وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سوچا جا رہا ہے کہ "پانی گھما کر واپس تربیلا اور بھاشا ڈیم کیسے پہنچائیں"۔
آقا زرداری کی ہدایت پر سندھ کے عوام کو تو ہم نے پچھلے چالیس سال سے گھمایا ہوا ہے اور گھمانے کا ہمارا تجربہ بھی بہت ہے۔ آقا زرداری ہمارے سیاسی ڈیل کارنیگی ہیں وہ وقتا فوقتا ایسے نسخے ارزاں کرتے رہتے ہیں اور ان کے ملفوظات کی روشنی میں ہم نے عوام کو اتنے چکر دیے ہیں کہ اب وہ ہمیں دیکھتے ہی چکرا جاتے ہیں۔ اسی گھومنے گھمانے میں دونوں طرف کا کام چل رہا ہے۔ عوام گھومتے گھومتے بہت دور نکل گئے ہیں۔ پانی کو واپس گھمانے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جی ڈی اے کے لوگوں کی زمینوں کی طرف اس کا منہ موڑ دیا جائے۔ جب تک ان کا منہ بند نہ ہو جائے پانی کا اسی طرح گھمانا جاری رکھا جائے۔
تھوڑا بہت پانی حلیم شیخ اور نصرت سحر عباسی کی جانب بھی موڑا جائے۔ ان دونوں نے بھی بہت ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ محکمہ مال کو ہدایت جاری کر دی گئی ہے کہ ان کی زرعی زمینوں تک اس پانی کو گھمایا جائے اور اس وقت تک اس کا گھمانا جاری رکھا جائے جب تک باقی سندھی ہاریوں کی طرح یہ از خود چکرا کر گر نہیں جاتے۔ تربیلا ڈیم میں واپس پانی گھمانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ عین ممکن ہے مسلم لیگ ن صوبہ پختون خواہ انجنئیر امیر مقام چند بالٹیاں پانی کی بنی گالہ پر پھینک سکیں۔ وہ بھی ہماری طرح درد دل رکھنے والی شخصیت ہیں۔ امیر مقام سندھ میں ہوتے تو بہت ترقی کرتے۔ خیر وہ ادھر بھی خوش ہیں۔ ان کا بھی ہماری طرح اقبال کے اس شعر پر پکا یقین ہے
یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتان وہم و گماں لا الہ الا اللہ۔
مصطفٰی نواز کھوکھر ترجمان پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ " طالبان پاکستان میں بھتہ سمیت بیس کروڑ ڈالر سالانہ کماتے ہیں"۔
سچی بات ہے اتنی رقم کا سن کر ہی منہ میں پانی بھر آتا ہے۔ حساب لگا کر دیکھیں تو یہ رقم تقریباً پچاس ارب سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ دیکھیں تو طالبان کرتے کیا ہیں جو وہ اتنی رقم کما لیتے ہیں۔ ہم پیپلز پارٹی والے تو چلو حکومت کرتے ہیں وزارتیں لیتے ہیں اٹھارہویں ترمیم پاس کرواتے ہیں میثاق جمہوریت کرتے ہیں یہ طالبان کیا کرتے ہیں؟ ان وزارتوں اور ترمیموں سے حاصل حصول کو آقا زرداری دال دلیا ہی سمجھتے ہیں۔ ان طالبان کو اس کارِ خیر سا کچھ کام انہیں اپنے پیر و مرشد ملک افغانستان میں بھی کرنا چاہیے۔ وہاں بھی بڑی بڑی اسامیاں ہیں۔ آخر اشرف غنی وہیں سے کما کر گئے ہیں وہ کون سے متحدہ عرب امارات میں ٹیکسی چلاتے رہے ہیں۔
کیا زمانہ تھا جب یہاں بھی ڈالروں کے بورے آتے تھے اور ان افغان مجاہدین کے حضور پیش کیے جاتے تھے۔ آدھے سے زیادہ یہاں تقسیم کار رکھ لیتے تھے۔ اب وہ لوگ کھربوں میں کھیل رہے ہیں۔ مگر اس وقت ہمارے دشمن کی یہاں ناجائز حکومت تھی۔ وہی ناجائز حکومت ان ڈالروں کو اللے تللے اڑایا کرتے تھے۔ پھر ہماری پارٹی کی ڈور آقا زرداری کے ہاتھ آ گئی۔ یہ ڈور ان کے ہاتھ میں آنے کی دیر تھی کہ عشروں کے دلدر دھل گئے۔ ایسا طریقہ رائج کرنے کا سہرا آقا کے ہی سر سجتا ہے۔ ہم بھی اپنے تئیں دال روٹی چلا ہی رہے تھے مگر تاریخ کا سنہری دور ان کی سیادت میں پھیل رہا ہے۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا ہے "پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کی لڑائی اسٹیبلشمنٹ سے دودھ کی بوتل لینے کے لیے ہے۔ جن سے بوتل چھن جائے رونا شروع کر دیتے ہیں"۔
ہمیں معلوم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا اپنا فارم ہاؤس ہے، جہاں ساہی وال نسل کی بھینسیں وافر تعداد میں موجود ہیں۔ جس بھینس کو وہ چاہتے ہیں دوہ لیتے ہیں۔ یہ بھینسیں ایسی ناہنجار ہیں کہ وہاں دودھ بھی زیادہ دیتی ہیں اور گوبر بھی نہیں پھیلاتیں۔ اپنی اپنی جگہ کو اپنے پوچھل کو جھاڑو بنا کر صفائی کرنے میں ماہر ہیں۔ ان کے ٹنوں کے حساب کے دودھ میں سے ایک بوتل پر یہی دو جماعتیں ہی ٹرخائی جا سکتی ہیں حالانکہ شاعر مشرق فرما گئے ہیں۔
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی تھا
جہاں تک ہماری جماعت کا تعلق ہے ہمیں اس دودھ سے غرض ہی نہیں۔ یہ فارم ہاؤس جب ہمیں دودھ کا کٹورا دیتا ہے تو اس میں مینگنیاں ڈال دیتا ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا آم کے آم گٹھلیوں کے دام اب ہم نہیں کہہ سکتے دودھ کا دودھ مینگنیوں کی مینگنیاں۔ ہم اپنے فارم ہاؤس کے خالص دودھ پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر یہ دونوں پارٹیاں اس دودھ کی بوتل پر لڑائی نہ کریں تو اسٹیبلشمنٹ کے فارم ہاؤس سے ملک پاکستان کے ہر گھر تک خالص دودھ پہنچ جائے۔ آزمائش شرط ہے۔
اطلاع ہے کہ ایک شہری شہزاد نے "پرویز الہی کے تیس سے زائد مشیروں کی تعیناتی ہائی کورٹ میں چیلنج کر دی"۔ پرویز الہی نے کہا ہے کہ خوئے بد را بہانہ بسیار۔ ہماری ق لیگ جو اب بڑے بھائی لے اڑے ہیں کے کسی کارکن نے شہباز شریف کی ستر رکنی کابینہ کے بارے میں کوئی رٹ دائر نہیں کی۔ جہاں شہباز شریف کی حکومت ہے وہاں صرف ستائیس تھانے ہیں۔ انہوں نے اتنے مشیر رکھے ہوئے ہیں اس سے زیادہ تھانے تو ہمارے ضلع گجرات کے ہیں۔
پہلے ان کے ستر وزیر مشیر تھے اب نعمان لنگڑیال اور سردار یوسف کے بیٹے کو بھی مشیر بنا لیا ہے۔ ہم نے تو کسی کو مشیر نہیں لگایا۔ ویسے ہمیں مشیر کی ضرورت بھی نہیں۔ ہمیں یہ ہی کافی ہیں جو ان کے سارے مشیروں پر بھاری ہیں، بے شک ڈنڈا سوٹا کر کے دیکھ لیں۔ اسی لیے یہ ہمیں جان سے بھی عزیز ہیں۔