دنیا بدل رہی ہے اور جو تبدیلیاں آ رہی ہیں، وہ رہیں گی، ختم نہیں ہوں گی۔ اپنے روزمرہ معاملات میں الجھ کر ہم دور تک دیکھنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں، لیکن ہمارے اردگرد کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے، اس پر اور کچھ اس دنیا کی تاریخ پر نگاہ رکھنا چیزوں کا صحیح تناظر جاننے اور اسی طرح درست فیصلے کرنے کے لیے ضروری ہے۔
افغانستان سے مغربی طاقتوں کے انخلا نے ان کے پیش کردہ "افق کے پار سے" فضائی حملوں کے امکان کو مسترد کر دیا ہے اور یہ بات اور بھی حتمی طور پر واضح ہو گئی جب ماسکو نے حال ہی میں دو ٹوک انداز میں کہا کہ وہ وسطی ایشیائی خطے میں امریکی فوج کی موجودگی کو قبول نہیں کرے گا۔ امریکا نے 90 کی دہائی میں افغانستان سے منہ موڑ لیا تھا، اب یہاں امریکی مصروفیات کافی حد تک کم ہو سکتی ہیں تاہم اگر اسے خطے میں قابل اعتبار رہنا ہے تو اسے اس افغانستان کو یکسر ترک نہیں کرنا چاہیے۔
افغانستان کی صورت حال کا حل اب علاقائی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے جس کی قیادت چین، روس اور پاکستان کر رہے ہیں۔ یہ علاقائی اقدام خطے میں افغانستان کے مدغم ہونے کو آسان بنا دے گا، اور عام افغانوں کو روزگار تلاش کرنے میں مدد ملے گی اور بیس سالہ خانہ جنگی نے جو مسائل پیدا کیے ہیں ان کو حل کیا جا سکے گا۔ حالیہ پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک اور نارتھ ساؤتھ کوریڈور تیار کرنے کا منصوبہ ہے، جس کا مقصد قازقستان، ازبکستان اور افغانستان کے راستے روس اور پاکستان کو ملانا ہے۔
اس طرح کے روٹ سے وسط ایشیا کے لیے اور بالخصوص پاکستان اور افغانستان کے لیے ترقی کے کافی امکانات ہوں گے۔ مزید یہ کہ پاکستان کے لیے یہ پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کی تکمیل کرے گا اور زیر تعمیر نیٹ ورک میں ایک اور پہلو کا اضافہ کرے گا۔
گلوبلائزیشن کا مطلب ہے پوری دنیا کو آپس میں جوڑنا۔ شمال جنوب کونیکٹویٹی ترقی کا ایک اہم حصہ ہے، جس کا مقصد سابقہ پسماندہ علاقوں پر تجارت اور صنعتی پیداوار کے لیے قدرتی وسائل کے راستے کھولنا ہے۔
یوریشیا، بطور براعظمی زمینی ٹکڑا، جو راہداریوں کے ذریعے آپس میں جڑا ہوا ہے، دوسری اور تیسری دنیا کے پرانے تصورات کو ختم کر دے گا جس نے قوموں کو اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی طور پر کمتر بنایا، اور یہ اس پرانے نظام کی جگہ پر ایک کثیر قطبی سسٹم کے اندر مساوات قائم کرے گا۔ یہ کنکشن یوریشین صدی کی بنیاد ہے اور براعظم افریقا، شمال، جنوب رابطوں کو آگے بڑھانے میں اگلا مربوط براعظم ہوگا۔
موجودہ عالمی ترقی میں دو اہم رجحانات پائے جاتے ہیں۔ ایک یکسانیت کا رجحان (عالمگیریت اور انضمام)، دوسرا لامرکزیت اور علاقائیت کا رجحان۔ ہم نے عالمگیریت اور علاقائیت دونوں دائروں میں تیزی سے ترقی ہوتے دیکھی ہے۔ دونوں نے بین الاقوامی طاقتوں کے تعلقات اور اکیسویں صدی کے عالمی جغرافیائی سیاسی منظر نامے کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔
ان دو بظاہر منفی رجحانات کا ایک دل چسپ پہلو ایک طرف سڑک، ریل اور پائپ لائنز کے ذریعے قومی سرحدوں کو آہستہ آہستہ مٹانا ہے اور دوسری طرف قومی علاقوں پر مضبوط گرفت حاصل کرنا ہے، جو علاقائی تنازعات کے خدشے کی صورت میں نتائج دے سکتی ہے، جیسا کہ چین اور بھارت، پاکستان اور بھارت، روس اور جاپان، روس اور یوکرین، آذربائیجان اور آرمینیا وغیرہ کے درمیان ہیں۔ علاقائیت میں قومی ریاست کی طاقت کو ایک علاقائی تنظیم کی صورت میں ازسرنو بانٹنے کا عمل شامل ہے، اور ان ذمے داریوں کو سبھالنے کے لیے تیار نئی علاقائی تنظیموں کا ظہور بھی۔
شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) اس یوریشین صدی کے امکان کو طاقت ور بنا رہا ہے۔ 2001 میں تشکیل دی جانے والی یہ تنظیم یوریشیا کا ایک سیاسی، اقتصادی اور سلامتی اتحاد ہے۔ یہ جغرافیائی دائرہ کار اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہے، جو یوریشیائی براعظم کے پانچ میں سے تین حصوں، دنیا کی 40 فی صد آبادی، اور عالمی جی ڈی پی کے 20 فی صد سے زیادہ پر محیط ہے۔ اس پہلے سے مضبوط کمیونٹی میں تازہ ترین اضافہ ایران تھا جس نے گزشتہ ماہ شمولیت کا عمل شروع کیا تھا۔ اس تنظیم کو بنیادی طور پر اقتصادی تعاون کے لیے تشکیل دیا گیا، لیکن افغانستان کی صورت حال اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر اس نے اپنے مقصد میں سیکیورٹی کو بھی شامل کیا۔
یوریشین اکنامک یونین پر بھی غور کیا جائے۔ 2015 میں قائم ہونے والی یوریشین اکنامک یونین (EAEU) مابعد سوویت ریاستوں کی ایک اقتصادی یونین ہے جو مشرقی یورپ، مغربی ایشیا، اور وسطی ایشیا میں واقع ہیں۔ یوریشین اکنامک یونین کے پاس 180 ملین افراد کی ایک مربوط سنگل مارکیٹ ہے اور اس کی جی ڈی پی 5 ٹریلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔
اگرچہ یوریشین انضمام کا یہ عمل جاری ہے، تاہم ایسے کافی واضح تناؤ بھی موجود ہیں جو اس عمل میں خلل تو ڈال دیتے ہیں لیکن روکتے نہیں۔ چین اور روس کے درمیان بلاشبہ ایک ایسا مقابلہ جاری ہے جس نے گزشتہ برسوں کے دوران سیاسی اعتبار سے ایک حقیقی اعتماد اور باہمی انحصار کو راستہ دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک بھارت سرحدی تنازعات اور دشمنی نے ایک اور علاقائی تنظیم سارک کو بے اختیار بنا دیا ہے۔ افغان دلدل نے اس صورت حال کو اور بگاڑا۔ لیکن جیسا کہ ہم اپنی ذاتی زندگی کے حوالے جانتے ہیں، مسائل اور ان سے نمٹنے کی ضرورت دل متعلقہ فریقوں کو ایک دوسرے کے قریب لے آتی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ اجلاس میں منظور کیا گیا دوشنبے اعلامیہ اس بات پر بالکل واضح تھا کہ یوریشین تجارتی کھلاڑی کیا چاہتے ہیں، زیادہ نمایندگی والا ایک جمہوری، منصفانہ اور کثیر قطبی عالمی نظام (ورلڈ آرڈر) جو اقوام متحدہ کے مرکزی رابطہ کاری کردار کے تحت بین الاقوامی قانون، ثقافتی و تہذیبی تنوع، باہمی طور پر فائدہ مند اور ریاستوں کے مساوی تعاون سمیت عالمی طور پر تسلیم شدہ اصولوں پر مبنی ہو۔
افغانستان سے معاملات نمٹانے کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم نے سفارتی طور پر روس، چین، پاکستان کے ٹرائیکا کو بااختیار بنایا۔ یہ اتفاق رائے ہوا کہ اسلام آباد طالبان کے ساتھ ایک جامع حکومت کی تشکیل پر رابطہ کرے گا جس میں تاجک، ازبک اور ہزارہ شامل ہوں گے۔ ایران نے رکنیت کا عمل شروع کر دیا ہے اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے دوشنبے میں کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے دروازے پر دستک دینے والے ممالک کی تعداد بہت ہے۔
مصر، قطر اور سعودی عرب اب شنگھائی تعاون تنظیم کے مذاکراتی شراکت کار ہیں، اسی سطح پر افغانستان اور ترکی کے ساتھ بھی۔ یہ عین ممکن ہے کہ اگلے سال ان کے ساتھ لبنان، شام، عراق، سربیا اور درجنوں دیگر بھی شامل ہوں۔ اس لیے ہم یہ یقین کر سکتے ہیں کہ یوریشیائی صدی تشکیل پا رہی ہے اور اگرچہ بعض وجوہ کی بنا پر اس میں تاخیر ہو سکتی ہے، لیکن اسے روکا نہیں جا سکتا۔
(فاضل کالم نگار دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار اور کراچی کونسل فار فارن ریلیشنز (KCFR) کے چیئرمین ہیں۔)