بھارت کے شمال مشرقی علاقے (این ای آر) میں آسام، اروناچل پردیش، منی پور، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ، سکم اور تریپورہ شامل ہیں۔ یہ ریاستیں مل کر ایک الگ جغرافیائی، ثقافتی، سیاسی اور انتظامی وجود کی نمایندگی کرتی ہیں۔ نسلی اور ثقافتی لحاظ سے یہ حصہ تبت اور جنوب مشرقی ایشیا سے زیادہ جڑا ہوا ہے۔
مشرقی ہمالیہ کا یہ حصہ بہت زیادہ جغرافیائی اہمیت کا حامل ہے، کیوں کہ اس کی 90 فی صد سرحدیں پانچ ممالک بنگلہ دیش، بھوٹان، چین کے خودمختار علاقے تبت، میانمار اور نیپال کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ اور یہ حصہ بھارت کے ساتھ زمین کے صرف ایک تنگ ٹکڑے کے ذریعے جڑا ہوا ہے، جسے سلیگری راہداری کہا جاتا ہے، جسے بعض اوقات مرغی کی گردن، بھی کہا جاتا ہے۔
ملک کے اس دور دراز حصے کو نئی دہلی نے ہمیشہ نظر انداز کیا ہے، آزادی کے ستر سال بعد بھی یہ ریاستیں صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ انھیں صرف کبھی کبھار اُن خبروں میں جگہ مل جاتی ہے جو تنازعات کے برسوں کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرتی ہیں۔ یونین آف انڈیا ریاستوں کا ایک وفاق ہے، لیکن اس علاقے کی زیادہ تر پالیسی کا تعین مرکزی حکومت کرتی ہے، اور نوآبادیاتی طرز پر کان کنی، ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹس اور فوجی انفرا اسٹرکچر کے ذریعے یہاں کے وسائل نکالنے کا کام مسلسل پھیلتا رہا ہے، جب کہ بنیادی ضروریات ابھی تک فراہم نہیں کی گئی ہیں۔
جس طرح ایک طرف انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو دبایا نہیں جا سکتا، اس طرح، سیون سسٹرز ریاستوں میں بھی قانون کی حکمرانی جمہوریت کے نام پر ایک ورچوئل پولیس اسٹیٹ کی طرح ہے۔ ان میں سے کم از کم 3ریاستوں میں اکثریت مسیحی آبادی کی ہے، مرکزی حکومت کے رویے نے متعدد مسائل پیدا کیے ہیں اور مقامی آبادی مسلسل احتجاج کرتی رہتی ہے، اور ان کے مطالبات میں بھارت سے علیحدگی اور آزادی بھی شامل ہے۔
اس صورت حال کا سبب برطانوی نوآبادیاتی پالیسی تھی۔ برٹش انڈیا میں شمال مشرقی علاقے کا انضمام بالکل اچانک تھا اور اس علاقے کی ہندوستان کے ساتھ رابطے کی کوئی سابقہ تاریخ موجود نہیں تھی۔ انتظامی، معاشی اور وسائل کی منصوبہ بندی اور سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے ریاستوں کو ایڈہاک یونٹوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔
1947 میں برطانوی راج سے ہندوستانی آزادی کے بعد، برٹش انڈیا کا شمال مشرقی علاقہ آسام اور منی پور اور تریپورہ کی شاہی ریاستوں پر مشتمل تھا۔ اس کے بعد آسام کے بڑے علاقے سے، 1963 میں ناگالینڈ، 1972 میں میگھالیہ، 1975 میں اروناچل پردیش (دارالحکومت بدل کر اتاناگر کیا گیا) اور 1987 میں میزورم تشکیل دیے گئے۔ منی پور اور تریپورہ 1956 سے 1972 تک ہندوستان کے مرکزی علاقے رہے، اس کے بعد انھوں نے مکمل طور پر ریاست کا درجہ حاصل کیا۔
2002 میں سِکم کو آٹھویں شمال مشرقی کونسل ریاست کے طور پر ضم کیا گیا۔ قبائلی عوام کی سیاسی خواہشات کو نئی دہلی نے نظر انداز کیا کیونکہ وہ باضابطہ انڈیا سے بہت دور تھے۔ بھارت مسلح افواج کے خصوصی اختیارات ایکٹ 1958 (AFSPA) جیسے متنازعہ قوانین کو نافذ کر کے بدامنی اور جزوی طور پر مسلح بغاوت سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے، جو مسلح اہل کاروں کو بغیر وارنٹ گرفتاری، تلاشی اور انکاؤنٹر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس قانون کے تحت جن کارروائیوں کی اجازت دی گئی ہے، وہ ملکی قانون کے تابع نہیں ہیں، اور خلاف ورزیوں کے خلاف عدالتوں میں نہیں جایا جا سکتا۔
اس وقت افسپا، اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، میزورم اور ناگالینڈ میں نافذ ہے، اور یہ ترقی، امن یا استحکام کے لیے بالکل سازگار نہیں ہے۔ شورش اور اس کے نتیجے میں انسداد بغاوت کے اقدامات روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن گئے۔ اس خطے میں سست معاشی نمو اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں نے مل کر انتظامیہ کو مفلوج کر دیا ہے، اس وجہ سے عسکریت زدہ زون میں غیر قانونی معاشی کاروباری سرگرمیوں بڑھ رہی ہیں۔
آسام میں 2020 کے شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف وسیع غصے نے علیحدگی پسند بیانیے کو برقرار رکھا ہے اور کمزور نہیں پڑا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہندوستانیوں نے کوشش نہیں کی، فروری 2020 میں بوڈو معاہدے پر دستخط اس کی ایک مثال ہے۔ نئی دہلی نے آل بوڈو اسٹوڈنٹس یونین اور نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈولینڈ (این ڈی ایف بی) کے مختلف دھڑوں، دونوں عسکری تنظیموں کے بعض مطالبات کو تسلیم کیا۔
اور پھر نئی دہلی نے بوڈولینڈ کا الگ علاقہ تشکیل دے کر قوم پرست آسامیوں کو بوڈو گروہوں کے خلاف مؤثر طریقے سے آگے بڑھایا۔ یہاں تک کہ یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام (الفا)، 1985 میں آسام معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد ہندوستان کی رنگین سیاسی قبا کا حصہ بنا ہوا ہے۔ منی پور میں، جہاں متعدد باغی تنظیمیں ہیں، شاید ہی کوئی ایسا گروہ ہو جس کا امپھال یا نئی دہلی میں سرپرست نہ ہو۔ مزید یہ کہ، بھارت کے اس خوف کے پیش نظر کہ کسی بھی بھارتی باغی تنظیم کو چین کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے، بہت سے گروہ "کاروبار کے لیے" بیجنگ کو نئی دہلی پر دباؤ ڈالنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔
انڈیا کے شمال مشرق میں بھی ہو کچھ ہورہا ہے، جیسا کہ ہر جگہ ہوتا ہے، زندگی کبھی نہیں ٹھہرتی اور یہاں بھی دبے پاؤں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ بھارت کے سڑکوں کے نیٹ ورک نے نیشنل ہائی ویز ڈویلپمنٹ پروجیکٹ (این ایچ ڈی پی) سے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں میں 10، 000 کلومیٹر سے زیادہ سڑکوں کی ترقی/بہتری کے لیے ایک خصوصی روڈ ڈیویلپمنٹ پروگرام (SARDP-NE) وضع کیا گیا ہے۔ روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کی وزارت خطے میں قومی شاہراہوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور اس نے شمال مشرقی ریجن کے لیے مختص مجموعی فنڈز کا 10% اسی کے لیے مختص کیا ہے۔
شمال مشرقی ریاستوں میں سرفیس انفرااسٹرکچر پروجیکٹس کا ایک اور بڑا مقصد ہمسایہ ممالک بالخصوص بنگلہ دیش میں ہونے والی متوازی ڈیویلپمنٹ کے ساتھ ہم قدم ہونا ہے۔ تقسیم سے پہلے کے زمینی اور دریائی راستوں، جو بنگلہ دیش سے ہوکر گزرتے ہیں، کی بحالی اور توسیع کو بھارت نے تسلیم کیا ہے کہ وہ شمال مشرقی ریاستوں میں نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کے لیے اہم ہے۔
تاہم، بنگلہ دیش میں اسے مثبت انداز میں نہیں دیکھا جا رہا۔ دیگر بین الاقوامی تعاون والے پروجیکٹس، جیسا کہ، آسام میں لیڈو کو شمالی میانمار سے جوڑنے والی اسٹیل ویل روڈ کی بحالی، اور جنوب مشرقی چین کے کنمنگ تک اس کی توسیع، کالدان ملٹی موڈل ٹرانزٹ پروجیکٹ اور ٹرانس ایشین ریلوے منصوبے بھارت کے زمینی طور پر بند ان شمال مشرقی ریاستوں کے لیے مشرقی کھڑکی کھول سکتے ہیں۔
جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیائی مارکیٹوں کو منسلک کرنے کے لیے مختلف علاقائی منصوبے، جیسا کہ، بنگلہ دیش، چین، انڈیا، میانمار (بی سی آئی ایم) اور بے آف بنگال انیشیٹو فار ملٹی سیکٹرل ٹیکنیکل اینڈ اکنامک کوآپریشن (BIMSTEC)، انڈیا-میانمار-تھائی لینڈ سہ فریقی ہائی وے (IMTTH) پراجیکٹ ابھی بالکل ابتدائی مراحل میں ہیں۔
بھارت کے اندرونی معاملات اور اس کے چین اور دیگر ممالک کے ساتھ سنگین مسائل کے باوجود، آج بھی بھارت عالمی اور علاقائی رجحانات اور اپنی معیشت کو ترتیب دینے کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ جب لوگوں کے معاشی حالات اور معیار زندگی بہتر ہونے لگتے ہیں تو نسلی، ثقافتی اور خودمختاری کے مسائل اگر ختم نہ بھی ہوں تو دب ضرور جاتے ہیں۔