تیسری راہداری چین سے سیون سسٹرز (جو 2002 میں سکم کے اضافے کے بعد اب آٹھ ہیں) سے گزرتے ہوئے بنگلہ دیش میں چٹاگانگ اور مٹرباری کی مشرقی بندرگاہوں تک جائے گی۔ یہاں دو بڑی رکاوٹیں ہوں گی: ایک، چین اور بھارت کی سیاسی کشیدگی اور چین مخالف اتحاد کواڈ میں ہندوستان کی رکنیت۔ دوسری، بھارت کا شمال مشرق دہائیوں سے ہنگامہ آرائی میں ہے۔
شمال مشرقی بھارت، میانمار، تھائی لینڈ اور لاؤس کے پڑوسی "سنہری مثلث" کے ذریعے یورپ جانے والی ہیروئن کی اسمگلنگ کا ایک اہم ٹرانزٹ پوائنٹ بھی ہے، ایک اقتصادی راہداری کی تعمیر اس خطے میں کم از کم مستقبل قریب میں خطرناک ہوگی۔
چین کی جانب سے ایک چوتھا پروجیکٹ پہلے ہی زیر تعمیر ہے: بنگلہ دیش، چین، بھارت، میانمار اقتصادی راہداری (BCIM-EC) فورم برائے علاقائی تعاون، جسے پہلے "کنمنگ انیشیئٹو" کہا جاتا تھا، چین کے بی آر آئی پروگرام کا حصہ ہے۔ بی سی آئی ایم-ای سی کو تین راستوں پر توسیع دینے کا منصوبہ ہے: ایک کنمنگ سے کولکتہ تک، میانمار، شمال مشرقی بھارت اور بنگلہ دیش کے راستے چلے گا۔ ایک راستہ میانمار کے منڈالے سے بنگلہ دیش کے چٹاگانگ کی سمت جائے گا، اور تیسرا میانمار کی ریاست راکھین کے سیتوے بندرگاہ کی سمت جائے گا۔
بھارت میں بنگال، بنگلہ دیش، برما اور چین کے یننان صوبے کو ایک دوسرے سے جوڑنے والے بڑے سرحدی علاقے کی تشکیل عالمی کے دباؤ کے تحت ہوئی ہے۔ شمال مشرقی بھارت اور میانمار میں نسلی شورش ابھی موجود ہے اور ساتھ ہی بنگلہ دیش اور میانمار کے درمیان روہنگیا کا مسئلہ بھی ہے، جو راہداری کی تعمیر کے لیے مستقل سیکیورٹی خطرات کا باعث ہے۔ اس کے علاوہ، بھارت نے کبھی بی سی آئی ایم، ای سی مذاکرات میں پورے دل سے حصہ نہیں لیا۔ دی کٹھمنڈو پوسٹ نے اپنے 2020 کے ایک آرٹیکل میں اسے "کیموفلاج شرکت" کہا ہے۔
چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) نے ہندوستان کے بالادست توازن کو ہلا دیا ہے۔ چین جنوبی ایشیا میں نفوذ کرتا رہا ہے۔ نئی دہلی ہمالیہ کے راستے روڈ کنکشن کو محفوظ کرنے کی تمام چینی کوششوں اور بحر ہند کے ساتھ سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسی جگہوں پر بندرگاہ تک رسائی کے معاہدوں سے بے چینی محسوس کرتی ہے، اور نئی دہلی شاید میانمار کو بھی قریب سے دیکھ رہی ہے۔ بھارت بحر ہند میں اپنی غالب پوزیشن سے دست بردار ہونا نہیں چاہتا لیکن اسے ایسا کرنے میں وقت لگے گا۔
بنگلہ دیش زبردست معاشی کامیابی کے باوجود اب بھی خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے، اس وقت بنگلہ دیش معاشی طور پر بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے، "سونار بنگلہ" کا وژن حقیقت بن سکتا ہے۔ مغربی بنگال، بنگلہ دیش، گورکھالینڈ، سکم، بھوٹان، میگھالیہ، بوڈولینڈ، ناگالینڈ، میزورم، آسام، تریپورہ اور منی پور یہ سبھی اپنے آپ میں نہایت آزاد ہیں۔ حتیٰ کہ نیپال کی واحد ہندو مملکت بھی بھارت کی طرف سے ہمیشہ کے لیے (جغرافیائی اور معاشی طور پر) زمین بند ہو جائے گی اور اسی وجہ سے ایسوسی ایشن آف ایسٹرن اسٹیٹس آف ساؤتھ ایشیا(AESSA) کے معاشی اتحاد کی رکنیت کے لیے متمنی ہوگی۔
ایسوسی ایشن آف ایسٹرن اسٹیٹس آف ساؤتھ ایشیا کا مخفف ہے اور یہ تصور ایک اقتصادی یونین یا ان ریاستوں کی مشترکہ مارکیٹ کی تشکیل پر مبنی ہے جو اب تک جغرافیائی، سیاسی اور معاشی تنہائی کا شکار ہیں۔ ان ممالک کے مابین اندرونی تجارتی تعلقات کے ذریعے اس خطے کو کھولنا، اور اس خطے کو بی آر آئی کے نئے براعظمی تجارتی راستوں کے ساتھ ساتھ خلیج بنگال کے ارد گرد سمندری تجارتی راستوں سے جوڑنا اس آئیڈیا کا نچوڑ ہے۔
یہ آئیڈیا 1980 کی دہائی کے دوران تیار کیا گیا اور پہلی بار مارچ 1990 میں شایع ہوا۔ اُس وقت اس تصور نے کچھ زیادہ ارتعاش پیدا نہیں کیا۔ لیکن آج، 30 سال بعد، ہم ایک بالکل مختلف دنیا کو دیکھ رہے ہیں۔ یک قطبی دنیا کا مرحلہ اختتام پذیر ہو گیا ہے، اور کثیر قطبیت پر مبنی طاقت کا ایک نیا عالمی سیاسی نظام امریکا کو چیلنج کر رہا ہے۔
ایسوسی ایشن آف ایسٹرن اسٹیٹس آف ساؤتھ ایشیا کے موضوع پر میں نے 1997میں لکھا تھا "ایسوسی غیر مساوی شراکت داروں پر مشتمل ہوئی تو کبھی کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ اس کے موجودہ حجم کے مطابق اور جارحانہ دفاعی انداز سے بھارت اپنے پڑوسیوں کے لیے مستقل خطرہ رہے گا۔ اس صورت میں بننے والے فورم یا رشتے دیر پا ثابت نہیں ہوں گے جیسا کہ اس وقت پاکستان کو درپیش صورت حال ہے۔ اقتصادی اصول اور جغرافیائی قربت کی بنیاد پر کنفڈریشن کے قیام اور نیم علاقائی گروہ بندیوں کی تجویز سے بھارت کو پورے خطے کے لیے زیادہ جامع تجاویز سامنے لانے کا موقع ملا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم دیوی گوڑا کی کابینہ کے وزیر خارجہ اندر کمار گجرال نے جنوبی ایشیا کی مشرقی ریاستوں کے لیے معیشت اور جغرافیائی قربت کے بیان پر ایسے گروپ بنانے کی تجویز پیش کی تھی جسے "گجرال ڈاکٹرائن" بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹا اور ان کے ساتھ مشترکہ سرحد رکھنے والے بھارت کا گروپ تشکیل دینے کی بات کی گئی تھی۔ البتہ اس میں بھارت کی مشرقی ریاستوں اور بالخصوص بنگلہ دیش اور آسام کے مابین کافی سفری ذرایع نہ ہونے کی وجہ سے اس میں کئی دشواریاں تھیں۔ بھارت مسلسل اس خطے کو معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر نظر انداز کررہا ہے۔
اس خطے میں تیل، لکڑی، چائے سمیت مختلف قدرتی وسائل کے ساتھ کم و بیش وہی برتاؤ کررہا ہے جو برطانوی نوآبادیات کے دور میں کیا جاتا تھا۔ ان پالیسیوں پر عوامی غیض و غضب کو قابو میں لانے کے لیے نصف دہائی سے بھارت یہاں طاقت کا بے دریغ استعمال کررہا ہے۔ بھارت اس علاقے میں براہ راست رسائی کے لیے ایک بڑی نہر بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ یہ مجوزہ نہر بنگلہ دیش کے درمیان میں سے گزرے گی۔ اس کی وجہ سے بنگلہ دیش عملا دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ یہ منصوبہ بنگلہ دیش کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوگا۔
امریکا اور نیٹو کے افغانستان سے انخلا نے خطے میں نئے اتحاد بنانے کی راہیں کھول دی ہیں۔ اس میں معیشت کو فوقیت حاصل ہوگی۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ 70ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ اسے اکیسویں صدی کی شاہراہِ ریشم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ انڈوپیسفک کے راستوں پر مبنی وہی تجارتی گزرگاہ ہے جو جنوب مشرقی ایشیا سے جنوبی ایشیا، مشرق وسطی اور افریقہ تک پھیلی ہوئی ہے۔ اسی خطے میں بنگلہ دیش کی مرکزی حیثیت کے ساتھ ایسوسی ایشن آف ایسٹرن اسٹیٹس آف ساؤتھ ایشیا کا تصور پوری طرح موزوں ہے۔
خلیج بنگال کی تجارتی گزرگاہ جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر معاشی سرگرمیوں کو کئی گنا بڑھا دے گی۔ اس لیے دنیا کے لیے ضروری ہے کہ ایسوسی ایشن آف ایسٹرن اسٹیٹس آف ساؤتھ ایشیا کو خوش حالی اور تجارتی فروغ کے ذریعے کے طور پر دیکھے۔
(کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی کونسل فور فارن افیئرز کے چیئرمین اور قائد ہاؤس میوزیم میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف نیشن بلڈنگ کے بورڈ آف مینجمنٹ کے نائب چیئرمین بھی ہیں۔)