جعلی اطلاعات خطرناک ہوتی ہیں اور اس سے سوشل نیٹ ورکس پر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو سلب کرلیتی ہیں۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو کسی بھی گھبراہٹ اور خوف کا شکار کیا جاسکتا ہے۔
خوف، جبر اور امن و جنگ کے حالات کا ماحول بنانے کے لیے اب زیادہ محنت کی ضرورت نہیں رہی۔ جب صحیح اور غلط کی تمیز ہی ختم ہو جائے تو لوگوں کا ریاست سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ ایک بار سماج میں بد اعتمادی کا زہر پھیل جائے تو اسے آسانی کے ساتھ تباہ کیا جاسکتا ہے۔ فیک نیوز اسی زہر کو معاشرے کی رگوں میں پھیلانے کا آلہ ہے۔
فیک نیوز اس لیے بھی تیزی سے سرائیت کرتی ہے کہ اس میں سچ کا تڑکا ہوتا ہے اور حقائق کو جھوٹ کے ساتھ گڈ مڈ کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ بعض حکومتیں عوام کو خوش رکھنے کے لیے اعداد وشمار اور معلومات میں رنگ آمیزی پر مبنی سوشل میڈیا پوسٹس کرتی ہیں اور ان کی توجہ اصل مسائل سے بھٹکا دیتی ہیں۔ یہ ہتھیار کئی مقاصد کے لیے استعمال ہوسکتا ہے لیکن بہر صورت اس کے ذریعے عوام کو کاروبار ریاست سے لاتعلق کیا جاتا ہے اور ملک و قوم کے اہم فیصلوں میں ان کی رائے غیرمؤثر کردی جاتی ہے۔
بھارت ارتھ شاستر میں بیان کیے گئے ہتھ کنڈوں کا استعمال کس طرح کرتا ہے اس کی ایک بڑی واضح مثال چین اور سی پیک کے خلاف بھارت کی ہائبرڈ جنگ ہے جس کے حوالے سے دوسال قبل اپنے کالم میں لکھا تھا: "سی پیک مخالف پراپیگنڈا میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لیے ایسے گمراہ کُن بیانات پھیلائے جارہے ہیں ؛1) غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے کہ اس منصوبے میں چینی فوجی اڈوں کی تعمیر بھی شامل ہے جن کے اخراجات پاکستان برداشت کرے گا، درحقیقت اس بات میں رتی بھر حقیقت نہیں۔ 2) ایک وہم یہ عام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سی پیک کے نتیجے میں پاکستان چین کی نوآبادیات میں تبدیل ہوجائے گا جب کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نوآبادیات مغربی ممالک کا ورثہ ہے۔
3) ایک افواہ یہ پھیلائی جارہی ہے کہ وسائل کے استحصال سے ڈیموگرافک تبدیلیاں لائی جائیں گی جب کہ اس منصوبے میں تمام سرمایہ کاری سے بلوچستان کی ترقی کی ضمانت دی گئی ہے۔ 4) یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے نفاذ قانون کی خراب صورت حال کی وجہ سے پاکستان چینیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے قابل نہیں ہے اور حقائق یہ ہیں کہ سی پیک کے منصوبوں کے لیے 15ہزار اہل کاروں پر مشتمل دو اسپیشل سیکیورٹی ڈویژن (ایس ایس ڈی) بنائے جائیں گے۔ 5) یہ غلط فہمی پیدا کی جارہی ہے کہ چین کے ساتھ پاکستان کا تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے جب کہ مسابقت کے باعث امریکا کے ساتھ چین کا تجارتی خسارہ 347ارب ڈالر کی ہوشربا سطح تک پہنچ چکا ہے۔
6) ایک جھوٹ یہ بھی پھیلایا جارہا ہے کہ اس منصوبے پر چین کی افرادی قوت کام کرے گی اور پاکستانیوں کو روزگار نہیں ملے گا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مختلف کیمپوں میں موجود اس منصوبے پر کام کرنے والے چینی ورکرز کی کل تعداد صرف 10ہزار ہے۔ 7) یہ تاثر بھی عام کرنے کی کوشش کی گئی کہ سی پیک سے دہشت گردی میں اضافہ ہوگا جب کہ واضح حقیقت یہ ہے کہ سی پیک دہشت گردی اورانتہاپسندی کی راہیں مسدود کردے گا۔"
فیک نیوز سے مقابلے کا موثر ترین طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی اطلاع کی تسلی بخش تصدیق کے بغیر اس پر اعتبار نہ کیا جائے۔ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے جب اپنے ہی مقاصد ہوں تو یہ اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کے ورچوئل اجلاس میں روسی صدر نے خبردار کیا ہے کہ ٹیکنالوجی کمپنیاں صرف کاروباری ادارے نہیں بلکہ ریاست کے اندر ریاست بنتی جارہی ہیں۔ انھوں نے بجا طور پر نشاندہی کی کہ یہ عالمی کمپنیاں کاروبار سے بڑھ کر غیر محسوس انداز میں سوسائٹی کو اپنی گرفت میں لے رہی ہیں۔
ان میں سے بعض بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں ایسٹ انڈیا کمپنی کا نیا روپ ہیں۔ پیوتن نے واشنگٹن میں امریکی کانگریس پر ہونے والے حملے کے لیے فیس بک، ٹیوٹر اور انسٹا گرام کے ذریعے منظم کی گئی مہم کی مثال دی۔ روس میں ٹک ٹاک سیاسی رائے کے اظہار کے لیے نوجوانوں کا مقبول ترین ذریعہ بن چکی ہے۔ سوشل میڈیا کو حدود میں رکھنے کے لیے قانون سازی کی سخت ضرورت ہے۔
حکومت کو ڈیجیٹل مواد سینسر کرنے کا اختیار دینے کے لیے 2020میں بنائے گئے ضوابط پروینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت بنائے گئے۔ ان اختیارات کے تحت ڈیٹا لوکلائزیشن سے انٹرنیٹ تک آزادانہ رسائی متاثر ہوگی۔"آزادیٔ اظہار" کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز اور نفرت انگیز مواد پھیلایا جاتا ہے اور اس وجہ سے عالمی امن کو خطرات لاحق ہیں۔ ایسی آزادی اظہار کو انسانی حقوق میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ افغان جنگ سے ورثے میں ملنے والی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو اس حوالے سے سخت اقدامات کی ضرورت ہے اور اگر عالمی برادری بھی دہشت گردی اور فیک نیوز کا خاتمہ چاہتی ہے تو کچھ حدود کا تعین اسے بھی کرنا پڑے گا۔
عمران خان کے خلاف تیار کردہ جھوٹوں کی فوج کے حملوں کا ذکر ہی کیا صدر بائیڈن اور روسی صدر بھی فیک نیوز کے ہتھیار سے محفوظ نہیں۔ بڑی سوشل نیٹ ورک کمپنیوں کے ضابطوں میں تبدیلی اور متبادل ذرایع کھڑے کرنے کے لیے ایک عالمی اتحاد کی تشکیل ضروری ہے۔
حال ہی میں واٹس ایپ کی جانب سے اپنی پرائیویسی پالیسی میں تبدیلیوں اور فیس بک سے معلومات کے تبادلے کے اعلان نے طوفان برپا کردیا۔ تاہم یورپی باشندے یورپی یونین میں ہونے والی کڑی قانون سازی کی وجہ سے اس اقدام سے محفوظ رہے۔ فیس بک سے متعلق یورپی یونین کے اقدامات کے ماڈل کو پیش نظر رکھتے ہوئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)