پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے امیدوار یوسف رضا گیلانی نے سینیٹ انتخاب میں 169 ووٹ حاصل کیے جب کہ مدمقابل وفاقی وزیر خزانہ کو 164ملے، ایک ووٹ کاسٹ نہیں ہوا جب کہ کم از کم 7 ووٹ ضایع ہوئے۔
اس صورت حال سے واضح ہوگیا کہ حکومتی صفوں سے وفاداریاں تبدیل کی گئیں۔ خواتین نشست کے لیے تحریک انصاف کی امیدوار فوزیہ ارشد نے 174ووٹ لے کر کام یابی حاصل کی تاہم انھیں حاصل ہونے والے ووٹ بھی ایوان میں حکومتی ارکان کی کل تعداد 180سے کم رہی۔
عمران خان نے جرأت کے ساتھ اپوزیشن کو جواب دیا اوراعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کردیا۔ وزیر اعظم نے نہ صرف بہ آسانی مطلوبہ ووٹ حاصل کیے بلکہ انھیں انتخاب کے وقت ملنے والے ووٹوں سے دو ووٹ زائد ملے اور مجموعی طور پر 178 ارکان نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم کے اس اقدام سے ملک میں سیاسی غیر یقینی ختم ہوگئی۔
اعتماد کے ووٹ میں اعلانیہ رائے شماری ہوتی ہے اس لیے جن ارکان نے پہلے اپنے ضمیر کا سودا کیا تھا انھیں بھی وزیر اعظم کو ووٹ دینا پڑا۔ پی ڈی ایم کو اس اجلاس میں شریک ہونا چاہیے تھا۔ اتفاق دیکھیے کہ1993میں نواز شریف نے بھی عدلیہ سے تنازع کے بعد رضاکارانہ، اعتماد کا ووٹ حاصل کیا تھا۔
اپنے 13نومبر 2014 کے ایک کالم میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ "برطانیہ کے دارالامرا (ہاؤس آف لارڈز) کی طرز پر بالواسطہ انتخاب کا نام نہاد جمہوری طریقہ ہمارے لیے عار بن چکا ہے۔ سینیٹ انتخابات میں لگنے والی بولیاں جمہوریت کی توہین ہیں۔ آئین میں بیان کیے گئے اکثریت اور متناسب نمایندگی کے اصول بنیادی جمہوری تقاضا ہیں۔
متناسب نمایندگی سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی جماعت کو صوبائی اسمبلی میں ملنے والی نشستوں کے تناسب سے سینیٹ میں نشستیں ملنی چاہییں۔ طاقت اور پیسے کی کھیل کی وجہ سے سینیٹ میں خفیہ رائے شماری کا طریقہ برقرار رکھا گیا ہے۔ ووٹوں کی اس خرید و فروخت کی وجہ سے ہمارا ایوان بالا اپنا وقار کھو چکا ہے۔" سینیٹ انتخابات جمہوریت کے نام پر ہمارے ہاں ہونے والی منافقت کی یاددہانی بن کر آتے ہیں۔ پاکستان جیسے وفاقی ریاست میں سینیٹ کو ایک بااعتبار قانون ساز ادارہ ہونا چاہیے۔
بدقسمتی سے حکومت سپریم کورٹ سے خفیہ رائے شماری کا طریقہ تبدیل کروانے اور اسمبلی میں نمایندگی کے اعتبار سے سینیٹ کی نشستوں کی تقسیم کا طریقہ منوانے میں ناکام رہی۔ یہ مطالبات آئین میں شامل ہیں اور اس پر غور و خوص کی ضرورت ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں کیوں کہ خفیہ رائے شماری میں ووٹوں کی خرید و فروخت سے متناسب نمایندگی متاثر ہوتی ہے۔ 1973سے خفیہ رائے شماری کے طریقے کو برقرار رکھا گیا ہے جو متناسب نمایندگی سے مطابقت نہیں رکھتا۔
اسی وجہ سے ایوان بالا میں سیاسی جماعتوں کی متناسب نمایندگی کا اصول پامال ہو رہاہے۔ سیاسی جماعتیں جمہوری نظام کا اہم ترین حصہ ہیں اور پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ دینا ایک بنیادی جمہوری تقاضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے قوانین میں اصلاحات کرکے فلور کراسنگ کا راستہ تو رو ک لیا گیا لیکن سینیٹ میں ووٹ خریدنے والوں نے ارکان کے "بنیادی حق" کی آڑ میں اپنی سیاسی چال کھیلی۔
اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد ایوان سے اپنے خطاب میں عمران خان نے بتایا کہ انھیں سینیٹ کے ووٹوں کے لیے ہونے والی سودے بازی کا علم تھا۔ انھوں نے الیکشن کمیشن پر انتخابی شفافیت برقرار رکھنے میں ناکامی کے باعث جمہوریت کو نقصان پہنچانے کا الزام بھی عائد کیا۔
سینیٹ انتخاب میں ہونے والی سودے بازی کے زہریلے اثرات ہمارے سماج پر برسوں برقرار رہیں گے۔ ملک کے اعلیٰ ترین ایوان میں ضمیر فروشی کے اس کھیل نے قوم کو یہی پیغام دیا ہے کہ اس سطح کے لوگ بلاخطر بددیانتی کرسکتے ہیں تو ہم اپنے حصے سے کیوں محروم رہیں۔ وزیر اعظم کی الیکشن کمیشن کو خفیہ اداروں کی جانب سے بریفنگ کی پیش کش بھی اس لیے ناموزوں لگتی ہے کہ مفاد عامہ کے ایسے حساس مسائل پر براہ راست حقائق عوام کے سامنے آنے چاہییں۔ خفیہ اداروں کو ملک کے باہر دشمنوں کے ساتھ ریاستی نظام کو کمزور کرنے والے عناصر کے خلاف بھی گھیرا تنگ کرنا چاہیے۔ ملکی سلامتی کو صرف بیرونی خطرات درپیش نہیں ہوتے بلکہ سیاسی نظام کی شکست وریخت بھی کسی قوم کی بقا خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
کیا ہم ایسی بداعمالیوں کا برسرعام حساب مانگنے کے قابل نہیں ہوئے؟ ووٹوں کی خریداری ایک فوجداری جرم ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کو بے نقاب ہونا چاہیے۔ ایسے لوگوں کی ریاست کو کمزور کرنے والی ان کی سیاسی سرگرمیوں سے دور کیوں نہیں کیا جاتا۔ فورینسک شواہد اور جعلی اکاؤنٹس کے ساتھ منی لانڈرنگ سے متعلق حقائق کی بنیاد پر نیب کو ایسے ملزمان کی گردن ناپنی چاہیے۔
ملکی دارالحکومت سے ساٹھ ستر کلومیٹر دور سوات میں شرپسند عناصر نے اپنے پنجے گاڑھ لیے تھے۔ اس کے بعد آرمی پبلک اسکول کا اندوہ ناک واقعہ پیش آیا جس میں معصوم بچوں کا خون بہایا گیا جس کے بعد ملک کے لیے ایک قومی ایکشن پلان بنایا گیا۔ حکومت نے شرپسندوں کے خلاف کارروائی پر لیت و لعل کا مظاہرہ کیا لیکن اس کے باوجود جنرل راحیل شریف نے پورے عزم کے ساتھ فاٹا، سوات اور بالخصوص شمالی وزیرستان میں سخت کارروائی کا آغاز کیا۔
جنرل باجوہ نے سپہ سالار بننے کے بعد اس کارروائی کو کام یابی کے ساتھ جاری رکھا۔ ان علاقوں میں عوام کے جان و مال کو نقصان پہنچانے والوں کا صفایا کیا گیا، ملک میں کرپشن کرنے والوں کے خلاف بھی ایسی ہی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ تھوڑی بہت قابو میں رکھی گئی جمہوریت اس نظام سے بہتر ہے جس میں سفاکانہ کرپشن اور لوٹ مار کی کھلی چھٹی دی گئی ہو۔ پھر جرائم پیشہ اپنے جیسوں کا دفاع نہیں کریں گے تو کس کا کریں گے۔ ایسے عناصر کا خاتمہ تو ممکن ہے لیکن انھیں جمہوری اقدار کو مجروح کرنے سے روکا تو جاسکتا ہے۔
سینیٹ کی کوئی اور نشت دینے سے میرے فاضل دوست عبدالحفیظ شیخ کو ہونے والی شکست کا ازالہ نہیں ہوسکے گا۔ لیکن ان انتخابات نے ہمارے جمہوری نظام میں موجود جرائم کی گنجائش کو ایک بار پھر بے نقاب کردیا ہے۔ سینیٹ کی ایک نشست جیتنے کی دھن میں پی ڈی ایم نے اپنا وجود داؤ پر لگادیا۔ لیکن ہمیں ایک بار سوچنا چاہیے کہ اداروں کی یہ بے توقیری آگے کیا گل کھلائے گی۔ اسٹیبلشمنٹ اس بارے میں کیا سوچ رکھتی ہے؟ اس سوال کا جواب بھی اہم ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)