جاری رہے گا۔ اس بار فورم کا بنیادی موضوع یا تھیم "ہم آہنگ اور پائیدار دنیا کے شراکت دار۔ Stakeholders for a Cohesive and Sustainable World") ہے۔ دنیا کے کئی پیچیدہ اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے اقتصادی، ماحولیاتی، سماجی اور ٹیکنالوجی جیسے مختلف نوعیت کے مسائل کا احاطہ کرنا کسی ایک کمپنی، ادارے یا فرد کے بس کی بات نہیں۔ عالمی اقتصادی فورم کے بانی اور ایگزیکٹیو چیئرمین پروفیسر کلاز شواب کہتے ہیں : " لوگ اقتصادی اشرافیہ، کے خلاف بغاوت پر تلے ہوئے ہیں، ان کے خیال میں اس اشرافیہ نے انھیں دھوکا دیا ہے۔
اور عالمی گرماؤ کو 1.5ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کی ہماری کوششیں بھی مسلسل ناکام ہورہی ہیں یہ خطرے کی بات ہے۔ دنیا اس نازک دوراہے پر پہنچ چکی ہے اور اس برس ہمیں "ڈیووس منشور 2020" تیار کرنا ہوگا جس میں ہم کمپنیوں اور حکومتوں کے لیے اپنے اہداف اور کارکردگی کا از سر نو جائزہ لیں گے۔ اسی مقصد کے تحت آج سے 50برس قبل عالمی اقتصادی فورم کی بنیاد رکھی گئی تھی، اور آیندہ پچاس برسوں میں ہم اپنا یہی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔" اس اجلاس میں سرکاری اور نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے ایسے نمایاں افراد کومدعو کیا جاتا ہے جو علاقائی اور قومی سطح پر مثبت کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
عالمی، علاقائی اور قومی سطح پر مثبت اقدامات کے لیے تمام شراکت داروں کو چار بنیادی عالمی امور کا ایجنڈا دیا گیا ہے۔ یہ چار اہم موضوعات یہ ہیں (1) موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں اور ان سے معیشت اور ماحولیات کو ہونے والے نقصانات پر گفتگو(2) زیادہ پائیدار اور شمولیت پر مبنی کاروباری ماڈلز کے مطابق انڈسٹری کو ڈھالنا (3) وہ ٹیکنالوجیز جو چوتھے صنعتی انقلاب کو مہمیز کررہی ہیں ان کے لیے ایسے ضابطوں کی تشکیل جس سے کاروبار اور سماج کے لیے ان کے مضر اثرات کو کم سے کم کرکے انھیں زیادہ سے زیادہ مفید بنایا جاسکے (4) ایسے شماریاتی، سماجی اور ٹیکنالوجی کے رجحانات سے ہم آہنگی پیدا کرنا جو تعلیم، روزگار اور انٹرپرینیورشپ کی تشکیل نو کررہے ہیں۔
اس اجلاس میں شریک ہونے والی نمایاں شخصیات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل ہیں۔ گزشتہ برس ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ دفاعی اخراجات پر ہونے والے تنازعے کی وجہ سے انھوں نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔ ارب پتی اور سوروس فنڈ مینیجمنٹ کے چیئرمین اور ڈیووس کے لیے جانی پہچانی شخصیت جارج سوروس۔ دنیا کی نوجوان ترین وزیراعظم اور فن لینڈ کی تیسری خاتون لیڈر سنا میرن۔ یورپی کمیشن کی صدر اور جرمنی کی سابق وزیر دفاع ارسولا وون دیر لیین۔ اس بار حال ہی میں یورپین سینٹرل بینک کی مقرر ہونے والی پہلی خاتون صدر اور اس سے پہلے آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر رہنے والی کرسٹین لیگارڈ کئی نگاہوں کا مرکز رہیں گی۔
ہواوی ٹیکنالوجیز کے بانی رین ژینگفی بھی اس برس ڈیووس کے اجلاس میں شریک ہوں گے، ان کی کمپنی دنیا بھر میں 5جی کی دوڑ میں آگے ہے۔ آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا اپنے ادارے کے تازہ ترین اقتصادی تجزئیات پیش کریں گی۔ طوالت کی وجہ سے اس اجلاس میں شریک ہونے والے کئی دیگر سیکڑوں اہم شخصیات کا ذکر یہاں نہیں کیا جاسکتا۔
وزیر اعظم عمران خان اس بار ڈیووس تشریف لارہے ہیں اور یہ پاکستان کے لیے نیک شگون ثابت ہوگا۔ خاص طور پر ایسے حالات میں جب یہ ملک مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے اور علاقائی صورت حال کے پیش نظر ان کی اس اہم عالمی فورم میں شرکت ایک سنہری موقع ہے۔ ڈیووس میں عمران خان کو بہت اہمیت دی جارہی ہے۔ وہ تیسری دنیا کے واحد لیڈر ہیں جن کے لیے گفتگو کی ایک پوری نشست مختص کی گئی ہے۔ بدھ 22جنوری کو وہ کانگریس سینٹر ڈیووس میں ایک خصوصی تقریر کریں گے۔ وزیراعظم کے وفد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، مشیر تجارت رزاق داؤد اور مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ شامل ہیں۔
عمران خان ڈیووس کے لیے نئے نہیں، وہ اس سے قبل 2011، 2012اور 2013میں شریک ہوچکے ہیں جب وہ اپوزیشن میں ہوتے تھے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی سابقہ اور موجودہ اقتصادی پالیسیاں دیرپا نتائج حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں اور ملک اس وقت اپنی مختصر تاریخ کے شدید ترین اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ آئی ایم ایف جیسے اداروں سے بیرونی قرض لینے کی ہماری تاریخ بہت طویل ہے اور ان قرضوں کی ادائیگی نہ کرپانے کی وجہ سے ہماری معیشت بدترین حالت میں ہے۔ حکومت کی ٹیکس اور ٹیرف پالیسیوں کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔
دنیا بھر کی نمایاں شخصیات کے سامنے پاکستان میں سرمایہ کاری کے امکانات پر بات کرنے کا عمران خان کے لیے یہ سنہری موقع ہوگا۔ کرپشن اور منی لانڈرنگ نے ہماری معیشت کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں اور اس موضوع پر عمران خان سے بہتر کون بات کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ڈیووس کے سامعین کو پاکستان میں اعلیٰ سطح کی کرپشن کے مقابلے کے لیے اپنائی گئی حکمت عملی سے بھی آگاہ کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ڈیووس کے شرکا کو کرپشن سے پاک ملک، معاشی استحکام اورافراد کی تعمیر سے متعلق اپنے وژن سے آگاہ کرسکیں گے۔ ڈیووس میں ان کی موجودگی پاکستان کے لیے بہت اہم ہوگی۔
ڈیووس میں پاکستان کے مثبت امیج کو اجاگر کرنے میں گزشتہ پانچ برس سے مارٹن ڈو گروپ بھی پاتھ فائنڈر گروپ کا ہم سفر ہے۔ کئی دیگر کاموں کے ساتھ پاکستان پویلین بھی ہمارا منفرد اقدام ہے جس میں مختلف پاکستانی پروفیشنلز اپنے اسٹالز پر آنے والوں کو پریزینٹیشن دے سکتے ہیں، انھیں وہاں بین الاقوامی سرمایہ کاروں، ماہرین اور حکام سے میل جول کا موقع میسر آتا ہے۔ گزشتہ 18برسوں سے جاری پاکستان بریک فاسٹ بھی ڈیووس کے مسلسل شرکا کے لیے ایک منفرد تقریب کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اس تقریب میں صدر مملکت یا وزیر اعظم مہمانِ خصوصی ہوتے ہیں۔
پاکستانی ڈنر 21جنوری کو منعقد ہوا جس میں پاکستان میں معاشی اصلاحات اور مالیاتی شمولیت پر گفتگو ہوئی۔ 22جنوری کو پاکستان پویلین کے ظہرانے میں پاکستان میں کارپوریٹ سوشل رسپاسبلیٹی، صنفی حقوق، تعلیم اور فلاحی کاموں سے متعلق گفتگو کی گئی۔ 22جنوری کو پاکستان پویلین میں "پاکستان کے مستقبل کی تشکیل کے لیے ڈیجیٹل ایجینڈا" کے عنوان سے ایک نشست رکھی گئی۔ جمعرات 23جنوری کو عمران خان پاکستان بریک فاسٹ کے مہمان خصوصی ہوں گے اور وہاں کئی ممتاز شخصیات سے ان کی ملاقات ہوگی۔ پیر 21جنوری کو عشائیے میں عبدالحفیظ شیخ اور گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے پاکستان میں مالیاتی شمولیت اور معاشی اصلاحات پر گفتگو کی۔ ان دونوں مہمان شخصیات نے 22جنوری کو پاکستان پویلین میں بھی اظہار خیال کیا اور 23جنوری کو یہ سی پیک کے جغرافیائی و سیاسی اثرات پر بھی گفتگو کریں گے۔
فورم کے اس سالانہ اجلاس کو دنیا بھر کے میڈیا کی کوریج حاصل ہوتی ہے۔ یہ فورم کسی مخصوص سیاسی ایجنڈے یا جانب داری کے بغیر دنیا کی بہتری کے لیے کام کرتا ہے۔ یہ فورم سات رکنی سوئس وفاقی کونسل کے تحت کام کرتا ہے جو کہ سوئٹزر لینڈ کی وفاقی حکومت کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔ اس فورم کا مقصد بہتر دنیا کے لیے عالمی لیڈرشپ کو ایک چھت تلے جمع کرنا ہے۔ بدقسمتی سے ڈیووس میں پاکستان کامثبت امیج اجاگر کرنے کے لیے چند ہی بزنس مین آگے بڑھتے ہیں۔ ڈیووس پاکستان کو دنیاکے سامنے پیش کرنے کا ایک منفرد موقع ہے اور اہم بات یہ ہے کہ ہمارے کاروباری شعبے کے نمایاں ناموں نے اس فورم کو پاکستان کا اچھا امیج اجاگر کرنے کی غرض سے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں )