اگر کوئی فوری طبّی یا سیاسی رکاوٹ حائل نہ ہوئی تو میاں نواز شریف کی اے پی سی میں ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت یقینی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے وفد کی قیادت بظاہر میاں شہباز شریف کریں گے مگر باگ ڈور مریم نواز شریف کے ہاتھ میں ہو گی کہ میاں نواز شریف کی جانشین وہ ہیں، میاں شہباز شریف نہیں، اس وقت مسلم لیگ اور شریف خاندان میں میاں شہباز شریف کی حیثیت، کارکنوں اور میڈیا کی نظرمیں بقول مولانا ظفر علی خان ؎
بدھو میاں بھی حضرت گاندھی کے ساتھ ہیں
گو مشت خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں
میاں نواز شریف اور ان کی سپتری مریم نواز شریف کے موقف کو 2018ء کے انتخابات میں عوام نے مسترد کیا، قانونی محاذ پر انہیں شکست ہوئی، سیاسی سطح پر بھی باپ بیٹی کو بار بار ہزیمت اٹھانی پڑی مگر مسلم لیگ (ن) اور میڈیا میں موجود ان کے بعض بزعم خویش حریت پسند مشیروں نے باور کرا رکھا ہے کہ مزاحمتی بیانیہ تاریخ ساز ہے اور عوام اس بیانیے پر مرمٹے ہیں، یہی بیانیہ شریف خاندان کے ایوان اقتدار میں داخلے کی شاہ کلید ہے اور غیر جمہوری قوتوں کے لئے پیام مرگ۔ سامنے کی اس حقیقت کو یہ مشیر تسلیم کرنے پر تیار ہیں نہ میاں صاحب کے اندھے پیروکار کہ اگر واقعی یہ بیانیہ شریف خاندان اور مسلم لیگ کے لئے مفید ہے اور حقیقی جمہوریت کے احیا کے لئے نسخہ کیمیا تو میاں صاحب بیرون ملک کیوں بیٹھے ہیں۔ مریم نواز شریف کی روپوشی اور خاموشی کا سبب کیا ہے اور ان کے بیانئے سے متفق پارٹی ارکان سامنے آ کر بڑے میاں صاحب سے یہ مطالبہ کیوں نہیں کرتے کہ مسلم لیگ کی قیادت مفاہمت پسند شہباز شریف کے بجائے کسی "مرد مزاحمت" کے حوالے کی جائے مثلاً پرویز رشید، مشاہداللہ خان یا "تیغ بغاوت" مریم نواز۔
بعض موقع پرست مسلم لیگی لیڈر اور "پھپھے کٹنی" ٹائپ دانشور و قلمکار میاں شہباز شریف کے مفاہمتی بیانئے کو ہدف تنقید بناتے اور طنز و تشنیع کے تیر برساتے ہیں تو میں حیران رہ جاتا ہوں، مفاہمتی بیانئے کو میاں شہباز شریف کی کم ہمتی اور کمزوری سے تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں جب میاں نواز شریف نے دس سالہ رضا کارانہ جلاوطنی اور سیاست بدری کا سمجھوتہ کیا تو شہباز شریف جدہ جانے پر تیار نہ تھے اور آخری وقت تک پاکستان میں رہنے پر اصرار کرتے رہے، میاں نواز شریف آٹھ ہفتے کی طبّی ضمانت بغرض علاج ملنے پر بیرون ملک گئے اور آج تک واپس نہیں آئے مگر میاں شہباز شریف مارچ میں واپس آ گئے اور ان کے صاحبزادے جیل بھگت رہے ہیں مریم نواز شریف کی عرصہ دراز تک روپوشی اور خاموشی کا کوئی جواز آج تک مسلم لیگی لیڈر پیش کر سکے نہ ان کے میڈیا مینجرز، میاں شہباز شریف کو یہ طعنہ اپنے خاندان، مسلم لیگی قیادت، کارکنوں اور میڈیا سے سننا پڑتا ہے کہ انہیں مفاہمتی سیاست سے کیا فائدہ ہوا؟ ۔ حمزہ شہباز شریف تک کو رہا نہیں کرا سکے عمران خان اور ان کے ساتھی بھی انہیں معاف نہیں کرتے جبکہ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کی نظر میں بھی وہ ولن ہیں، اس مخالفت، طعن و تشنیع اور دبائو سے گھبرا کر میاں شہباز شریف نے موقف بدلا نہ راستہ، قومی اداروں سے بگاڑ اور قومی استحکام سے کھلواڑ کی بچگانہ روش اختیار کی نہ پاکستان کے دشمنوں کو حکومت اپوزیشن محاذ آرائی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔ دلیر کون ہوا؟
میاں نواز شریف کو جب بھی موقع ملا انہوں نے اقتدار کے لئے جمہوری اصولوں اور اپنے بلند بانگ دعوئوں کی قربانی دی، ایوان اقتدار میں پہنچ کر انہیں کبھی جمہوریت یاد رہی نہ آئین و قانون کی حکمرانی اور نہ سول بالادستی کا وہ آموختہ جو اپوزیشن کے زمانے میں وہ اپنے حلقہ نشینوں کے سامنے دہراتے ہیں، دور ابتلا میں بھی انہوں نے ذاتی اور خاندانی مراعات و آسائشوں کے لئے سمجھوتہ کیا نومبر میں طبی بنیادوں پر ضمانت ملنے کے بعد وہ لندن گئے تو پھر وہیں کے جا کر ہو رہے، کہا جاتا ہے کہ یہ رعائت بھی انہیں میاں شہباز شریف نے لے کر دی، بھائی جان کے علاوہ عزیز ازجان بھتیجی کی بار بار عہد شکنی کے باوجود کئی بار وزیر اعظم کا منصب چھوٹے میاں نے ٹھکرایا، اب بھی خاندان اور پارٹی میں ان سے وہی سلوک روا رکھا جا رہا ہے جس کا مزہ وہ جدہ میں چکھتے رہے اور جس کا تذکرہ ایک بزرگ صحافی تاسف سے کیا کرتے تھے، بڑے میاں صاحب کی مزاحمتی پالیسی مسلم لیگ کے عقاب صفت کارکنوں اور رہنمائوں کے علاوہ ملک کی جمہوریت پسند قوتوں کو بے وقوف بنانے کے سوا کچھ نہیں۔ میاں شہباز شریف اور مریم نواز بنیادی طور پر میاں نواز شریف کے دو چہرے ہیں، ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور، راتوں کو ملاقاتوں اور حصول مراعات کے لئے میاں شہباز شریف سے بہتر مہرہ نہیں اور دن کے اجالے میں بچہ جمورا سیاسی کارکنوں، دانشوروں اور قلمکاروں کے لئے مریم نواز کارآمد ہیں۔
میاں نواز شریف کی میڈیا لنک اور مریم نواز شریف کی براہ راست شرکت سے آل پارٹیز کانفرنس کی وقعت اور ساکھ میں کتنا اضافہ ہو تا ہے اور حکومت کس قدر دبائو میں آئے گی؟ یہ آج واضح ہو جائے گا، اگر مولانا فضل الرحمن کی تجویز کے مطابق میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے اسمبلیوں سے استعفوں کی آپشن پر صاد کیا اور 1977ء طرز کی احتجاجی تحریک پر آمادہ ہوئے تو حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو گا اور موجودہ بُرا بھلا جمہوری نظام بھی خطرے میں پڑ جائے گا لیکن اگر شعلہ بار تقریروں، پرجوش قرار دادوں اور عمران خان سے استعفیٰ کے مطالبہ کے بعد نیا اتحاد بنا کرسب اپنے اپنے گھروں کو چل دیے تو اپوزیشن اپنا رہا سہا بھرم کھو بیٹھے گی۔ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے لے کر ایف اے ٹی ایف بل کی منظوری تک اپوزیشن کی بے سروسامانی کا نظارہ پوری قوم کر چکی ہے اب بھی عمومی تاثر یہ ہے کہ عمران خان پورا زور لگا لیں مگر یہ اپوزیشن اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرے گی کوئی اسے اقتدار کی راہداریوں میں داخل نہیں کر سکتا، اسمبلیوں سے استعفوں اور مذہبی کارڈ کے ساتھ احتجاجی تحریک مگر دو دھاری تلوار ہے۔ 1977ء کی تحریک کا نتیجہ بھٹو اور اس کے مخالفین دونوں نے بھگتا، 1999ء میں جی ڈی اے کا ون پوائنٹ ایجنڈا بھی شریف خاندان اور زرداری خاندان کی جلاوطنی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اب کے پُرامن تبدیلی کا امکان نہ ہونے کے برابر۔ معلوم نہیں مولانا کو اس کااحساس و ادراک ہے یا نہیں، آصف علی زرداری میاں شہباز شریف بخوبی جانتے ہیں، میاں نواز شریف اور مریم نواز بھی بے خبر نہیں، بلاول بھٹو نے دونوں کو البتہ مشکل میں ڈال دیا ہے، شائد وہ بھی مفاہمتی اور مزاحمتی سیاست کے پرفریب کارڈ کو ناکارہ بنانے کے درپے ہیں ورنہ انہیں اپنے پتے شو کرنے پر مجبور نہ کرتے، میاں شہباز شریف معلوم نہیں کب تک برادر بزرگ کی دوعملی، اپنوں کے طنزو استہزا اور بیگانوں کے جورو ستم سہتے مفاہمتی سیاست کی راہ پر گامزن رہتے ہیں، جس کا نتیجہ نقصان مایہ شماتت ہمسایہ کے سوا کچھ نہیں۔