Monday, 18 November 2024
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Bhutto Ya Imran

    Bhutto Ya Imran

    ایک سیمینار جس کا موضوع " تعلیم اور ہنر ساتھ ساتھ" کا انعقاد شہر کی ایک دانش گاہ میں انعقاد پذیر ہوا۔ یہ اطلاع پی ٹی آئی نے اپنے آفیشیل پیج پر ٹوئٹ کے ذریعے ایک دن پہلے شئیر کر دی تھی۔ اس سیمینار میں حکومت پنجاب اس کا ہائر ایجوکیشن شعبہ پی آئی ٹی بی آن بورڈ تھے۔ یہ ہمارا موضوع نہیں تا ہم وہاں ایک حقیقت واضح ہو گئی۔

    گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں عمران خان کے خطاب نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ بھٹو کی طرح طلبا میں بھی انتہائی مقبول ہیں۔ یہ دانش گاہ ملک کے ذہین ترین اور اساتذہ کا اجتماع سمجھیے یہاں کے طلبا اور اساتذہ بلا شک و شبہ تعلیم میں ایک مینارہ نور ہیں۔ ان کا جوش و خروش دیدنی بھی تھا اور ایک طرح مستقبل کا اشارہ بھی۔ ویسے بھٹو اور عمران کا موازنہ اس لیے نہیں بنتا کہ ایک کا خاندان سیاسی اور دوسرے کا قطعا غیر سیاسی تھا۔ عمران منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوا اس نے اپنا آپ اپنی محنت سے بنایا۔

    میرے ایک کولیگ نے جو ٹیسٹ کرکٹر بھی رہے، بتایا کہ کرکٹ میں نوجوان لڑکوں کو ہمیشہ عمران خان کو Success Storyکے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اور انسپائریشن کے لیے بھی اس کی ہی مثال دی جاتی ہے۔ بھٹو کے والد سر شاہ نواز کا قائد اعظم سے تعلق اس وجہ سے بھی تھا کہ متحدہ ہندوستان کے 1937 کے انتخابات میں شاہ نواز کی یونائیٹڈ پارٹی کو سندھ میں اٹھارہ سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔

    سر شاہ نواز کئی اعلی سرکاری اور غیر سرکاری عہدوں پر فائز رہے اور تو اور انہوں نے گول میز کانفرنس میں شرکت کی اور سندھ کو الگ ریاست بنانے کا مطالبہ بھی کیا۔ بھٹو بھی کرکٹ کلب انڈیا کی طرف سے بھی کھیلتا تھا اس کا ایک دوست اور کلاس فیلو عمر قریشی کمنٹیٹر بھی کمال کا بنا۔

    عمران خان کا نہ ایسا خاندانی پس منظر تھا نہ اس کے خاندان میں کوئی ایسا سیاستدان تھا جس کا سیاست سے عملی تعلق ہو۔ اس کے باوجود عمران خان کا اس طرح کا عوام میں مقبول ہو جانا ایک اچنبھے کی بات ہے۔ اس نے ایک کھلاڑی کی حیثیت سے زندگی گزاری اور سیاست میں اس وقت داخل ہوا جب سیاستدان سیاست سے تائب ہو جاتے ہیں۔ سیاست دان عموما ایک سیٹ کا سیاست دان ہوتا ہے جس کی مثال ہمیں پاکستان کے کسی ضلع پر ایک عام سی اچٹتی نگاہ ڈالنے سے بھی مل جاتی ہے۔ لوکل سیاست دان وہیں گٹھ جوڑ اور دولت کے بل بوتے ایک آدھ سیٹ نکالنے پر کامیاب ہوتا ہے اور ننانوے فیصد اسی ایک سیٹ کے سیاست دان ہوتے ہیں اور رہتے ہیں۔

    اسی ایک سیٹ کے بل بوتے پر وہ الیکٹیبل بنتا ہے اور یوں اس کے لیے ملکی سیاست کے در وا ہوتے ہیں اور وہ کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو جاتا ہے۔ نہ وہ زندگی بھر سیاسی جماعت بنا سکتا ہے اور نہ ایسے یک نشستی الیکٹیبل کی کوئی حیثیت ہوتی ہے۔ جیسے بھٹو ممبئی میں کرکٹ کھیلتا اور کرکٹرز سے دوستیاں پالتا تھا اس طرح عمران خان اپنی اوائل کرکٹ کے دنوں کسی سیاست دان کے نزدیک نہیں رہا نہ پاکستان میں اور نہ انگلینڈ میں جہاں اس کی زندگی کا زیادہ عرصہ گزرنا تھا۔ پوری دنیا کوئی ایسی مثال نہیں کہ کسی کرکٹر نے اپنی سیاسی جماعت بھی بنائی ہو اور ملک کا وزیر اعظم بھی بنا ہو۔ سیاست دان ہی وزیر اعظم بنا ہے خواہ اسے بنانے والوں نے بنایا ہو۔ دو کشتیوں کا انتخاب کرنے والے سے منزل اور یکسوئی اس سے دور ہی رہتی ہے۔

    ان دونوں میں ایک مماثلت امریکہ کی مخالفت کی ہے۔ یہ مخالفت ایک نے اپنے اقتدار کے دنوں میں دوسرے نے اقتدار چھن جانے پر۔

    امریکہ کا پاکستانی سیاست میں کردار سے کسے انکار ہے۔ لیکن امریکہ کے خلاف اس طرح کی پوزیشن پاکستان کے سیاسی رہنما نے نہیں لی جیسے اب عمران خان نے لی ہے۔ یوں تو پاکستان بننے کے اگلے دن امریکہ کے وزیر خارجہ مارشل نے اپنے پیغام میں نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا مگر یہ بھی باور کرایا تھا کہ امریکہ نئی حکومت کو " گہری دلچسپی سے" دیکھ رہے ہیں۔ ایک سچ ہے کہ وہ دن اور آج کا دن امریکہ کی یہ گہری دلچسپی اب تک جاری ہے اور موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن کی 2011 میں اسلام آباد پاکستان کے صدر آصف زرداری سے ملاقات کو بھی انتہائی اہم قرار دیا تھا۔

    یہ " گہری دلچسپی" اور" انتہائی اہم" ملاقات خود امریکہ ہی گہرا دلچسپ اور انتہائی اہم بناتا ہے۔ ایک نقطہ نظر کے مطابق بھٹو بہر حال ہر طرح سے عمران سے بہادر تھا اس لحاظ سے دونوں کا موازنہ بنتا ہی نہیں۔ بھٹو نے تاشقند میں میز پر جنگ ہارنے کا کارڈ استعمال کیا تو عمران نے سنائفر کا پرچہ لہرا کر امریکہ کے خلاف جذبات ابھارے۔ بھٹو کو امریکہ نے کھلے عام دھمکی دی جبکہ عمران کے بارے میں امریکی رویہ محتاط ہے۔ قوم کی خاطر کھڑا ہونے کا جذبہ بھٹو میں کہیں زیادہ تھا۔ عمران نے ابھی اس امتحان میں پورا اترنا ہے اور ثابت کرنا ہے کہ وہ کتنے پانی میں کھڑا ہے۔

    پنجاب ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تاراہی رہا ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ پنجاب ہی اسٹیبلشمنٹ کی اصل طاقت کا مرکز ہے۔ بنگالیوں سے لے کر اب بلوچستان کے قوم پرست رہنماوں تک سبھی پنجاب کے رول کے بارے میں مشکوک ہی رہے ہیں۔ حالانکہ یہ مغالطہ عام پنجابی کی سمجھ سے بالاتر ہے وہ پچھتر سالوں سے اسی طرح پسماندگی اور حقوق سے محروم رہا ہے جس طرح دوسری قومیتں رہی ہیں۔ پہلے دن سے بذات خود پنجاب کو ہی اسٹیبلشمنٹ سمجھا جاتا رہا ہے۔ متحدہ پاکستان یعنی 1971 تک ایک بھی فوج کا سربراہ پنجاب سے نہیں تھا۔ گل حسن تو محض تین ماہ کے عرصے تک اس عہدے پر فائز رہے۔

    اس وقت عمران کی مقبولیت کی لہر کا سارا زور پنجاب میں ہے۔ اس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی کسی جارحانہ ممکنہ اقدام کی راہ میں سدِ ذوالقرنین پنجاب کی یوتھ کی unrest ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی پنجاب کے یوتھ کی یہ بے چینی کسی عملی شکل میں ظہور پذیر ہو سکے۔